ڈیل نہیں کروں گا، قانونی جنگ لڑوں گا: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ڈیل نہیں کروں گا، قانونی جنگ لڑوں گا‘‘ اور اگر کسی غیر ملکی شہزادے وغیرہ نے مطلوبہ رقم ادا کر دی تو یہ اس کا اپنا فعل ہوگا جس کا میں ذمہ دار نہیں ہوں گا اور اگر کل کلاں کوئی ڈیل ہو بھی گئی تو اسے میرا سیاسی بیان سمجھا جائے‘ کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ زرداری ڈیل کر کے فارغ ہو جائے اور میں جیل میں سڑتا رہوں، لیکن اگر قانونی جنگ بھی لڑنا پڑی تو مریم نواز کے پاس ابھی اور کافی ویڈیوز ہیں جو حقیقتاً تیر بہدف ثابت ہوں گی اور ظاہر ہے کہ ہم نے جو اتنا بڑا کام کیا ہے تو اس کا علاج بھی پورا پورا کر رکھا ہوگا اور بصورت دیگر بھی جہاں تک جیل کا تعلق ہے تو یہاں ہر قسم کی سہولت حاصل ہے اور ویسے بھی جیل اور گھر میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے اور میری پسند کا کھانا بھی دستیاب ہے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں میاں شہبازشریف سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت حالتِ نزع میں ہے، توبہ بھی قبول نہیں ہوگی: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت حالتِ نزع میں ہے، توبہ بھی قبول نہیں ہوگی‘‘ جبکہ میں نے تو ابھی توبہ کی ہی نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ توبہ کے قبول ہونے کے دن ہی نہیں ہیں اور میں ابھی تک حالتِ نزع میں بھی نہیں ہوں اور فی الحال میرا حالتِ نزع میں ہونے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے کیونکہ ابھی میں نے اسلام آباد کو لاک ڈائون بھی کرنا ہے اور تن تنہا کرنا ہے کیونکہ دونوں بڑی پارٹیاں تو منحرف ہو چکی ہیں، نیز میں حکومت کو لات مارنے کی ریہرسل کر رہا تھا کہ میرا گِٹّہ نکل گیا، سو جب تک یہ اپنی جگہ پر نہیں جاتا، مزید ریہرسل کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور اگر یہ ٹھیک نہیں ہوتا تو کوشش کروں گا کہ دوسرا گِٹّہ بھی نکل جائے تا کہ حساب بھی برابر ہو جائے اور یہ عُذر بھی قابلِ قبول ہو جائے کہ حکومت کو لات کیوں نہیں مار سکا جبکہ حکومت حاتم طائی کی قبر ہے جس پر لات مارنا اب ضروری ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام ڈینگی کا شکار اور افسر دفتر میں بیٹھے
رہیںناقابل برداشت ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوام ڈینگی کا شکار اور افسر دفتر میں بیٹھے رہیںناقابل برداشت ہے‘‘ اگرچہ کچھ لوگوں کے نزدیک میں بھی ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہوں، لیکن وہ خاطر جمع رکھیں انہیں مجھ کو برداشت کرنا ہی پڑے گا کیونکہ یہی نہیں کہ میں عمران خان کا منظورِ نظر ہوں بلکہ ، یوں سمجھیے میں تقدیر کا لکھا ہوں جسے کوئی نہیں ٹال سکتا اور چونکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں اضافے کا ہے اس لیے اس فالتو آبادی کو گھٹانے کے لیے پولیس اپنا کردار نہایت خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے اور آئے دن اس نے کوئی نہ کوئی بندہ پھڑکایا ہوتا ہے‘ بلکہ اب تو قومی مفاد میں یہ کام سکول کے استاد اور مدرسوں کے قاری حضرات نے بھی شروع کر رکھا ہے جس سے ایک گوناں تسلی ہوتی ہے کہ کثرت آبادی کا مسئلہ بھی دوسرے مسائل کی طرح جلد حل ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
گم شدہ سائے
یہ روبینہ فیصل کے افسانوں کا مجموعہ ہے جسے القلم انٹرنیشنل نے چھاپا ہے۔'' انتساب اپنے شریکِ حیات فیصل محمود کے نام جن کی میرے لیے محبت لا شریک ہے‘‘۔ ''چند باتیں‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ مصنفہ کا بقلم خود ہے جبکہ دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، اصغر ندیم سید، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر اختر شمار، محمد فاروق عزیز، جبّار مرزا، فیصل عظیم (کینیڈا) ، سیّد حسین حیدر (کینیڈا) ، فیصل فارانی (کینیڈا) اور علامہ عبدالستار عاصم شامل ہیں۔ پسِ سرورق مصنفہ کی تصویر ہے اور چند دیباچہ نگاروں کے اقتباسات۔ اصغر ندیم سید کے بقول:روبینہ فیصل کا یہی انداز ان کی کامیابی کی دلیل ہے کہ یہ افسانے خود کو پڑھواتے ہیں۔ ہر کہانی آپ کو ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آج کی عصری حسیت ان افسانوں میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ افسانے آج کے انسانی معاشرے کی بے شمار کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ روبینہ کی سچائی اور بے باکی نے ان افسانوں کو اردو فکشن میں ایک نئی جہت فراہم کر دی ہے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی یہ تازہ غزل:
نہ یہ زمیں رہے گی اور نہ آسماں رہے گا
بس ایک خوابِ مسلسل یہاں وہاں رہے گا
یہ بات جانتے سب ہیں مگر سمجھتے نہیں
اگر درخت رہے گا تو آشیاں رہے گا
ہمارے دل میں بہت توڑ پھوڑ رہتی ہے
ہمیں یہ فکر لگی ہے کہ تُو کہاں رہے گا
ہو واقعہ کہ فسانہ، تمام تیرا ہے
ہمارا ذکر فقط زیبِ داستاں رہے گا
جہاں بھی ہے، تری خوشبو وہیں سے آئے گی
تُو آس پاس رہے گا نہ درمیاں رہے گا
ہمیں بھی تھی نہ کچھ امید و اعتبار کہ تُو
اسی طرح سے ہمیشہ ہی مہرباں رہے گا
یہ ٹوٹ کر بھی نہیں ٹوٹتا، تعلق ہے
یہ سلسلہ اسی صورت رواں دواں رہے گا
وہاں سے کچھ نہ ملے گا ہمیں، یہ طے ہے مگر
ہمارے سامنے تیرا ہی آستاں رہے گا
کچھ اور تیری اشاروں میں بات ہوگی، ظفرؔ
ابھی کچھ اور اسی طرح بے زباں رہے گا
آج کا مقطع:
خوشبوئیں ہی خوشبو ئیں تھیں کیا، ظفرؔ چاروں طرف
کیا پسینے تھے رواں اور کیا معطر کام تھا