کبھی کبھی انسان یہ سوچتا ہے کہ دنیا میں اتنی غربت کیوں ہے ؟ لوگ بھوکے کیوں مر رہے ہیں ؟خدا انسانوں پہ رحم کیوں نہیں کرتا ؟ وہ انسان ‘ جسے زمین پر خدا نے اپنا نائب بنایا تھا ‘ اسے اس نے اتنے مصائب سے کیوں دوچار کر رکھا ہے ؟
کبھی کبھی حسرت سے انسان سوچتا ہے کہ کاش !اس وقت میں بھی وہاں موجود ہوتا‘ خدا نے جب فرشتوں سے یہ کہا تھا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں ۔فرشتوں نے اس پر حیرت سے کہا کہ کیا تو ایسے کو نائب بنائے گا ‘جو زمین پر فساد کرے گااور خون بہائے گا۔ اس کے بعد فرشتوں نے جوفقرہ کہا‘ وہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔ کہتے ہیں کہ ''اور ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں ‘ حمد کے ساتھ اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں ‘‘۔
اگر آپ غور سے دیکھیں ‘تو ان فقروں میں ایک خواہش چھپی ہے کہ فرشتوں میں سے کسی کو زمین پر اپنا نائب بنایا جائے ۔ اس پر اللہ نے کہا کہ میں وہ جانتا ہوں ‘ جو تم نہیں جانتے ۔
انسان نے زمین پر جتنی خوں ریزی کی‘ اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ کو فرشتوں کی بات سچ لگے گی ۔ میں ویسے ہی ایک نظر ماضی قریب کی جنگوں کو دیکھ رہا تھا ۔ پچھلی چند صدیوں میں انسان نے اتنی قتل و غارت کی ہے کہ آپ دیکھتے جائیں اور شرماتے جائیں ۔ سپین نے سولہویں صدی میں Aztec Empireکو تاخت و تاراج کرتے ہوئے اڑھائی کروڑ افراد قتل کیے اور Inca Empirمیں 84لاکھ ۔ 17ویں صدی میں چین میں انتقالِ اقتدار کی جنگ میں اڑھائی کروڑ افراد قتل ہوئے ۔ 35لاکھ افراد نپولین کی جنگوں میں مارے گئے ۔ 19ویں صدی میں چین میں خانہ جنگی میں دو کروڑ افراد قتل ہوئے ۔ دو عالمی جنگوں میں دس کروڑ افراد قتل ہوئے ۔انقلابِ روس میں پچاس لاکھ افراد مارے گئے ۔ 1937ء میں چین اور اتحادیوں کی جاپان سے جنگ میں دو کروڑ افراد مارے گئے ۔ 1950ء میں کوریا کی جنگ میں پندرہ لاکھ افراد قتل ہوئے ۔
آپ ماضی میں سفر کرتے جائیں اور ان جنگوںمیں قتل و غارت کے اعداد و شمار پڑھتے جائیے ۔ منگول جب دنیا بھر میں پھیل رہے تھے تو انہوں نے کم از کم تین کروڑ انسان قتل کر ڈالے تھے ۔ تیمور نے کم از کم 80لاکھ افراد قتل کیے ۔ جب فرانس والے دنیا میں پھیل رہے تھے تو بیس لاکھ افراد انہوں نے قتل کر دئیے تھے ‘ اسی طرح کے اعداد و شمار آپ کو سپین کے بارے میں ملیں گے ۔ 19ویں صدی صدی میں فرانس اور سویت یونین کی جنگ ہوئی تھی ‘جس میں پانچ لاکھ چالیس ہزار افراد قتل ہوئے ۔ امریکی خانہ جنگی میں کم از کم ساڑھے چھ لاکھ افراد قتل ہوئے۔ میکسیکو کے انقلاب میں بیسویں صدی کے آغاز میں پانچ سے دس لاکھ افراد قتل ہوئے۔ پچاس لاکھ افراد سویت یونین میں 1917ء سے 1922ء کے دوران مارے گئے ۔ 1927ء سے 1949ء کے دوران چین کی خانہ جنگی میں کم از کم 80لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ 1936ء میں سپین کی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ افراد مارے گئے ۔ 1937ء سے 1945ء کے دوران جنگِ عظیم میں چین اور اس کے اتحادیوں کی جاپان سے جنگ میں دو کروڑ افراد قتل ہوئے ۔ ایک لاکھ لوگ 1947ء سے لے کر آج تک کشمیر میں شہید ہو چکے ہیں ۔ برما میں 1948ء سے لے کر آج تک 130,000مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں ۔ عرب ‘اسرائیل تنازعے میں آج تک سوا لاکھ افراد شہید ہوچکے ہیں ۔ 1950ء سے 1953ء تک کوریا کی جنگ میں کم از کم پندرہ لاکھ افراد قتل ہو چکے ہیں ۔ 1955ء سے 1975ء تک ویت نام کی جنگ میں کم از کم 8لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ 1955ء سے 1972ء کے دوران سوڈان کی جنگ میں 5لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ نائجیرینز کی خانہ جنگی میں دس لاکھ افراد قتل ہوگئے تھے ۔ 1974ء سے 1991ء تک ایتھوپیا کی خانہ جنگی میں پانچ لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ 1978ء سے آج تک افغانستان میں بارہ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں ‘ اسی طرح سری لنکا کی خانہ جنگی میں 1983ء سے 2009ء کے درمیان 80ہزار افراد مار ے گئے‘ پھر پاک فوج کی مدد سے سری لنکا والوں نے بغاوت پر قابو پایا ۔ 1983ء سے 2005ء تک سوڈان کی خانہ جنگی میں 10لاکھ افراد مارے گئے ۔ صومالیہ میں 1986ء سے اب تک تین لاکھ افراد قتل ہو چکے ہیں ۔ 1991ء سے 1995ء تک ایک لاکھ لوگ بوسنیا میں قتل ہو گئے ۔ 1994ء میں روانڈا میں ہونے والے قتل ِ عام میں 8لاکھ افراد مارے گئے ۔ 1996ء میں اڑھائی لاکھ لوگ کانگومیں قتل ہوئے ۔ 2001ء سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والی قتل و غارت ا س کے علاوہ ہے ۔ 2003ء سے اب تک دارفر میں ہونے والی جنگ میں تین لاکھ افراد قتل ہو چکے ہیں ۔ 2006ء سے لے کر اب تک میکسیکو میں ڈیڑھ لاکھ افراد قتل ہو چکے ہیں ۔ 2009ء سے اب تک نائجیریا میں بوکو حرام نے پچاس ہزار افراد کو قتل کر ڈالا ہے ۔ چھ لاکھ افراد شام میں قتل ہو چکے ہیں اور دو لاکھ عراق میں ۔ یمن میں اب تک 90ہزار افراد قتل ہو چکے ہیں ۔
آپ پڑھتے جائیں ‘ ان جنگوں اور ان میں ہونے والی قتل و غارت کے اعداد و شمار ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ یہ ساری جنگیں وہ انسان کر رہا ہے‘ جو زلزلے میں ہونے والی ہلاکت پر کہتاہے کہ خدا انسانوں پر رحم کیوں نہیں کرتا۔ جب کوئی انسان شدید بیمار ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ خدا مجھ پہ رحم کیوں نہیں کرتا ۔ انسان جب بھوک افلاس دیکھتا ہے تو کہتاہے کہ خدا انسانوں پہ رحم کیوں نہیں کرتا‘جبکہ انسان کی اپنی قتل و غارت کی حالت یہ ہے کہ جب سے وہ اس زمین پر آباد ہوا ہے ‘ وہ جنگیں لڑ رہا ہے اور جب تک انسان اس سیارے پر آباد ہے ‘ وہ قتل و غارت کرتا رہے گا ۔
ایسے میں فرشتوں کی بات درست لگنے لگتی ہے ۔ جب وہ خدا کو کہہ رہے تھے کہ تو ایسی مخلوق کو اپنا نائب بنائے گا ‘ جو قتل و غارت کرتی ہے ‘ خون بہاتی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا خدا کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ انسان دنیا میں کتنی قتل وغارت کرے گا ۔ جواب : خدا کو ایک ایک قتل کا علم تھا‘ جو قابیل سے لے کر آخری انسانوں تک اس زمین میں کیا جانا تھا‘ پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ دنیا میں انسان کو اپنا نائب بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کو تعداد سے کوئی بھی غرض نہیں ہے ۔ اگر 7ارب انسانوں میں ایک بھی ایسا انسان موجود ہوگا‘ جو اللہ کانام لینے والا ہو تو یہ دنیا قائم رہے گی ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم ؐ دراصل وہ ہستی ہیں ‘ جن کے لیے یہ دنیا قائم کی گئی۔جن کی مبارک عمر کی قسم خدا نے کھائی۔ باقی آپ اور ہم سب اس کی کرم نوازی میں شامل ہیں ۔ ہم صبح نماز پڑھتے ہیں ‘ شام کو گناہ کرتے ہیں ‘ پھر کبھی اس پہ نادم ہو جاتے ہیں ۔ہماری اور آپ کی کوئی بھی حیثیت ایسی نہیں کہ ہماری خطائوں سے شیطان کا مقدمہ سچ ثابت ہو سکے ۔