تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-09-2019

’’ وہ سرحدیں مٹ جاتی ہیں ‘‘

آوازِ دوست میں مختار مسعود لکھتے ہیں '' جن سرحدوں کو اہلِ شہا دت میسر نہیں آتے ‘وہ سرحدیں مٹ جایا کرتی ہیں‘‘ لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں تو حاکم ہی ایسے رہے ہیں جنہوں نے اسی شہر لاہور کو‘ جہاں دو قومی نظریے کے روح رواں علامہ محمد اقبالؒ مدفون ہیں‘ وہ لاہور جہاں 23 مارچ 1940ء کو مسلمانوں کے الگ وطن کی قرارداد منظور کی گئی‘ وہ لاہورجہاں 1947 ء میں ہندوستان سے خون کی ندیاں پار کرکے آنے والے لٹے پٹے‘ کٹے پھٹے جسموں کو پناہ دینے والا والٹن کا یاد گاری مہاجر کیمپ واقع ہے‘ اسی لاہور میں کھڑے ہو کر قوم کے بچوں کو یہ سبق یاد کرایا گیا کہ یہ واہگہ‘ یہ گنڈا سنگھ والا تو فقط ایک لکیر ہیں‘ انہیں سرحد مت کہو‘‘ ۔ ایسے حکمرانوں اور ایسی سوچ رکھنے والوں کے نزدیک یومِ دفاع یا جذبہ ٔچھ ستمبر کیا معنی رکھ سکتا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ شہدا کے سینوں پر اس وقت ایک کاری ضرب لگائی گئی جب اس وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے سوار محمد حسین اور اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے نام پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت شائع ہونے والی جماعت نہم کی انگریزی کتب سے خارج کئے گئے۔ ہندوستان کی ٹڈی دَل افواج‘ جو ٹینکوں‘ توپوں اور ہوائی جہازوں کی بھر مار کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہوئیںتو اس وقت وطنِ عزیز کے ایک ایک انچ کو دشمن کے نا پاک قدموں سے بہادری ا ور شجاعت سے بچاتے ہوئے شہا دت کا مرتبہ پانے والے سوار محمد حسین شہید اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید کو نشان حیدر کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز سے نوازا گیا‘ لیکن سابقہ حکمرانوں نے ان کے نام پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت شائع ہونے والی جماعت نہم کی انگریزی کتب سے خارج کر دیئے ۔یہ خبراس قدر افسوسناک تھی کہ جس نے بھی سنی ‘ بے اختیار رو دیا۔جس پر میں نے اپنے ایک کالم'' نشان حیدر کے نشان کیسے مٹائو گے؟‘‘ لکھ کر ارباب ِاختیار کی توجہ دلائی تھی ۔ اس مضمون میں لکھا تھا کہ یہ حکم باعث شرم ہی نہیں‘ بلکہ ہم سب کے لیے قابلِ غور بھی ہونا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس قسم کے احکامات کے ذریعے کچھ حلقے ‘کچھ سیا سی شخصیات افواجِ پاکستان کے جوانوں کی میدان جنگ میں دشمن کے خلاف داد شجاعت دینے کی روایات اور جذبوں کی حوصلہ شکنی کا کوئی منصوبہ بنا رہے ہوں؟
ارض ِپاک کی حفاظت کے لیے جان قربان کرنے والے ان شہیدوں کے نام ‘مقام اور مرتبہ نصاب سے تو خارج کیا جا سکتا ہے‘ لیکن عوام کے دلوں اور آسمانوں کے مالک کی کتاب سے کیسے خارج کریں گے؟ہمارے سمیت حکمرانوں کے اعمال جیسے بھی ہوں‘ اس وطن کی حفاظت کے لیے جان دینے والوں کا مرتبہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نزدیک اس قدر بلند ہے کہ پیغمبروں کے بعد اسلام کی سر بلندی کے لیے جانیں قربان کرنے والے شہدا کا درجہ بتایا جاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ الکافرون در اصل دوقومی نظریہ پرحرف آخر ہے ‘لہٰذا اگر کچھ لبرل‘ دہریے اور ترقی پسند دو قومی نظریے کو فرسودہ قرار دینے والوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو ان کے لیے اس سورۃ مبارکہ نے مہر ثبت کرتے ہوئے کھل کر کہہ دیا ہے کہ جو عقیدہ کافروں کا ہے وہ مسلمانوں کا نہیں اور جس کی عبا دت مسلمان کرتے ہیں ‘کافر اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔
1971ء کی ہندو ستان اور پاکستان کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر شہیدہونے والے سوار محمد حسین کو امانتاً دفنایا گیا تھا‘ جنگ ختم ہونے کے بعد انہیں بعد از شہادت بہادری اور جرأت کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر دیا گیا تو نشان حیدر پانے والوں کے معیار کے مطا بق ان کی قبر تیار کرنے کے لیے ان کا تابوت عارضی قبر سے نکالنے سے پہلے تمام شرکا نے وضو کیا اور سب کے لبوں پر درود شریفﷺ کا ورد تھا ۔شہید کے ایک بھائی جو جنگ میں کسی اور محاذپر مصروف تھے‘ ان کی درخواست پر جب تابوت کا شیشہ اتار کر انہیں شہید کا چہرہ دکھایا گیا تو یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ دفناتے ہوئے شہید کے بغیر ڈاڑھی چہرے پر ایک مناسب اور صاف ستھری ڈاڑھی کے ساتھ ایک شفیق قسم کی مسکراہٹ اور قبر سے نکلنے والی خوش کن خوشبو چاروں طرف پھیل رہی تھی ۔یہ ایمان افروز اور روح پرور نظارہ ایک دو نہیں بلکہ وہاں موجود سینکڑوں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔نارووال کے گجگال محاذ پر جب دشمن کی مشین گن کا برسٹ لانس نائیک محمد محفوظ کے سینے پرلگا تو ٹینک رجمنٹ کے نائب رسالدار علی نواب اور عبدالرحمن کیانی جب اسے اٹھانے لگے تو شہید محفوظ نے ان سے پوچھا :دشمن کہاں ہے؟ کہیں آگے تو نہیں آ گیا؟یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی جان اس ملک پر قربان کر دی۔ کچھ لوگوں سے‘ ان کے خواب میں شہید اکثر آج بھی یہی پوچھتے ہیں کہ دیکھنا کہیں دشمن نزدیک تو نہیں آ گیا؟اب کیا بتائیں کہ دشمن تو کئی بہروپ دھارے اندر تک گھس آیاہے وہ تو آپ جیسے شہیدوں کے نام درسی کتب سے نکالنے تک پہنچ گیاہے ‘جس سرحد کی حفاظت کے لیے آپ نے جان دی اُسے ایک لکیر بتاتا ہے اورپاک سرزمین پر ہندوستان کا ایجنڈا آگے بڑھاتا ہے۔
سیا چن کے بلند ترین محاذ پر15 مئی 1995ء کو شہید ہونے والے کیپٹن معظم علی شہید کے والد میجرڈاکٹر(ر) یوسف اختر آف جہلم کہتے ہیں کہ شہید کی پیدائش سے پہلے ان کی تائی ماں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی بزرگ انہیں بشارت دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یوسف کو بتا دو کہ اس کے ہاں بیٹا ہو گا اس کا نام معظم علی رکھیںاور اسے فوج میں بھیجیں۔ راقم خود میجر ڈاکٹریوسف صاحب سے اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے ان سے جہلم جا کر ملا تو انہوں نے بتایاکہ دمشق میں ہم حضرت یحییٰ علیہ اسلام اور صلاح الدین ایوبی ؒکے مزار پر گئے‘ دعا کے بعد اس کی والدہ معظم کے سر پر بار بار ہاتھ پھیر رہی تھی ‘میرے پوچھنے پر کہا کہ اس کی پیدائش سے پہلے میں نے دعا کی تھی کہ اﷲ اگر مجھے بیٹا دے گا تو میں اسے آپ کی نذر کر دوں گی۔ میرے اس بیٹے کو اسلام کے لیے‘ پاکستان کے لیے قبول کریں ۔ ماں کی طرف سے حضرت یحییٰ علیہ اسلام اور صلاح الدین ایوبی ؒکے مزار پرمانگی ہوئی دعا بائیس سال اور سات ماہ بعد سیا چن کے برف زار محاذ پر قبول ہو گئی اور کیپٹن معظم وطن کی حر مت پر قربان ہو گیا۔جنازے میں معظم علی شہید کے تابوت پر کھڑے ایک اجنبی بزرگ اہلِ جہلم کو اب بھی یاد آتے ہیں‘ جنہیں اس تدفین کی گھڑی کے بعد جہلم میں پھرہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ان بزرگ نے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد شہید معظم علی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا '' بیٹے جب رسول پاک ﷺ کے سامنے جائو تو ان سے میرا بھی سلام کہنا۔اُن اجنبی بزرگ کو شہید کیپٹن معظم علی کے جنازے میں شریک جہلم اور ارد گرد کے ہزاروں لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ لیکن بعد میں وہ کبھی نہیں دیکھے گئے ۔
کہاں گئے آج تک کسی کو پتہ نہیں؟کیا ایسے شہدا کے نام ہم درسی کتب سے مٹا ئیں گے؟ کیا ایسے شہدا کے ساتھیوں کے وطن پر قربان ہونے کے عزم کو سرحدوں کو ایک لکیر کہہ کر گہنا سکیں گے؟کسی صورت نہیں۔
آوازِ دوست میں مختار مسعود لکھتے ہیں '' جن سرحدوں کو اہلِ شہا دت میسر نہیں آتے ‘وہ سرحدیں مٹ جایا کرتی ہیں‘‘ ۔ابھی کل کی بات ہے کہ شہدا کے سینوں پر اس وقت ایک کاری ضرب لگائی گئی جب اس وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے والے سوار محمد حسین اور اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے نام پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے تحت شائع ہونے والی جماعت نہم کی انگریزی کتب سے خارج کئے گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved