6 ستمبر ہر سال آتا ہے، اور 1965ء کے اُس دن کی یاد دلاتا ہے، جب بھارتی افواج پاکستان پر حملہ آور ہوئی تھیں، اور بین الاقوامی سرحد کو تاراج کر ڈالا تھا۔ حملہ آور کو اپنی پیش قدمی کا اس قدر یقین تھا کہ اس نے اس کی قبل از وقت خبر جاری کر دی تھی۔ بی بی سی نے لاہور پر قبضے کی اطلاع دے کر اپنی رسوائی کا سامان یوں کیا کہ اس کی کریڈیبلٹی پر ہمیشہ کے لیے ایک ایسا سوال کھڑا ہو گیا، معذرت اور خجالت کے سوا جس کا کوئی جواب تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ اِس سال بھی پوری قوم نے جوش و خروش کے ساتھ یہ دن منایا۔ جی ایچ کیو میں منعقد ہونے والی تقریب نسبتاً مختصر تھی کہ اس کے لیے شام کے بجائے صبح کا وقت منتخب کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال وزیر اعظم عمران خان اس کے مہمان خصوصی تھے، اور ان کی تقریر نے پاسبانِ وطن کے بڑے اجتماع سے پُر جوش داد بھی وصول کی تھی۔ شہیدوں اور غازیوں کے افرادِ خانہ نے ان کے لئے بھرپور تالیاں بجا کر گویا یہ اعلان کیا تھا کہ نئے پاکستان سے توقعات انبار در انبار لگا لی گئی ہیں۔ اس سال (شاید) محرم الحرام کے آغاز کی وجہ سے تقریب کا رنگ اور دورانیہ مختلف تھا، لیکن اس کی معنویت جوں کی توں تھی۔ نئے پاکستان کے ''موجد‘‘ یہاں تشریف فرما نہ تھے، اس لیے اس کے حوالے سے اظہارِ اطمینان کا بھی کوئی موقع نہ تھا، لیکن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مضبوط شخصیت کے ساتھ بدستور مرکزِ نگاہ تھے۔ انہوں نے اپنے بھرپور خطاب سے سننے والوں کا اعتماد بحال رکھا۔
تقریب میں شہیدوں کے خاندانوں کے تاثرات پر مبنی ڈاکو منٹری دکھائی گئی تو آرمی آڈیٹوریم میں موجود ہر شخص کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ پاسبانِ وطن کی منتخب تعداد کے ساتھ ساتھ شہیدوں اور غازیوں کے اہلِ خانہ کی موجودگی نے ماحول کے وقار اور اعتبار میں اضافہ کر دیا تھا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ، چائے کے وقفے میں میڈیا کے ارکان سے تبادلۂ خیال میں مصروف رہے، کسی تکلف اور جھجک کے بغیر اٹھائے گئے سوالوں کو چٹکیوں میں اڑا دیا۔ ان کی نظر اپنے ہدف پر تھی، اور وہ یقین دلا رہے تھے کہ ہم منتخب حکومت کے تابع ہیں، اور اس کے فیصلوں ہی کی روشنی میں کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے اور کسی بھی مرحلے پر آزادانہ اقدام نہیں کیا جاتا۔ (میجر جنرل آصف غفور نے آہستہ سے چند الفاظ یوں ادا کیے جن کا تاثر تھا کہ یہ معاملہ موجودہ وزیر اعظم تک محدود نہیں ہے) انہیں اطمینان تھا کہ پاکستان کا بیانیہ بین الاقوامی سطح پر قبول ہو رہا ہے۔ بھارتی قیادت کے یکطرفہ اقدام نے کشمیر کے مسئلہ کو دُنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر مؤثر اقدام سازی کر رہا ہے۔ وہ پُر امید تھے کہ بھارت کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا کہ اخلاقی طاقت پاکستان کے پاس ہے۔ اس کے بغیر نہ تو اپنی بات کی طرف متوجہ کیا جا سکتا ہے، نہ اس کے وزن میں اضافہ ممکن ہو پاتا ہے۔ ان کے پُر لطف جملے اور معنی خیز الفاظ دلچسپی کا سامان تھے، حالات کو سمجھنے اور پرکھنے میں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ رخصت ہوئے تو میڈیا دوست ایک دوسرے سے لطف اٹھانے لگے۔ برادرم ارشاد بھٹی کی موجودگی نے یہ مرحلہ آسان کر دیا تھا کہ ان کے مخصوص انداز نے بہت سوں کو دیوانہ بنا رکھا ہے، اور بہت سوں کو ان کی دیوانگی کا یقین دلا رکھا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر اور بات چیت نے آتشیں ماحول پیدا کیا نہ شعلہ پرور رومانس کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ اب غربت اور جہالت سے لڑیںگے۔ پُر امن، مضبوط اور ترقی یافتہ پاکستان ہماری منزل ہے، اور اس کے حصول کے لیے سفر استقامت سے جاری ہے۔ پُر زور لہجے میں یاد دلایا کہ مسئلہ کشمیر تکمیل پاکستان کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ پاکستان کبھی بھی کشمیریوں کو تنہا اور حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر سے غافل نہیں رہ سکتا۔ گزرے ہوئے ماہ و سال کا ایک ایک لمحہ اس پر گواہی دیتا ہے۔ مسلم اکثریت کی یہ واحد ریاست ہے جس پر بھارت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ بر صغیر کی تقسیم کا بنیادی اصول یہی تھا کہ مسلم اور ہندو اکثریت کے علاقے الگ الگ ممالک بن جائیں گے۔ جہاں انہوں نے اپنے اپنے آدرشوں کے مطابق اپنے اپنے سماج کی ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔ یہ درست ہے کشمیر برطانوی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا، یہ ایک ''شہزادگانی یا نوابی ریاست‘‘ (PRINCELY STATE) تھی۔ ایسی 565 ریاستیں غیر منقسم ہندوستان میں موجود تھیں۔ ان کے حکمرانوں کو بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق دیا گیا تھا، وہ اپنی ریاست کے عوام کی خواہشات کو مد نظر رکھ کر یہ فیصلہ کر سکتے تھے۔ جونا گڑھ ہندو اکثریتی ریاست تھی۔ جب اس کے حکمران نے پاکستان سے الحاق کیا، تو بھارتی حکومت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا، لیکن مسلم اکثریت کی ریاست کشمیر پر پُر ہوس نظریںجما لیں۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوجیں داخل کر کے مہا راجہ کی طرف سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھارتی فوجیں سری نگر میں داخل ہوئیں تو مہا راجہ نے الحاق کی کسی دستاویز پر دستخط نہیں کیے تھے۔ وہ تو فرار ہو کر جموں جا چکا تھا۔ ذرائع رسل و رسائل کی اُس وقت کی کیفیت کو سامنے رکھا جائے تو جموں سے کوئی کاغذ دستخط کر کے ایک دن میں نئی دہلی پہنچایا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ سو بھارت نے کسی قانونی جواز کے بغیر فوج داخل کر کے کشمیر کو مقبوضہ ریاست میں بدل دیا۔ عوامی بغاوت کے بعد بھارتی قیادت گھبرا کر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل جا پہنچی اور وہاں اقرار کیا کہ اس بین الاقوامی ادارے کے زیر اہتمام وہاں رائے شماری کرائی جائے گی۔ پاکستان مسلسل ان قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتا چلا آ رہا ہے۔ کئی بار فوجی تصادم تک نوبت پہنچی ہے، لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ 6 ستمبر 1965ء کا خون آلود دن بھی اس تنازع ہی کی وجہ سے دیکھنا پڑا۔
اب جبکہ دونوں ممالک ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں، وہ ایک دوسرے کو شکست دینے کے قابل نہیں رہے۔ جنگ نئے المیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ اس لیے زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ یہ مسئلہ پُر امن ذرائع سے حل ہو... پاکستان کو ایک بار پھر سفارت کاری کے میدان میں جوہر آزمانا ہیں، اور کشمیر کے 80 لاکھ شہریوں کو گھروں میں نظر بند کر کے اور دُنیا سے ان کا رابطہ منقطع کر کے جو اعلان کیا گیا ہے کہ بھارت میں نیا ہٹلر پیدا ہو چکا ہے، یہاں نیا 'نازی ازم‘ جنم لے رہا ہے‘ اسے کونے کونے پہنچانا ہے۔ پاکستان کو کشمیر کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملا کر اسے دُنیا بھر میں بلند کرنا ہے۔ ایسے عناصر ہماری اپنی صفوں میں بھی موجود ہیں جو اشتعال دِلا کر آگ لگوانا چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں ان کی بھرمار ہے۔ کبھی ہماری دفاعی صلاحیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے، تو کبھی طرح طرح کے طعنے دیے جاتے ہیں کہ کسی طور جنگ کا بگل بج جائے۔ پاکستانی قوم اور فوج اس پر یکسو ہیں کہ جنگ میں پہل نہیں ہو گی، بنی نوع انسان کا مستقبل دائو پر نہیں لگایا جائے گا۔ کشمیر میں جدوجہد جاری رہے گی، اس کا ساتھ جاری رہے گا... بھارت اور پاکستان کو برطانیہ کی غلامی سے نجات پُر امن جدوجہد ہی سے ملی تھی، دوسرے ذرائع پر یقین رکھنے والے بڑے جید علماء نے بھی نقصان اٹھا کر اپنا راستہ بدل لیا تھا۔ آج بھی خون سے زیادہ پسینہ بہانے کی ضرورت ہے، مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ!!!
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)