تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     10-09-2019

افغانستان تر نوالہ نہیں

افغانستان امریکہ کیلئے اورمقبوضہ کشمیر بھارت کیلئے ایک ایسا نوالہ بن چکے ہیں کہ نہ انہیں نگلا جارہا ہے اورنہ اْگلا جارہا ہے۔ریہ دونوں ممالک( امریکہ اوربھارت) افغانستان میں اتحادی ہیں اورجنوبی ایشیاکی سیاست میں بھی ایک دوسرے کے حامی وہم خیال ہیں۔نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پرحملہ کردیاتھا اورخوش فہمی یہی تھی کہ افغانستان ایک ترنوالہ ثابت ہوگا اوربس چند مہینوں میں ہی افغانستان فتح کرلیاجائے گا اورجنوبی ایشیامیں افغانستان کی صورت میں امریکہ کو ایک مستقل ٹھکانہ مل جائے گا‘جہاں سے وہ چین ‘روس‘ایران سمیت تمام ممالک کے سینے پرمونگ دلے گا۔ جدیدترین اوربھاری بھرکم اسلحہ رکھنے اوراستعمال کرنے کے باوجود یہ جنگ رفتہ رفتہ امریکہ اورا س کے اتحادیوں کے ہاتھ سے نکلتی گئی اورافغان طالبان‘جن سے اقتدار چھینا گیا تھا‘نے آہستہ آہستہ افغانستان کے علاقے واپس لینا شروع کردیئے۔امریکہ کے بیانیے کے مطابق نائن الیون کا ماسٹرمائنڈ اسامہ بن لادن تھا اورانہیں افغانستان میں طالبان کے سربراہ مْلاعمر نے پناہ دی ہوئی تھی‘اس لئے افغانستان سے ملاعمر یعنی طالبان کی حکومت کاخاتمہ بھی ضروری تھا اوراسامہ بن لادن اوران کے ساتھیوں کومارنا یاگرفتارکرنا بھی ضروری تھااورامریکہ کے بقول ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن ان کے ہاتھوں مارے گئے اورامریکہ نے اس پرجشن فتح بھی منایا۔ہوناتویہ چاہئے تھاکہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد افغان طالبان کی افغانستان میں کمر ٹوٹ جاتی اوروہ دل برداشتہ ہوکر اپنی شکست تسلیم کرلیتے اورہتھیارڈال دیتے‘ لیکن ایسا نہیں ہوابلکہ افغانستان میں جنگ شدت اختیارکرگئی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ملاعمر کوتلاش کیا جاتارہا۔وہ امریکہ کے کسی ریڈارپرنہ آئے اورنہ ہی کوئی ہیومن انٹیلی جنس ان کاپتہ لگاسکی۔
افغانستان میں متوقع شکست کوبھانپتے ہوئے پہلے نیٹو نے ہاتھ کھینچا اورپھرامریکہ بہادر نے بھی عافیت اسی میں سمجھی کہ اب مذاکرات کاراستہ اختیارکیا جائے۔ ابھی مذاکرات کیلئے تگ ودو جاری تھی کہ مْلاعمر کے جاں بحق ہونے کی خبر منظرعام پرلائی گئی۔ امریکی تھنک ٹینکس نے پھریہ غلط اندازہ لگایا کہ طالبان کے امیر ملاعمر کی وفات کے بعد افغان طالبان انتشارکاشکارہوجائیں گے اورافغانستان جوپہلے فتح نہیں ہوسکا اب آسانی سے کامیابی نصیب ہوگی۔لیکن ملاعمر کی وفات کے بعدافغانستان میں افغان طالبان مزید منظم ہوگئے اور آہستہ آہستہ کابل کی طرف بڑھنے لگے‘ جس کے بعد پاکستان کے منت ترلے بھی کئے گئے اوردبائو بھی ڈالا گیا کہ افغان طالبان کومذاکرات کی میزپرلایا جائے۔پاکستان نے افغان طالبان کے کچھ گرفتار رہنمائوں کوخیرسگالی کے جذبے کے تحت رہاکیا اورخلوص نیت سے افغان طالبان اورامریکہ کے درمیان مذاکرات کیلئے اپنا حصہ ڈالا۔امریکہ کوپھرغلط فہمی ہوئی کہ جوجنگ ہم میدان میں جیت نہیںسکے وہ جنگ مذاکرات کی میز پربا آسانی جیت لیں گے‘ کیونکہ ایک طرف امریکی تھنک ٹینکس ‘سیاسی وسفارتی تجربے سے مزین پڑھے لکھے تجربہ کارمذاکرات کار اوردوسری طرف عام سے شلوارقمیض پہنے اورپگڑیاں باندھے افغان طالبان۔ اور تواور انگریزی زبان سے بھی نابلد ان لوگوں کو میز پررام کرنا کون سامشکل کام ہو گا۔آمنے سامنے بیٹھیں گے توسپرپاورسے ویسے ہی مرعوب ہوجائیں گے۔لیکن افغان طالبان کی سیاسی قیادت نے امریکیوں کے سارے اندازے غلط ثابت کردیئے اورمیدان جنگ کی طرح مذاکرات کی میز پربھی انتہائی ٹف ٹائم دیا۔ امریکہ نے متعدد بارافغان طالبان سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جب تک مذاکرات مکمل نہیں ہوتے اس وقت تک جنگ بندی یعنی سیزفائر کردیا جائے‘ لیکن افغان طالبان نے یہ مطالبہ یکسرمستردکردیا اورلڑائی کے میدان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں ۔ مذاکرات کے دوران امریکہ نے افغان طالبان سے پندرہ روز کی علامتی جنگ کی بھی درخواست کی‘ لیکن طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا اورآخر کار ایک طویل مشاورتی عمل کے بعد امریکہ نے مذاکرات کی کامیابی کااعلان کیا۔معاہدہ تحریر ہوگیا‘ اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوگئے‘ اس معاہدے کے بارے میں امریکی خصوصی ایلچی اورمذاکرات کارزلمے خلیل زاد افغان حکومت کواعتماد میں لے چکے تھے‘افغان طالبان اورافغان صدر اشرف غنی کی امریکی صدر ٹرمپ سے کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات طے پاچکی تھی‘ جس کے بعد صدرٹرمپ نے ٹویٹ کے ذریعے ملاقات کی منسوخی کااعلان کیا اوروجہ یہ بتائی کہ افغان طالبان نے کابل میں حملہ کرکے ایک امریکی اورگیارہ سویلینز کوہلاک کردیاہے ‘اس لیے ملاقات منسوخ اورمذاکرات معطل کردیئے ہیں۔
کیا مذاکرات معطل کرنے کی وجہ محض بارہ افراد کی ہلاکت ہے؟یا کچھ اور؟واقفانِ حال کاکہنا ہے کہ جب سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں لڑائی تودونوں طرف سے جاری ہے اورکبھی افغان طالبان کے لوگ مارے جاتے ہیں اورکبھی سکیورٹی والے‘ مذاکرات شروع ہونے کے بعدبھی کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں دونوں فریقین میں لڑائی نہ ہوئی ہو‘ اس لئے مذاکرات معطل کرنے کایہ جواز محض ایک بہانہ ہے۔درحقیقت صدرٹرمپ اورامریکی اداروں کے درمیان پھوٹ پڑ گئی ہے‘امریکی وزیرخارجہ سمیت پینٹاگون بھی یہ سمجھتا ہے کہ مذاکرات میں افغان طالبان کاپلڑا بھاری رہا اورجومعاہدہ کیاگیا ہے اس میں طالبان نے اپنی زیادہ باتیں منوالی ہیں ‘جبکہ امریکہ کے مفادات کاخیال نہیں رکھاگیا نیزیہ کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاکاشیڈول دینا قبل ازوقت ہے‘ جبکہ دوسری طرف یہ معاہدہ عمل پذیرہوتاہے توافغان حکومت اشرف غنی‘عبداللہ عبداللہ سمیت افغان طالبان کے تمام مخالف ومتحارب گروپوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اورپھربھارت کی باری آتی ہے‘ جس نے امریکہ کے کہنے پر افغانستان میں اپنی اوقات سے بڑھ کرمنصوبے شروع کئے‘دولت خرچ کی اورقونصل خانے کھولے‘جن کامقصد افغانستان میں امریکی مفادات کاتحفظ اورپاکستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے دہشتگردی کوفروغ دیناتھا۔ امریکہ ایک بے رحم دوست اوراتحادی ہے جوہمیشہ صرف اپنے مفادات کوفوقیت دیتاہے‘اس لئے اسے بھارت سے اورافغان حکومت سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیںجبکہ بھارت کویہ بھی دھڑکالگاہواہے کہ مغربی سرحدوں کے محفوظ ہونے کے بعد پاکستان کی تمام توجہ مشرقی سرحدیں ہوں گی اورمقبوضہ کشمیر سے پیداشدہ صورتحال سے پاکستان زیادہ بہتراندازمیں بھارت سے نبردآزما ہوسکے گا۔ اس لئے بظاہر امریکی صدرٹرمپ نے مذاکرات کومعطل کرکے دنیا کوحیران کردیا ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔ صدرٹرمپ کی ٹویٹ کوابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے کہ امریکی وزیرخارجہ سمیت دیگراعلیٰ حکام کی طرف سے دوبارہ مذاکرات کرنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں صدرٹرمپ اورامریکی حکام دراصل اپنی پیداہونے والی دراڑوں کوبھرنے اوراپنے ہم خیالوں اوراتحادیوں کومطمئن کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ کیونکہ اگرمزید دیرکریں گے توپھر سو پیازاورسو جوتے کھانے والی مثال ہمیں درست ہوتی ہوئی نظرآئے گی۔ افغان طالبان نے میدان جنگ اورمذاکرات کی میز پر ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک اچھی سیاسی سمجھ بوجھ اورفہم وفراست کی حامل ٹیم بھی رکھتے ہیں اورملک چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ ملاعمر سمیت کئی بڑے افغان طالبان رہنما دنیا سے رخصت ہوئے‘ 
ان رہنمائوں کی وفات سے بھی افغان جنگ کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی‘ جس سے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ افغان طالبان کی صفوں میں نہ صرف اتحاد ہے بلکہ وہ اپنے اندر ایک منظم ضبط بھی رکھتے ہیں۔
آج سے اٹھارہ سال پہلے جنگ امریکہ نے شروع کی تھی آج وہی امریکہ بہادر 18 سال بعد یہ جنگ مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا چاہتا ہے۔بس اس کی کوشش اور خواہش ہے کہ اس فوجی شکست کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا جا سکے اور سپر پاور کی ناک بھی نہ کٹے اور اس جنگ سے جان بھی چھوٹ جاِئے‘ جو اس سپر پاور کے کھربوں ڈالر کھا گئی ہے۔کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کا مصداق۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر بدستور مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔40 روز ہونے کو ہیں صورتحال بھارتی فوج کے کنٹرول میں نہیں۔مواصلاتی نظام کی بندش کی ذمہ داری بھی بھارتی سکیورٹی ایڈوائزر نے پاکستان پر دھرنے کی کوشش کی ہے اور تو اور بھارتی خلائی شٹل کے چاند پر نہ اترنے کا الزام بھی پاکستانی اداروں پر دھر دیا گیا ۔ان سیاسی لطیفوں سے کچھ دیر کے لیے دل ہی بہلایا جاسکتا ہے۔چین کے وزیر خارجہ کا دورۂ اسلام آباد اور اس دوران کئے گئے فیصلے خطے کی آئندہ کی صورتحال کا تعین کرنے کے لیے واضح روڈ میپ ہیں‘ جس میں سی پیک کی توسیع اور کشمیر سمیت دیگر علاقائی اور عالمی ایشوز پر باہم مل کر اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔خاص طور پر چین کا یہ کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی ساورنٹی‘علاقائی ‘جغرافیائی سلامتی ‘آزادی اور خودمختاری اور قومی یکجہتی کی ہر صورت میں تحفظ یقینی بنانے میں اپنا کردار ایک دیرینہ دوست کی طرح ادا کرے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved