اللہ نے ہمیں جو سانسیں عطا کی ہیں ‘وہ ہر اعتبار سے نعمت ہیں۔ اللہ کی بہترین مخلوق کی حیثیت سے زمین پر ہماری موجودگی اس امر کی غماز ہے کہ جس نے یہ کائنات خلق کی ہے اور ہمیں بھی وجود بخشا ہے‘ وہ ہستی چاہتی ہے کہ ہم اُس کی بہترین تخلیق کی حیثیت سے دنیا میں قیام کریں‘ جو کچھ کہا گیا ہے‘ اُس کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھال کر اپنے خالق و رب کو راضی کریں اور جب دنیا سے رخصت ہوں تو دل کو اس بات کا اطمینان رہے کہ جس طور جینے کو کہا گیا تھا اُس طور جیے اور آزمائش میں کامیاب رہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں ‘جو زندگی کو اللہ کی نعمت جان کر اُس کا حق ادا کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے‘ جن کی نظر میں زندگی اور کچھ نہیں محض ایک دردِ سر ہے‘ مسئلہ ہے۔ لوگ ہر معاملے کو مسئلہ جان کر زندگی کو تمام مسائل کی جڑ گردانتے ہوئے یوں جیتے ہیں‘ گویا روئے زمین پر اُن کے قیام کی مدت در اصل سزائے قید کی میعاد ہو...!
کیا واقعی زندگی مسئلہ ہے؟ یا مسائل کی جڑ ہے؟ یہ سوچ کیوں پروان چڑھتی ہے کہ زندگی کو مکمل طور پر دردِ سر کی حیثیت سے لیا جائے اور اِس دنیا میں ہمیں جتنی بھی نعمتیں میسر ہیں‘ انہیں درخورِ اعتناء نہ سمجھتے ہوئے صرف محرومیوں کا راگ الاپتے ہوئے سانسوں کی گنتی پوری کی جائے؟ کیا روئے زمین پر ہمارے قیام کی پوری مدت محض کڑھنے‘ شکوہ سنج رہنے میں ضائع ہونی چاہیے؟ کیا اس روش کو کسی بھی اعتبار سے قرینِ دانش قرار دیا جاسکتا ہے؟
بنیادی مسئلہ دیکھنے اور سوچنے کے انداز کا ہے۔ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے روئے زمین پر اپنی ایک ایک سانس کو نعمت گردانتے ہیں اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ رب کی دنیا کو زیادہ بامعنی اور خوبصورت بنانا چاہتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ رب نے ہمیں وجود اس لیے نہیں بخشا کہ بات بات پر روئیں‘ شِکوہ کریں ‘بلکہ اِس دنیا میں ہماری موجودگی کی غایت صرف یہ ہے کہ اللہ کے وجود کی حقانیت تسلیم کرتے ہوئے اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لائیں اور اُس کی قائم کی ہوئی دنیا کو زیادہ سے زیادہ دل کش بنائیں۔
وجودیت کے حوالے سے عالمگیر شہرت کے حامل ڈینش فلسفی سورین کرکیگارڈ نے کہا تھا کہ زندگی کوئی مسئلہ نہیں‘ جسے حل کرنے کی کوشش میں ہم اپنے وجود کو ضائع کر بیٹھیں۔ یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے ‘جسے محسوس کرنا اور برتنا ہے۔ کرکیگارڈ کی بات ہر اعتبار سے درست ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ زندگی ہر اعتبار سے ایک ایسی نعمت ہے‘ جسے مسئلہ سمجھنے کی ذہنیت ترک کیے بغیر ڈھنگ سے جیا نہیں جاسکتا۔ زندگی اپنے ساتھ بہت سے مسائل بھی لاتی ہے۔ لوگ مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں‘ مگر اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ یہ کسی بھی سطح پر انفرادی معاملہ نہیں۔ دنیا میں الجھنیں چند ایک افراد کے لیے نہیں۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہر انسان کو چند ایسے بنیادی مسائل ملتے ہیں‘ جنہیں حل نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے پورے وجود کو داؤ پر لگا بیٹھتا ہے۔ یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے کہ تمام مسائل کا تعلق دولت نہ ہونے سے ہے‘ اسی سوچ کے بطن سے یہ سوچ بھی پیدا ہوئی ہے کہ مسائل صرف غریبوں کی زندگی میں ہوتے ہیں اور جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہوتی ہیں اُن کی زندگی میں کوئی مسئلہ پایا ہی نہیں جاتا۔ ایسا نہیں ہے۔ مسائل ہر انسان کے لیے ہیں اور پیٹ بھر کر ہیں۔ ہاں‘ مسائل کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ہر طبقے کے اپنے مسائل ہیں‘ جن سے اُسے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور ان مسائل کو حل کرنے سے گریز مزید مسائل پیدا کرتا ہے۔
زندگی اور کچھ ہو نہ ہو‘ ایک منفرد تجربہ ضرور ہے۔ ہر انسان کو روئے زمین پر قیام کی ایک خاص مدت ملی ہے۔ اِس مدت کے دوران اُسے زندگی کو ایک منفرد تجربے کی حیثیت سے دیکھنا‘ پرکھنا اور برتنا ہوتا ہے۔ زندگی ہر انسان کے لیے ایک مختلف تجربہ ہے۔ ہر شخص دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی نے کہا تھا: ؎
لے دے کے اپنے پاس یہی اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم
بات بالکل درست ہے۔ ہر انسان کے لیے روئے زمین پر وجود کا بخشا جانا اور سانسوں کا عطا کیا جانا ایک منفرد تجربہ ہے۔ اور اُسے اس تجربے کو زیادہ سے زیادہ خوش گوار بنانے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر: ؎
کوئی سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا؟
زندگی کیا تماش بینی ہے؟
کیا واقعی؟ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ دنیا میں اپنے قیام کی مدت کو اس طور مکمل کرتے ہیں‘ گویا کسی میلے کی سیر کی ہو! کیا دنیا میں ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ گھومیں پھریں‘ سیر کریں اور چل دیں؟ ہمارے وجود کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ہونا ہی چاہیے۔ ہمارا خالق و رب چاہتا ہے کہ ہم اُن ہدایات کے تحت زندگی بسر کریں ‘جو اُس نے ہمیں عطا کی ہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو سمجھ لیجیے کہ عاقبت داغ دار ہوئی۔
فلسفیوں نے جو کچھ زندگی کے بارے میں بیان کیا ہے ‘اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں ہمارا قیام اس لیے ہے کہ ڈھنگ سے جئیں‘ اپنے وجود کو بھی بلند کریں اور دوسروں کو بھی کچھ نہ کچھ دے کر جائیں۔ علم حاصل کرنا‘ فنون میں مہارت پیدا کرنا اور اپنے وجود کو بروئے کار لاتے ہوئے‘ دنیا میں اپنا نشان چھوڑنا ہمارے لیے سب سے بڑا مقصد ہونا چاہیے۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ کھوئے ہوئے ہم خود ہیں اور خدا کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ زندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ رب نے ہمیں جو سانسیں عطا کی ہیں‘ وہ نعمت ہیں۔ ہم ان سانسوں کو مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مسئلہ ہمارا اپنا وجود ہے۔ ہماری طرزِ فکر و عمل تطہیر و تہذیب کی طالب ہے ‘مگر ہم اپنی اصلاح پر مائل ہونے کی بجائے زندگی کو سُدھارنے کے مشن پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جو کچھ کرنا ہے‘ وہ ہم کرتے نہیں اور جو کچھ نہیں کرنا ‘وہی کرنے پر بضد رہتے ہیں۔ یہ ہے اصل مسئلہ۔ زندگی کسی بھی زاویے‘ کسی بھی پہلو سے مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ ہے ہمارے فکر و عمل کی کجی۔ یہ کجی دور ہو تو سبھی کچھ درست ہوجائے اور ہم اسی دنیا میں رہتے ہوئے جنت کے سُکون کو محسوس کرنے لگیں۔
قدم قدم پر ذہن نشین رہے کہ دنیا میں قیام ایک بار ہے۔ یہ قیام ہر اعتبار سے شاندار ہونا چاہیے۔ اگر ہم زندگی کو مسئلہ سمجھنے کی ذہنیت کے ساتھ جئیں تو جی چکے۔ ایسی حالت میں کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کیا جاسکتا۔ جینا ہی ٹھہرا تو پھر یہ یقین ہونا چاہیے کہ دنیا میں قیام‘ یعنی زندگی ایک خوبصورت تجربہ ہے‘ جس قدر بھی سانسیں ہمیں دی گئی ہیں‘ وہ سب کی سب اس تجربے کو زیادہ سے زیادہ یادگار بنانے پر صرف کی جانی چاہئیں۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہم خود کو دنیا کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید اور بارآور ثابت کریں۔ باعمل رہ کر ہی ہم اپنا اور دنیا کا بھلا کرسکتے ہیں۔ زندگی کو مسئلہ سمجھنے کی ذہنیت سے نجات پانے کی یہی بہترین صورت ہے۔