تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     07-09-2019

تاریخ سے کچھ سیکھا گیا؟

تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی۔ تاریخ صرف آگے کی طرف بڑھتی ہے، اور اپنے جلو میں نئے واقعات و حوادث لے کر چلتی ہے؛ تاہم تاریخ کے سفر میں کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں، جو مختلف شکلوں میں بار بار رونما ہوتے ہیں۔ یہی وہ واقعات ہوتے ہیں جن سے کچھ لوگوں نے یہ غلط نتیجہ اخذ کیا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اور یہی وہ واقعات ہوتے ہیں، جن سے انسان نے سبق سیکھنا ہوتا ہے اور اس تجربے کو آنے والے وقت میں بہتر فیصلوں کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے؛ البتہ تاریخ جو چیز دہراتی ہے، اور بار بار دہراتی ہے وہ مواقع ہوتے ہیں۔ تاریخ صرف کسی ایک خاص وقت کے لوگوں یا خاص دور میں مواقع نہیں مہیا کرتی، بلکہ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کسی موقع سے فائدہ اٹھائے یا کسی نادر و نایاب موقع کو ضائع کر دے۔
کشمیر کی تاریخ میں کئی ایسے نادر و نایاب مواقع آئے جب اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں پیش رفت ہو سکتی تھی‘ لیکن ان مواقع کو کھو دیا گیا۔ پوری تاریخ میں جائیں تو داستان بہت طویل ہے، ایسے ہزاروں مواقع نظر آتے ہیں، جو ہماری بے حسی، غفلت یا بصیرت کی کمی کی نذر ہو گئے؛ تاہم اگر جدید تاریخ پر ہی نظر ڈالی جائے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایسے بے شمار مواقع تھے، جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا، اور یہ بہترین مواقع کھو دیے گئے۔
ایک نادر موقع وہ تھا، جب ہندوستان کی شاہی ریاستوں سے تاج برطانیہ کی محدود حکمرانی ختم ہو گئی تھی۔ ایسا پندرہ اگست انیس سو سینتالیس میں قانونِ آزادیٔ ہند کی روشنی میں ہوا تھا۔ اس قانون میں برطانوی پارلیمان نے واضح کیا تھا کہ پندرہ اگست کو تاج برطانیہ اور شاہی ریاستوں کے درمیان موجود تمام معاہدے اور سمجھوتے ختم ہو جائیں گے، اور ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔ اس روز ریاست جموں و کشمیر بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد تھی۔ ریاست کے اس وقت کے حکمران، اور ریاست پر سو سال تک حکومت کرنے والے ڈوگرہ خاندان کے وارث مہاراجہ ہری سنگھ کے ذہن میں مستقبل کا تصور یہ تھا کہ انگریزی راج کے خاتمے کے بعد یہ ریاست جوں کی توں رہے گی اور ریاست کے ملحقہ علاقے‘ جو پاکستان اور ہندوستان بن گئے تھے، اس کے ساتھ کاروبارِ زندگی حسب سابق رکھیں گے؛ چنانچہ اس نے معاہدہ قائمہ کی پیشکش کی جسے پاکستان نے فوراً قبول کر لیا، اور اس معاہدے کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ بھارت نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے، مگر وہ ریاست کی 'جوں کی توں‘ حیثیت میں بھی کوئی قابل ذکر رکاوٹ پیدا نہ کر سکا۔ یہ کشمیر کی جدید تاریخ کا ایک نازک ترین موقع تھا۔ اس موقع پر کشمیریوں میں اتحاد قائم کرنے کی ضرورت تھی، مگر اس وقت کشمیری مختلف سیاسی گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ شیخ عبداللہ‘ جس کے لیے کشمیر کی آزادی ایک اہم مقصد تھا‘ اس موقع پر اتحاد و اتفاق کی وہ فضا پیدا کرنے میں ناکام رہا، جو وقت کی ضرورت تھی۔ کچھ دوسرے رہنما بھی فرقہ پرستی، مفادات اور انا پرستی کا شکار ہو کر اتفاق کے بجائے تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہو گئے۔
دوسرا تاریخی موقع انیس سو تریپن میں آیا، جب شیخ عبداللہ کی حکومت برطرف ہوئی۔ اس وقت بھارت کے خلاف کشمیری عوام میں سخت غصہ اور رد عمل پیدا ہو گیا تھا۔ اس رد عمل کے دوران ستر سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ مگر بد قسمتی سے کچھ طالع آزما کشمیری لیڈر اس موقع پر متفقہ جدوجہد کے بجائے بھارت کے ساتھ مل گئے، اور کٹھ پتلی حکمران بن کر بھارت کے چرنوں میں بیٹھ گئے۔ ان سب کو بھارت نے باری باری اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اور ہر ایک سے اس کے حصے کا کام لینے کے بعد الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اس کو کنارے لگا دیا جاتا رہا۔ یہ سامنے دیکھتے ہوئے بھی کہ ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے، یہ اقتدار کی لالچ میں اس کھیل میں شامل رہے، اور کٹھ پتلی وزیر اعظم کا کردار ادا کرتے رہے۔
تیسرا موقع تیس مئی انیس سو پینسٹھ کو آیا تھا، جب کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے تمام معاہدے اور وعدے توڑ کر اور کشمیر میں وزیر اعظم کا عہدہ ختم کر کے اس کی جگہ وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا‘ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کو جعل سازی سے کانگرس میں ضم کر دیا گیا اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے عوام کی آواز اور مزاحمت کو کچل دیا گیا۔ یہ بھی لوگوں کی سخت ناراضگی اور بے چینی کا وقت تھا، مگر اس وقت بھی لیڈر اپنی اپنی ذاتوں کے تعصبات سے اوپر اٹھنے اور کوئی قابل ذکر قدم اٹھانے میں ناکام رہے۔
چوتھا موقع سترہ مارچ انیس سو ستتر کو آیا، جب ریاست میں صدارتی نظام کے نفاذ کا اعلان کیا گیا اور شیخ عبداللہ بطور وزیر اعلیٰ مستعفی ہو گئے۔ براہ راست صدارتی نظام کے نفاذ کے خلاف لوگ لڑنے کو تیار تھے، مگر ان کی رہبری کے لیے کوئی موجود نہ تھا۔
پانچواں موقع فروری انیس سو چوراسی میں آیا تھا، جب تہاڑ جیل دہلی میں مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تھی۔ تب عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس وقت ریاست کے دونوں حصوں میں عوام سخت مشتعل تھے۔ اس فضا کو کسی بڑی تحریک میں ڈھالا جا سکتا تھا، مگر صحیح معنوں میں کسی منظم سیاسی پارٹی اور قیادت کے قحط کی کی وجہ سے کوئی مستقل اور مؤثر تحریک منظم نہ ہو سکی۔ چند ماہ کے بعد عوام کا غم و غصہ ٹھنڈا ہو گیا، اور حالات سابق ڈگر پر چل پڑے۔ جہاں لاکھوں کے جلوس نکلتے تھے، وہاں چند سو کو باہر نکالنا مشکل ہو گیا۔ لیڈر اپنی ذات میں سکڑتے گئے اور ان کا قد کاٹھ چھوٹا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ بعض منظر سے ہی غائب ہو گئے۔
چھٹا موقع نوے کی دہائی کی تحریک اور بغاوت کے دوران آیا۔ اس تحریک کے دوران چند مواقع پر تحریک کو بہت بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل تھی۔ کئی موقعے ایسے بھی آئے کہ بھارت مکمل طور پر بے بس ہو چکا تھا اور ایسے لگتا تھا کہ حالات اس کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔ بھارت کے کئی ذمہ دار لوگ یہ تسلیم کرنے پر مجبور تھے کہ کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے مگر اس تحریک کو بھی کسی منطقی انجام تک پہنچائے بغیر ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد طویل عرصے بعد موجودہ صورت حال اور تازہ ترین موقع پیدا ہوا ہے۔ پانچ اور چھ اگست کے بھارتی حکومت کے اقدامات، یعنی آئین کی شقوں تین سو ستر اور پینتیس اے کا خاتمہ، ریاست کی تقسیم، اور اس کی حیثیت میں کمی کر کے اس کو ایک یونین ٹیری ٹوری کا درجہ دینا ریاست کے دونوں حصوں میں عوام کے لیے ایک حیرن کن اور صدمہ پہنچانے والا واقعہ ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور سخت سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے فوری کوئی رد عمل نہیں ہوا، لیکن عوام جس صدمے کی حالت میں ہیں اس کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں عوام نے بڑے پیمانے پر بے ساختہ رد عمل دیا‘ جو جلسے جلوسوں، مارچ اور احتجاج کی کئی شکلوں کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ بھی ایک ایسا موقع ہے جب عوام جذباتی ہیجان کا شکار ہیں مگر رہنمائوں کو ہیجان نہیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے اور عوامی جذبات کو بر وقت ایک مثبت اور با مقصد انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا تو وقت ممکن ہے اس کے زخم تو بھر دے اور آہستہ آہستہ لوگ اس صدمے سے نکل کر معمول کے کاموں میں لگ جائیں‘ لیکن اس کے اثرات تادیر رہیں گے۔ اس وقت ابلتے ہوئے عوامی جذبات، اور وسیع پیمانے پر عوام کا از خود سڑکوں پر آنا بھارت مخالفت کا اظہار ہے، مگر اسے کچھ کشمیری لیڈر اپنی مقبولیت کا اعجاز قرار دینے کی کوشش میں ہیں۔ یہ ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھنے اور غلطیاں دہرانے کا طرز عمل ہے۔ اس طرز عمل سے بچ کر لوہے کو ٹھنڈا ہونے سے پہلے پوری قوت سے ضرب لگانے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved