امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کو اٹھارہ سال بیت گئے ہیں‘ مگر اس روز جو کچھ ہوا دنیا اس کے اثرات پر ابھی تک قابو نہیںپا سکی۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نائن الیون کو عالمی تاریخ کا ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے ‘حالانکہ دہشت گردی انسانی تاریخ کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔نائن الیون کے دہشت گرد حملوں نے عالمی سطح پر جنگ کی ایک نئی جہت متعارف کرائی ‘کیونکہ اس میںدنیا کی واحد سپر پاور کو براہ راست نشانہ بنایا گیا تھا۔امریکہ کے سکیورٹی ماہرین کی رائے میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ کی جغرافیائی سرحدیں بالکل محفوظ ہو گئی تھیں اور اب کسی کے لئے امریکہ کے سکیورٹی حصار میں گھسنا ممکن نہ رہا ۔اب دنیا کی واحد سپر پاور کو اس نظریاتی گروپ کی مزاحمت کا سامنا تھا جو کوئی مسلمہ ریاست یا باقاعدہ حکومتی بندوبست نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنا مشکل تھا۔اس طرح کے گروپ کو بھاری روایتی اسلحے یا ایٹمی ہتھیاروںسے ڈرانا دھمکانا بھی ممکن نہیںہوتا۔امریکہ پر نائن الیون حملے پاکستان کے لئے اپنے مضمرات رکھتے تھے‘ کیونکہ دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے امریکہ کے اہم اہداف افغانستان میں واقع تھے اور اس مقصد کے لئے امریکہ پاکستان سے بھرپور تعاون کامتمنی تھا ۔ہم اس آرٹیکل میں آگے جا کر بتائیں گے کہ پاکستان نے طالبان کو چھوڑ کر امریکہ کی سرپرستی میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیسے کیا تھا‘ جس کا سارا فوکس افغانستان پر تھا۔
امریکہ کو اس نئے چیلنج سے نمٹنے کے لئے فوجی اقدامات کرتے وقت عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ‘جس نے ان ریاستوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑا دی تھی جنہیں نائن الیون حملوں سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔دنیا بھر کی ہمدردیاں امریکہ کے ساتھ تھیں اور عالمی برادری نے اس نئے مگر خفیہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے بھرپور عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ۔سلامتی کونسل نے ان دہشت گرد حملوں کے بعد ایک سے زائد قراردادیں پا س کیں جن میں اس نئے دشمن کا قلع قمع کرنے کے لئے عالمی ممالک سے متحد ہو کر کام کرنے کا کہا گیا تھا۔جب طالبان نے امریکہ کے مطالبے پر اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کو افغانستان سے نکالنے سے انکار کر دیا تو اس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے خلاف 7اکتوبر 2001ء کو فوجی حملہ کر دیا ۔اس وقت اسے عالمی برادری کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ امریکہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد ی کے کسی مزید حملے سے محفوظ کرنے میں تو کامیاب رہامگر نائن الیون حملوں کے بعد عالمی برادری نے اس کی انسداد دہشت گردی پالیسی کے ساتھ جس ہمدردی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ اسے برقرار رکھنے میں کامیاب نہ رہ سکا۔آج پہلے سے زیادہ ممالک ان بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کی پرتشدد کارروائیوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔کئی ممالک‘ جن میںزیادہ تر مسلمان ممالک ہیں‘ داخلی شورش‘تشدد اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں ۔اس داخلی شورش کا خطرہ اس لئے مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ دوسرے ممالک یا نان سٹیٹ متشدد گروپ اس شورش زدہ ملک میں برا ہ راست یا بالواسطہ مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
نائن الیون حملوں کا تجربہ اس امر کا عکاس ہے کہ بعض ممالک کی داخلی شورش یا وہاں بیرونی مداخلت کے تانے بانے بڑی طاقتوں کی بالادستی کے ایجنڈے سے ملتے ہیں یا ان کاتعلق علاقائی ریاستوں کے ساتھ ہوتا ہے‘ جو اس ریاست خصوصاًہمسایہ ریاست کی داخلی شورش سے خود فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔اس مقصدکے لئے وہ یا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سہارا لیتی ہیں یا وہ ان دہشت گرد گروپوں کی خفیہ مالی امداد یا محفوظ ٹھکانوں کی صورت میں سرپرستی کرتی ہیں۔امریکہ (اکتوبر ‘نومبر2001ئ) افغانستان میں فوجی حملے کے ذریعے طالبان حکومت اکھاڑنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر دسمبر میں حامد کرزئی کی سربراہی میں وہاں ایک امریکہ اور نیٹو نواز حکومت قائم کر دی گئی۔تاہم افغانستان میں تعمیر نو اور بحالیات کا کام کرنے کے بجائے امریکہ نے مارچ 2003ء میں عراق کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا‘ جس سے اس کی توجہ افغانستان سے ہٹ گئی ؛چنانچہ طالبان اور دیگر لوگوں کو 2003ء کے بعد پھر سے منظم ہونے اور افغانستان میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے کاموقع مل گیا۔
افغانستان کے برعکس امریکہ نے عراق کے خلاف جارحیت کے لئے اقوام متحدہ سے کوئی منظوری نہیں لی تھی۔امریکہ عراق کے خلاف اپنی جنگ کے لئے یک طرفہ اور پیشگی حملے کا جواز پیش کرتا تھا۔بہت سے عالمی رہنمائوں اور ممالک نے محسوس کیا کہ امریکہ بہت ہی خطرناک ایسی حکمت عملیوں کا پر چار کر رہا ہے جنہیں کوئی بھی طاقتور ملک کسی کمزور ریاست کو ڈرانے دھمکانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے ۔امریکہ نے وہاں سے صدام حسین کی حکومت تو ختم کر دی مگر داخلی امن اور استحکام کے لئے وہاں کوئی متبادل سیاسی نظام نہ دے سکا ۔عراق اس جنگ کے بعد سے مسلسل داخلی انتشار‘ شورش اور انسانی المیے کا شکار نظر آتا ہے ۔ انسداد دہشت گردی کے لئے اٹھارہ سالہ جنگ کے بعد بھی عراق اور افغانستان داخلی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ایران اور امریکہ کی نئی محاذ آرائی تو ایک طرف ‘داخلی انتشار نے شام ‘ لیبیا اور یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔
اب امریکہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے کے تحت افغانستان سے اپنی زیادہ تر فوج کو واپس نکالنا چاہتا ہے ۔چونکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے مابین تاحال تعاون کے کسی فریم ورک پر اتفاق رائے موجود نہیں ہے؛ چنانچہ افغانستان کو پھر سے کسی ایسی داخلی شورش کا سامنا ہو سکتا ہے جس کے سرحد پار ہمسایہ ممالک پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔تاہم ایک مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ چین اور روس نے علاقائی تعاون کے ذریعے افغانستان کی داخلی سلامتی کو مستحکم کرنے میں گہری دلچسپی دکھائی ہے ۔ اب بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں کی قوت میں کافی کمزوری آگئی ہے‘ مگر ان سے متاثرہ علاقوں اور ملوث گروپوں میں کافی وسعت آچکی ہے۔دہشت گردی محض کسی ایک ذریعے سے نہیں پھوٹتی۔اب ان گروپوںکی مقامی روٹس ہوتی ہیں‘مقامی شکوے شکایات ہوتے ہیں اور وہ کارروائی کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں۔
آج کل دہشت گردی کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اب دہشت گردی کی آڑ میں عالمی سیاسی نظام کو اپنے مفادات کے مطابق از سر نو ترتیب دینے کے غیرا علانیہ ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ۔امریکہ اپنی معاشی ‘فوجی قوت اور انسداد دہشت گردی کی پالیسیز کو ان ممالک پر دبائو ڈالنے کے لئے استعمال کر رہا ہے جو اس کی عالمی یا علاقائی پالیسیز کے کسی پہلو پر سوال اٹھاتی ہیں یا وہ جو ملک آزادانہ طریقے سے اپنی پالیسیز پراس طرح عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں جس سے امریکی مفادات پر منفی اثرات پڑتے ہوں۔
پاکستان کابل میں طالبان حکومت (1996-2001ئ) کا پرجوش سپورٹر تھا ۔یہ ان تین ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر رکھا تھا ۔دیگر دو ممالک میں سعودی عرب اور یو اے ای تھے۔تاہم نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان نے بڑی عجلت میں کابل کی طالبان حکومت کو چھوڑ دیا اور امریکہ کی سرکر دگی میںدہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میںشامل ہو گیا ۔یہ جنرل پرویز مشرف کا ذاتی فیصلہ تھا‘ جس کے لئے بعد میں اعلیٰ عسکری قیادت اور سویلین لیڈر شپ کی حمایت بھی حاصل کر لی گئی۔آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل محمود احمد امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے وقت واشنگٹن میں تھے ۔
12اور 13 ستمبر کو وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے ہمراہ امریکہ کے نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج سے ملے ۔رچرڈ آرمٹیج نے ان کے ساتھ دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت کی اور اس سلسلے میں پاکستان سے ر سپورٹ مانگی۔انہوں نے 12 ستمبر والی ملاقات میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کو یا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کھل کر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونا ہوگا یا اس کے خلاف ۔اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔جنرل محمود نے انہیں بھرپور یقین دہانی کرائی کہ پاکستان امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی جنگ میں اس کاپورا ساتھ دے گا ۔13 ستمبر کو پھر اسی موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔درایں اثنا امریکی وزیر خارجہ جنرل کولن پاول نے پاکستان کی سپورٹ حاصل کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف سے فون پر بات چیت کی ۔اس کے بعد پاکستان میںامریکی سفیر وینڈی چیمبر لین نے صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی اور سات شعبوں میں تعاون کے لئے ایک فہرست ان کے حوالے کی۔یہی فہرست 13 ستمبر کو رچرڈ آرمٹیج نے بھی جنرل محمود کو فراہم کی تھی۔جنرل پرویز مشرف امریکہ سے تعاون پر راضی ہو گئے ۔کچھ عرصے بعد پاکستان کو بعض ترامیم کے ساتھ پھر یہی سات مطالبات پیش کر دیئے گئے۔12 ستمبر کی شام تک جنرل پرویز مشرف طالبان کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔جب کابل میں طالبان حکومت ختم ہو گئی اور اقتدار امریکہ اور شمالی اتحاد کی مخلوط حکومت کو مل گیا تو پاکستان نے اسلام آباد میں متعین آخری افغان سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو بھی امریکہ کے حوالے کر دیا۔ان تمام اقدامات سے پاک امریکہ تعلقات کا از سر نو تعین ہو گیا اور بین الاقوامی سطح پر جنرل پر ویز مشرف کی فوجی حکومت کو زیادہ قبولیت حاصل ہو گئی۔