تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-09-2019

کربلا اورحیاتِ حسین ؓکے گمشدہ ابواب

کربلا ‘سیدنا حسین ابن علیؓ کی حیاتِ مبارکہ کا آخری باب ہے‘پہلا نہیں۔سانحہ کربلا نے ان کے تذکرے کو کچھ اس طرح اپنے حصار میںلیا کہ ان کی زندگی کے دیگر ابواب نظروں سے اوجھل ہوگئے۔یوں اسوہ ٔ حسینی سے رہنمائی کشید کرنے میں‘ہم افراط و تفریط کا شکار ہوئے۔سیرتِ حسین ؓکے تمام ابواب اگر پیش ِ نظر رہیں اور ہم انہیں اسوۂ علیؓ و حسنؓ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں تو میرا احساس ہے کہ ہم بہت سے سیاسی عقدے حل کرسکتے ہیں۔
سانحہ کربلا61ہجری کا واقعہ ہے۔اُس وقت سیدنا حسینؓ کی عمر پچپن چھپن برس ہو چکی تھی۔انہوں نے خلافتِ راشدہ اور امیر معاویہ ؓ کا دورِ اقتدار‘پور ے شعور کے ساتھ دیکھا۔انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اسلام کا سیاسی نظم کن مراحل سے گزر کر‘یزید کی ولی عہدی تک پہنچاہے۔انہوں نے سیدنا علیؓ کو دیکھا کہ وہ خلفائے ثلاثہ کے مشیرِ خاص تھے۔ ہر اہم فیصلے میں شریک اور ان کے معاون۔ یہی نہیں‘انہوں نے سیدنا علیؓ کے حکم پر خلیفہ راشد‘سیدنا عثمانؓ کی حفاظت کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا اور بلوائیوں سے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔
سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت معاویہ ؓ کا بیس سالہ دورِ اقتدار بھی دیکھا اور اس کشمکش کو بھی جو دونوں کے مابین برپا ہوئی۔آپ کی نظروں کے سامنے مسلمان کی تاریخ کا یہ عظیم الشان واقعہ بھی ہوا جب سیدنا حسنؓ نے امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا اور مسلمانوں کی تلواریں نیاموں میں واپس چلی گئیں ‘جو مسلمانوں ہی کے لہو سے تر تھیں۔یہ حیاتِ حسین ؓ کے اہم ابواب ہیں ‘جن کو نظر انداز کر تے ہوئے ‘نہ ہی اسوۂ حسینی کو سمجھا جا سکتا ہے‘ نہ واقعہ کربلا کو۔
یہ معلوم ہے کہ سیدنا علیؓ خلفائے ثلاثہ کے مخلص رفیق رہے اور انہیں ہمیشہ وہی مشورے دیے ‘جن میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی تھی۔سیدنا عثمانؓ کا دور فتنوں کا دور ہے۔نظمِ اجتماعی کو کئی اطراف سے خطرات لا حق ہوئے۔سیدنا علی ؓ نے اس دور میں پوری کوشش کی کہ سیدنا عثمانؓ کوامورِ مملکت میں نصیحت کریں اور ان کو بھی جو اِن کے اقتدار کے درپے تھے۔
سیدنا عثمان ؓ کے عہد میں‘بعض عُمال نے آپ کی نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حدوود سے تجاوز کیا۔ان کا رویہ عوام میں شورش اور اضطراب کا باعث بننے لگا۔اس پرجیدصحابہ نے حضرت علیؓ کا انتخاب کیا کہ وہ حضرت عثمانؓ کے پاس جائیں اور انہیں صورتِ حال سے آگاہ کریں۔حضرت علی ؓگئے اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے نصیحت کا حق ادا کر دیا۔بلاشبہ وہی یہ بصیرت اور سلیقہ رکھتے تھے کہ اس عمدگی کے ساتھ اپنی بات کاابلاغ کریں۔
دیکھیے ‘گفتگو کا آغاز کیسے کیا: ''مجھے آپ کے پاس گفتگو کے لیے بھیجا گیا ہے ‘لیکن مجھے سمجھ نہیں آر ہا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔کیا چیز ایسی ہے ‘ جس سے آپ واقف نہیں۔ جو میں جانتاہوں‘آپ بھی جانتے ہیں۔آپ نے اللہ کے رسولﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔آپﷺ کی باتیں سنی ہیں۔رسول اللہﷺ سے آپ کی قرابت داری ہے۔آپ کو دامادِ پیغمبر ہونے کا شرف حاصل ہے۔یہ شرف تو ابن ابی قحافہ (ابوبکرؓ) کو حاصل تھا‘ نہ عمرؓ(ابن خطاب) کو۔کسی بات میں انہیں آپ پر برتری حاصل نہیں۔اس لیے آپ ان سے زیادہ عمل بالحق کے مستحق ہیں‘‘۔اس کے بعدحضرت عثمانؓ کو مفید مشورے دیے۔اس طرح کا واقعہ کئی بار پیش آیا۔
پھر سیدنا حسین ؓ نے یہ بھی دیکھا کہ حضرت علیؓ نے اپنے مخالفین کے ساتھ کیا رویہ رکھا‘حتیٰ کہ خوارج‘ جو اِن کی جان کے درپے تھے‘ان کے خلاف بھی اقدام کرنے سے منع کیا‘جب تک کہ وہ پہل نہ کریں۔سیدنا حسن ؓ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ یہی خوارج ان کے درپے ہوئے‘ لیکن انہوں نے بھی درگزرکیا۔سیدنا حسن ؓ کی شہادت زیر خورانی سے ہوئی۔انہوں نے جب دیکھا کہ یہ جان لیوا ہے توحضرت حسین ؓ کو بلا کراس واقعے کا ذکر کیا۔انہوں نے پوچھا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟پوچھا:تم کیا کرو گے۔کہا: قتل۔حضرت حسن ؓ نے فرمایا:''اگر میرا گمان درست ہے تو اللہ بہتر بدلہ لینے والا ہے۔ اور اگر غلط ہے تو میں نہیں چاہتا کہ کوئی میری وجہ سے ناکردہ گناہ میں پکڑا جائے‘‘۔
سیدنا حسن ؓ کی شہادت کے بعدحضرت حسینؓ نے بیس سال حضرت معاویہ ؓ کے دورِ اقتدار میں گزارے۔اس سارے عرصے کے دوران میں‘آپ نے قیام کیا نہ کوئی اقدام۔یہی نہیں‘ آپ نے اپنے والد گرامی کو دیکھا اور ساتھ بڑے بھائی کو بھی کہ ارباب ِاقتدار کے معاملے میں ان کا رویہ کیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 60ہجری میں کوئی ایسا واقعہ ہوا‘ جس نے انہیں مجبور کیا کہ وہ گھر سے نکلیں اور اپنی بات کا ابلاغِ عام کریں۔
یہ واقعہ یزید کو اقتدار کی منتقلی ہے۔مسلمانوں میں اس سے پہلے کوئی ایسی روایت نہ تھی کہ اقتدار باپ سے بیٹے کو منتقل کیا گیا ہو۔قرآن مجید کی ہدایت بھی واضح تھی کہ مسلمانوں کے معاملات مشورے سے چلتے ہیں ۔ (شوریٰ)۔گویا مسلمانوں کے مشورے کے بغیر نظمِ اجتماعی کا قیام اتنا بڑا انحراف تھا کہ سیدنا حسین ؓ نے ا س کے خلاف قیام کو ضروری سمجھا۔ 
میں اس سے یہ اخذکرتا ہوں کہ جہاں مسلمانوں کا سیاسی نظم قائم ہو‘اس کے خلاف اقدام نہیں کر نا چاہیے۔اگر شکایت ہو تو نصیحت کا رویہ اختیار کر ناچاہیے ۔ سیدنا حسین ؓ نے زندگی کے آخری بیس سال ایک ایسے دور میں گزارے‘جس سے انہیں شدید اختلاف تھا‘ لیکن اس کے باوجود‘انہوں نے اس حکومت یا نظام کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔انہوں نے اپنے والدِ گرامی کے طرزِ عمل سے بھی یہی استنباط کیا کہ ہمیں ہر حال میں نظمِ اجتماعی کا خیر خواہ بن کر رہنا چاہیے۔ 
حیاتِ حسینؓ کا آخری باب یہ بتاتا ہے کہ جب سیاسی نظم کی بنیاد غلط ہوجائے اور عوام کی رائے کو نظر انداز کر تے ہوئے سیاسی نظام قائم ہونے لگیں توپھر شہادتِ حق کا تقاضا ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ایک مسلم معاشرے میںآمریت یابادشاہت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔تاریخ کی متضاد روایتوں میں سے ‘مجھے سیدنا حسینؓ کے اسی موقف کی روایت درست معلوم ہوتی ہے‘ جس میں وہ شہادتِ حق کو اپنے اقدام کا سبب قرار دیتے ہیں۔ہمارے مورخین سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسینؓ کے اقدامات کو افتادِ طبع کے فرق کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔تاریخ ‘چونکہ معلومات کا کوئی مستند ذریعہ نہیں‘ اس لیے حسنِ ظن کا تقاضا ہے کہ ان روایات کو ترجیح دی جائے‘ جن میںحضرت حسینؓ کا اقدام قرآن مجید کے حکم کے مطابق بیان ہواہے۔دیگر لوگ بھی اسی حسنِ ظن کے مستحق ہیں۔ 
حادثہ کربلا کے ایک اور اہم پہلوسے بھی اکثر صرفِ نظر ہوتا ہے۔یزید کی ولی عہدی کو چیلنج کرنے والے تنہا سیدنا حسینؓ نہیں تھے۔رسول اللہ ﷺ کے نواسے کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے نواسے عبداللہ ابن زبیرؓ نے بھی اسے چیلنج کیا۔سیدنا عمرؓ کے صاحب زادے عبداللہ اورسیدنا ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمن بھی ان میں شامل ہیں‘ جنہوں نے غیر جمہوری اقدام کو قبول نہیں کیا۔
عبداللہ ابن زبیر تو متبادل حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ان سے حکمتِ عملی کی ایک غلطی نہ ہوتی ‘تو بنوامیہ کا دورِاقتدار پانچ سال تک محدود ہو جاتا‘تاہم اس سے تاریخ میں یہ رقم ہو گیا کہ مسلمانوں نے موروثی اقتدار کو قبول نہیں کیا۔یہ تنہا حضرت حسین ؓ کا اقدام نہیں تھا کہ اسے اقتدارکا جھگڑا سمجھا جا ئے۔
سیدنا حسین ؓ سے وابستگی کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی پوری حیاتِ مبارکہ کو سامنے رکھا جائے اور اس سے راہنمائی کشید کی جائے۔یہ زندگی بتاتی ہے کہ نظم ِ اجتماعی سے کیسے وابستہ رہنا ہے اور وہ کون سے خرابی ہے ‘جو اگر سیاسی نظام میں درآئے ‘تو اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر نا ضرور ی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved