تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     10-09-2019

’’ دشمن کٹی ہوئی ٹانگوں سے واپس جائے گا ‘‘

پنجاب یونیورسٹی کلب میں اس عشایئے کا اہتمام رسول بخش بہرام کی پی ایچ ڈی ( فزکس) پر اظہارِ مسرت کے لئے تھا۔ بہرام نے نام و نمود کا شوق نہیں پالا؛ چنانچہ ستائش کی تمنا رکھتے ہیں نہ صلے کی پروا ۔ عظیم قائد کے فرمان کے مطابق کام ‘ کام اور صرف کام میں یقین رکھتے ہیں اور یہی چیز جنوبی پنجاب کے جام پور جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے بہرام کیلئے زندگی کے سفر میں آگے سے آگے بڑھنے کا ذریعہ بنتی رہی۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر کے طور پر لاہور کے تعلیمی و تدریسی حلقے میں اپنا نقش جمایا۔ ان دنوں احسن اقبال کے نارووال میں ریجنل ڈائریکٹر کے طورپر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہفتے کی شب اس عشایئے کے '' دولہا‘‘ کے طور پر احباب کی تبریک و تحسین کا مرکز بھی وہی تھے‘ لیکن ڈاکٹر نیاز احمد اختر کیلئے بھی مبارکبادیں کم نہ تھیں۔ ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد اور انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا میں وائس چانسلرکے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد ڈاکٹر نیاز اب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ برسوں پہلے انہوں نے یہیں سے کیمیکل انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا ۔ پھر ڈاکٹریٹ کرنے انگلستان (لیڈز یونیورسٹی) چلے گئے۔ وہاں مالی آسودگی کے پُرکشش مواقع موجود تھے‘ لیکن اپنی قوم کی خدمت کا جذبہ وطن واپس لے آیا اور پنجاب یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف کوالٹی اینڈ ٹیکنالوجی مینجمنٹ کی بنیاد رکھی۔یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا۔
گزشتہ سال شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے آخری ایام تھے جب پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ شہباز شریف کے طرزِ حکمرانی سے اختلاف کے باوجود ‘ اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ اہم عہدوں پر تقرر میرٹ کی بنیاد پر ہوتا اور یہ تو ویسے بھی جناب ثاقب نثار کے سوموٹوز کا دور تھا۔ملک کی قدیم اور عظیم مادرِ علمی کے طور پر پنجاب یونیورسٹی کا کردار قائدانہ رہا ہے۔ ڈاکٹر نیاز اس کے اسی کردار کی بحالی کیلئے کوشاں ہیں۔ اس سال یوم دفاع کے موقع پر شہدائے وطن کے بچوں کیلئے یونیورسٹی میں سپیشل کوٹہ کا فیصلہ اس کی ایک مثال ہے۔ایک تاریخ ساز دن کی مناسب سے ‘ اس تاریخی اعلان کا اعزاز '' دنیا نیوز ‘‘ کے حصے میں آیا۔ جناب مجیب الرحمن شامی (اور جامی) کے '' نقطۂ نظر ‘‘ میں ڈاکٹر نیاز بتا رہے تھے کہ پنجاب یونیورسٹی نے اپنے ہر شعبے میں شہدا کے بچوں کیلئے ‘ دو دو نشستیں مخصوص کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ جن کے تمام تر تعلیمی اخراجات (ہاسٹل میں قیام کی صورت میں یہاں کے مصارف بھی ) یونیورسٹی کے ذمے ہوں گے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی پانچ ہزار روپے ماہانہ سکالر شپ بھی دے گی۔ اپنے اسی فیصلے کے حوالے سے ڈاکٹر بہرام کے عشائیے میں ڈاکٹر نیاز بھی احباب سے مبارکبادیں وصول کررہے تھے۔
اتوار کی صبح ڈاکٹر صاحب سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ شہدا کے بچوں کیلئے خصوصی کوٹے پر نامزدگی‘ جی ایچ کیو کی طرف سے ہوگی‘ وہی اس کا طریقِ کار اور معیار وضع کریں گے۔ معذور ہونے والے فوجیوں کے بچے بھی اس سے استفادہ کرسکیں گے۔ شہدا میں پولیس کے شہید بھی شامل ہیں۔ شہدا کے جو بچے اوپن میرٹ میں آئیں گے یہ سہولتیں ان کے لئے بھی ہوں گی۔
6 ستمبر کو یوم دفاع پر قوم اپنی مسلح افواج کی بہادری کی یادیں تازہ کرتی ہے۔ 7 ستمبر یوم فضائیہ اور 8 ستمبر یوم بحریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمیں اس موقع پر پاک بحریہ کے ایک سابق سربراہ ایڈمرل عبد العزیز مرزا سے اپنا ایک انٹرویو یاد آیا۔ عبد العزیز مرزا نے 1965 ء اور 1971 ء کی پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا۔ اوائل 1999 ء کے کارگل ایڈونچر (جسے بیشتر عسکری ماہرین '' مس ایڈونچر‘‘ بھی کہتے ہیں ) کے دوران وہ پاک بحریہ کے وائس ایڈمرل تھے۔ 12 اکتوبر 1999 ء کی فوجی کارروائی سے قبل وہ بحریہ کی کمان سنبھال چکے تھے۔ یہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد 2002 ء سے 2005 ء تک سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر رہے۔ تب ہم بھی جدہ میں اخبار نویسی کرتے تھے۔ جون 2009 ء میں وہ عمرہ پر آئے تو مکہ مکرمہ میں ایک طویل ملاقات میں ان سے ان تمام حوالوں سے گفتگو رہی۔ آج پاک ‘ بھارت جنگوں کے حوالے سے گفتگو کے کچھ حصے :
ایڈمرل عبد العزیز بتا رہے تھے‘ 1965 ء کی جنگ سے پہلے مجھے نیوی میں کمیشن مل چکا تھا۔ نیوی میں کافی طبی ٹریننگ ہوتی تھی۔ آرمی والے اڑھائی سال کرتے تھے‘ ہماری ٹریننگ ساڑھے تین ‘ پونے چار سال کی تھی۔ 1965ء کی جنگ میں‘ میں ایک بحری جہاز پر سب لیفٹیننٹ تھا۔ دو ارکا کے شہرۂ آفاق آپریشن میں‘ میں بھی شریک تھا۔ ہمارے سات‘ آٹھ جہاز گئے تھے‘ ایک آبذوز بھی تھی‘ غازی ...یہ بھی آپریٹ کررہی تھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے دور کی امریکی آبدوز تھی۔ اس زمانے میں انڈیا کے پاس کوئی آبدوز نہیں تھی‘ جس کی وجہ سے وہ کافی دبائو میں تھے۔ ان کے پاس دو طیارہ بردار جہازوں کے علاوہ بحری جنگی جہاز بھی ہم سے زیادہ تھے‘ لیکن ہماری غازی آبدوز کے ڈر سے انہوں نے انہیں نکالنے کی جرأت نہ کی اور یوں بحریہ کی حد تک '' کھلی جنگ ‘‘ جیسا معرکہ نہیں ہوا۔ ہم نے بڑی دلیری سے دو ارکا پر بمباری کی۔ ان کے ریڈار سٹیشنوں اور دیگر ساحلی تنصیبات کو نقصان پہنچایا اوراللہ کے فضل و کرم سے بحفاظت واپس آگئے۔غازی آبدوز نے دوسری سائڈ پر جا کر چھ اور آپریشن بھی کئے‘ مائننگ وغیرہ بھی کی ‘ لیکن بڑا معرکہ یہی دو ارکا والا تھا۔
1971 ء کی جنگ سے پہلے میں سب میرین سروس (آبدوز) میں چلا گیا تھا۔ تب ہمارے پاس تین آبدوزیں تھیں۔ جو ہم نے فرانس سے لی تھیں۔ ان کی ٹریننگ کے لئے میں فرانس بھی گیا تھا‘ اس سے پہلے ترکی سے بھی ٹریننگ لی۔ 1971 ء میں ہمیں انڈیا کے مغربی ساحل پر آبدوز کی پٹرولنگ کیلئے جو ایریاز دیئے گئے تھے ہم وہاں تھے۔ ہماری ایک آبدوز نے انڈین فریگیٹ کو بھی ڈبویا تھا۔ 1965 ء والی غازی آبدوز کو سری لنکا کے اُس طرف ‘ انڈیا کے مشرقی ساحل پر بھیجا گیا۔ جہاں اس نے مائننگ وغیرہ کی‘ لیکن بدقسمتی سے اپنی ہی ایک بارودی سرنگ کا شکار ہوگئی۔
''1965 ء اور 1971 ء میں دونوں ملکوں میں طاقت کا جو تناسب تھا‘ کیا اب وہ بدل نہیں گیا ؟‘‘
1962 ء کی چین ‘ بھارت جنگ کے بعد بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں بہت اضافہ کیا۔ 1965 ء کے بعد یہ اور بڑھا‘ جس میں نیوی کا حصہ بہت زیادہ تھا۔ ہمارے ہاں وہی تناسب رہا۔ سب سے زیادہ آرمی‘ پھر ایئر فورس‘ پھر نیوی ۔ اس کیلئے حکمت عملی یہ تھی کہ کسی ایک ایریا میں بھارت کے لئے '' ڈیٹرنس‘‘ رکھا جائے۔ ہم نے فرانس سے آبدوزوں کی جو دوسری کھیپ لی‘ وہ اگوسٹا کلاس کہلاتی تھی۔ یہ بھی بہت اعلیٰ معیار کی تھیں۔ اب ہمارے پاس آبدوزوں کی تعداد اگرچہ کمی تھی‘ لیکن زیر سطح مار کرنے والے میزائل بھارت سے بہت پہلے آئے۔ 1971 ء کے بعد نیوی کے تیسرے ونگ‘ ایوی ایشن کی پلاننگ بھی شروع ہوگئی تھی۔ 1974-75 ء میں پاکستان نیوی میں ہیلی کاپٹر اور ہوائی جہاز بھی آنے لگے۔ تب ہمارے ایوی ایشن ونگ کے پاس بھی میزائل تھے‘ جبکہ بھارت میں ایسا نہیں تھا۔ بعد میں انہوں نے بھی یہ کر لیا۔ ہم چونکہ تعداد میں انڈیا کے مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ ہمارے وسائل ‘ نہ بجٹ اس کی اجازت دیتا تھا؛ چنانچہ ہم نے حکمت عملی یہ بنائی کہ کسی ایک ایریا میں دشمن کے لئے '' ڈیٹرنس ‘‘ موجود ہو تاکہ اسے یہ احساس رہے کہ وہ ہمیں مارنے میں کامیاب بھی ہوگیا تو کٹی ہوئی ٹانگوں سے واپس جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved