عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے آئی سی یو میں سیدھے لیٹے ہوئے تھے، ان سے ملنے کے لئے طویل انتظار کرنا پڑا تھا۔ یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے انہیں سکون کی دوا دی ہے اور کم و بیش دو گھنٹے کے بعد ملاقات ممکن ہوگی۔ تحریک انصاف کے کارکن بڑی تعداد میں موجود تھے۔ خواتین کی تعداد نوجوانوں سے کم نہیں تھی۔ عارف سونی امریکہ سے آئے تو انتخابی مہم کے تیور دیکھنے کے لئے ، لیکن یہاں مختلف منظر دیکھنا پڑ گیا۔ حفیظ اللہ نیازی اور انعام اللہ نیازی بھی بھاگم بھاگ میانوالی سے پہنچے۔ ان سے تحریک انصاف کے جو نوجوان محو گفتگو تھے، ان کی کوشش تھی کہ ان کی پارٹی کے سینئر نائب صدر میانوالی میں پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر کے خلاف الیکشن سے دستبردار ہو جائیں، انعام اللہ کہ عمران کے تایا زاد ہیں، خون اور پانی کا فرق واضح کرنے میں لگے تھے۔ معاونین خصوصی نعیم الحق اور سیف اللہ نیازی کو تو خیر یہاں ہونا ہی تھا، برمنگھم سے حسان بھی آچکے تھے۔ سجاد امیر حفیظ کے ساتھ اور وحید چودھری گولڈی کے ساتھ راز و نیاز میں مصروف تھے۔ عمران کی بہنیں، بھانجے اور قریبی اعزہ تسلی کے حرف لے اور دے بھی رہے تھے۔ ہسپتال کے فلور پر آئی سی یو کے باہر لاؤنج بھرا ہوا تھا۔ عزیزان عمر اور عثمان شامی میرے دائیں بائیں تھے… ہر شخص اضطراب کی تصویر تھا اور ہر شخص کے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ اپنے جذبوں کی کہانی سنانے کے لئے بے تاب۔ ڈاکٹر زرقا کے ایثار اور کوشش کی کہانی اپنی تھی، تو مہاراجہ ترین کی دُھن بھی منفرد تھی۔ باتیں سنتے ،آنکھوں کو دیکھتے اور دلوں میں جھانکتے، دو گھنٹے پر لگا کر اڑ گئے۔اس دوران مسجد میں جا کر ظہر کی نماز پڑھ لی، کیفے ٹیریا میں وحید اور زبیر صاحبان کی میزبانی سے فائدہ بھی اٹھا لیا۔دوبارہ اوپر پہنچے تو رحمن ملک، عزیز الرحمن چن کے ساتھ اپنا احساس دلا رہے تھے۔ان کے لئے دروازہ کھلا تو گویا خبر مل گئی کہ بہت سوں کو بیدار کرنے والا خود بھی بیدار ہو چکا ہے…رحمن ملک باہر آئے تو ہمارا راستہ کشادہ تھا۔ڈاکٹروں کی ہدایت کے تابع باری باری بستر کے قریب پہنچے،عمران خان کو کروٹ لینے کی تاب نہیں تھی۔ گردن کسی ہوئی سی تھی، کمر کو بھی بندھا ہوا پایا۔تشکر اور دعا کے الفاظ ہونٹوں تک پہنچے اور زخمی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔وہ آہستہ آہستہ گویا ہوئے، الحمدللہ ریڑھ کی ہڈی محفوظ رہی، ڈسک پر چوٹ آئی ہے، سینے اور پسلیوں پر بھی، لیکن اللہ نے زندگی عطا کردی، اور اپاہج ہونے سے بھی بچا لیا۔ وہ اس بیماری کو یاد کرنے لگے جس نے ساڑھے تین،چار سال پہلے ان پر حملہ کیا تھا، اسی ہسپتال میں ان کا ہنگامی آپریشن کیا گیا تھا اور میں اس وقت بھی ان کی مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوا تھا۔اس موقع پر لکھا گیا کالم ان کو اب بھی یاد تھا،انتخابی مہم 9مئی کو ختم ہونا تھی، لیکن قدرت نے دو دن پہلے ہی انہیں ایک معجزے سے دوچار کردیا۔مسلسل یہ اطلاعات دی جارہی تھیں کہ آخری دو دن ان کے لئے بڑے خطرے کے ہیں۔ایجنسیوں کے ذمہ داران خدشات مسلسل ان کے کانوں میں انڈیل رہے تھے، جانثاروں کو بھی خبردار کررہے تھے۔غیر معمولی احتیاطی تدابیرپر زور تھا،سرگرمیوں کو محدود کرنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا…لیکن عمران ہٹ کے پکے ہیں، اپنا راستہ چھوڑتے ہیں نہ دل۔ ان کے قدم رکنے سے انکاری تھے،سفر اور جلسے جاری تھے۔ 7مئی کو منگل کے روز وہ سہ پہر کو کراچی سے لاہور پہنچے،مزارِ قائداعظمؒ پر حاضری دی اور خطروں کو جل دے کر لاہور پہنچ گئے ۔آج انہیں تیرہ جلسوں سے خطاب کرنا تھا،گلبرگ میں غالب مارکیٹ کے پاس پہنچے، گاڑی گولڈی چلا رہے تھے، ان سے کہا کہ بہنوں کو پیغام دے دیں کہ صدقہ کریں، اللہ کے راستے میں کوئی جانور قربان کردیا جائے،فوراً یہ پیغام پہنچا دیا گیا۔نماز مغرب کے لگ بھگ جلسہ گاہ پہنچے، اونچی سٹیج پر جانے کے لئے لفٹر پر سوار ہوئے تو آناً فاناً نظروں سے اوجھل تھے،کوئی سمجھا گولی چل گئی ہے، کوئی سمجھا کسی نے حملہ کر دیا ہے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا،چیخیں بلند ہونے لگیں، کہرام مچ گیا، چند لمحوں بعد انہیں گرا ہوا پایا گیا، چہرہ خون میں نہا گیا تھا۔ عمران کے اردگرد ذاتی محافظ تھے، پولیس بھی چوکسی دکھا رہی تھی، لیکن تربیت کا فقدان سمجھئے یا صلاحیت کا یا نفری کی کمی کو ذمے دار ٹھہرایئے، پولیس کچھ کر نہیں پائی، اس کے کسی اہل کار کو معلوم نہیں تھا کہ کرنا کیا ہے اور ہو کیا گیا ہے… موقع پر کوئی ایمبولینس تھی نہ فرسٹ ایڈ کا سامان، لفٹر پر کیا ہوا، کس نے کس کا توازن بگاڑا، کون کس کے دھکے میں آیا، یہ سوالات کسی کو سوجھ رہے تھے نہ پوچھنے کا یارا تھا، ایک ہی دھن تھی کہ جلد از جلد قریبی ہسپتال تک پہنچا جائے۔ عمران گزشتہ چند روز سے بلٹ پروف جیکٹ کا استعمال کرنے لگے تھے، اس جیکٹ نے اُن کے گرد حفاظتی حصار بنا لیا اور اُن کی کمر اس مہلک چوٹ سے محفوظ رہ گئی جو 20فٹ کی بلندی سے گرنے والے کو لگ سکتی ہے اور جس کے نتیجے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جلد سے جلد ایک قریبی ہسپتال پہنچے، وہاں سے ضروری طبی امداد کے بعد جناح ہسپتال لے جایا گیا، سکیننگ کے بعد فیصلہ ہوا شوکت خانم ہسپتال منتقل کر دیا جائے۔ ڈاکٹروں نے اعلان کر دیا تھا، حالت خطرے سے باہر ہے، کروڑوں دِلوں کو اطمینان کی دھڑکن نصیب ہو چکی تھی۔ عمران خان کے لئے اب انتخابی مہم میں شرکت کرنا ممکن نہیں رہا، انہیں کئی دن آرام کرنا پڑے گا، قوت ارادی کی بدولت صحت یابی کا سفر تیز ہو سکتا ہے، لیکن یوں لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں کسی بڑے حادثے سے بچا لیا ہے۔ دو پُر خطر دن، اُن کی زندگی سے نکال لئے ہیں اور ہمدردی کی توانا لہر بھی اُن کے حق میں ابھاری ہے۔ بستر ِ علالت سے آنے والے اُن کے پیغام میں نئی تاثیر بھر دی گئی ہے۔ حادثہ ایک انعام کی صورت اختیار کر گیا ہے یقینا اللہ تعالیٰ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved