تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-09-2019

شہید کا مقام

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ''شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے‘‘ ( مسنداحمد‘ مصنف ابن ابی شیبہ‘ المستدرک‘ صحیح علی شرط مسلم )۔
مذکورہ حدیث کا مطلب ہے کہ شہادت کا شرف ابدی زندگی‘ قرب ِالٰہی اور جنت جیسی نعمت سے لطف اندوزی ہے۔اسی حوالے سے سورہ آل ِ عمران کی آیت27میں کہا گیا ہے : ''وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔ اسی سورہ کی آیت169 میں اللہ تبارک تعالیٰ شہیدوں کے بارے میں فرماتا ہے: '' اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں ‘ انہیں مردے نہ سمجھو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں‘ اور وہ اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں‘‘۔ 
آپ میں سے کوئی بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ خدا کی وہ کون سی راہ ہے‘ جس میں لڑتے ہوئے ‘اگر کسی کی جان چلی جائے ‘ تو ایسے مقتول کو مردہ نہیں کہا جائے گا؟ تواس کی وضاحت کرتے ہوئے رب کریم نے سورۃ النسا کی آیت75 میں فرمایا ہے: ''اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو ‘جو کہتے ہیں؛ اے ہمارے رب‘ ہمیں اس بستی سے نکال‘ جس کے باشندے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے‘‘۔اسی سورہ کی اگلی آیت76میں فرمایا: ''جو ایمان والے ہیں‘ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں‘ وہ شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں۔ سو‘ تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو‘ بے شک شیطان کا فریب کمزور ہے‘‘۔
سوچئے کیا مقبوضہ کشمیر کی بیٹیوں‘ بہنوں اور بزرگوں بچوں کیلئے جہاد کی راہ میں نکلنا اﷲ کی راہ نہیں اور جب ایسا ہی ہے تو کیوں خوف زدہ ہو کر اور دنیاوی آسائشوں اور وقتی شغل میلوں کو ٹھوکریں مارتے ہوئے ان کی مدد کو نہیں نکل رہے ؟ حضرت ابو امامہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا : ''اﷲکو کوئی بھی چیز اتنی محبوب نہیں‘ جتنے دو قطرے محبوب ہیں‘جن میں سے ایک قطرہ آنسوئوں کا جو خوفِ خدا سے گرے اور دوسرا قطرہ خون کا جو راہِ خدا میں گرے‘‘۔ایک دوسری حدیث مبارکہ جو حضرت عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐنے فرمایا: '' دو آنکھیں ایسی ہیں‘ جن کو دوزخ کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی‘ ایک وہ جو راتوں کو خوفِ خدا سے روئی اور دوسری وہ ‘جس نے راہِ خدا میں اسلام کے نام لیوائوں کی حفاطت اور نگہبانی کرتے ہوئے گزاری ‘‘۔
مذکورہ حدیث مبارکہ کی تصدیق سورہ النسا کی آیت84سے ہوتی ہے: ''سو‘ تو اللہ کی راہ میں لڑ‘ سوائے اپنی جان کے تو کسی کا ذمہ دار نہیں اور مسلمانوں کو تاکید کر‘ قریب ہے کہ اللہ کافروں کی لڑائی روک کر دے اور اللہ لڑائی میں بہت ہی سخت ہے اور سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے‘‘۔ اسی سورہ میں آیت 77 میں فرمایا ہے: ''کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ‘جنہیں کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو‘ پھر جب انہیں لڑنے کا حکم دیا گیا‘ اس وقت ان میں سے ایک جماعت لوگوں سے ایسا ڈرنے لگی جیسا کہ اللہ کا ڈر ہو یا اس سے بھی زیادہ ڈر اور کہنے لگے؛ اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں فرض کیا‘ کیوں نہ ہمیں تھوڑی مدت اور مہلت دی‘ ان سے کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تھوڑا ہے اور آخرت پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے اور ایک دھاگے کے برابر بھی تم سے بے انصافی نہیں کی جائے گی‘‘۔
الغرض رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کومعرض وجود میں آنے والے پاک وطن پاکستان کی نگہبانی کرتے ہوئے شہید ہونے والے میجر جنرل ثنا اﷲ خان نیازی‘ سپاہی آصف جوکھیو‘حوالدار خالد‘ اﷲڈینو‘ نثار علی ‘ غلام مصطفی ‘ساجد علی سولنگی‘لانس نائیک عاصم محمود شہید ‘ ذکااﷲ شہید‘پشاور پولیس کا اے ایس آئی خائستہ خان اور وہ جانثاران وطن جن کے ناموں سے کوئی واقف نہیں؟ وہ جنہیں صرف ان کے ارد گرد کے لوگ بمشکل جانتے تھے‘ لیکن آج یہ اﷲ کے نزدیک سب سے پیارے اور بلند رتبے والے ہیں ۔ 
ہماری تاریخ کا فخر ایسے ہی جانبازوں سے قائم ہے‘ جنہیں ہم اور ہماری نسلیں بدر میں تو نہیں دیکھ سکیں‘ لیکن سوات ‘مالا کنڈ اور وزیرستان‘ بلوچستان‘ لائن آف کنٹرول پر دیکھ لیا۔ سندھ کے ضلع سانگھڑ کے ایک چھوٹے سے گوٹھ بھاروسن کے 21 سالہ ساجد علی سولنگی‘ جن کی شادی کو ابھی صرف چھ ماہ ہوئے تھے‘ جن کی دلہن ابھی اپنے ہاتھوں پر لگی سہاگ کی مہندی کے نقش و نگار میںکھوئی ہوئی تھی‘ ا سی طرح کی نہ جانے کتنی سہاگنیں بیوہ ہو چکیں‘ کس کیلئے؟ اس پاکستان کیلئے بیوہ ہوئیں ‘اس پاک وطن کیلئے‘ جو ہمارے پاس اﷲ اور اس کے رسول کی امانت ہے ۔
اﷲ کی امانت یہ پاکستان‘ چند ہزار لٹیروں کا نہیں‘ اوپر اور نیچے مختلف شکلوں میں قابض ٹیکس چوروں کا نہیں‘ راشی افسروں اور کمیشن کھانے والے سیاستدانوں کا نہیں‘ بینکوں کے اربوں روپوں کے قرضے ڈکارنے والے لیڈروں کا نام نہیں‘ پولیس تھانوں اور ان کے عقوبت خانوں میں آئے روز انسانوں پر دجالی ظلم کرنے والوں کا پاکستان نہیں ‘منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کا نہیں ‘ بلکہ پاکستان نام ہے ان لوگوں کا‘ جن کی مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کا خون اس کی بنیادوں میں شامل ہے‘ اس کی بنیادوں میں1947ء میں کلمہ طیبہ کے نعرے لگانے کے جرم میں کافروں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے ہزاروں نہتے مسلمانوںکا پاک خون شامل ہے۔خاکی وردی پہن کر پاکستانی فوج کا ہر تیمور‘ احمد خان‘ تنویر یہی سوچ کر قدم جمائے رکھتا ہے کہ اگر مشین گنوں کے برسٹ اور توپوں کے گولوں کے خوف سے اس نے ایک قدم بھی پیچھے ہٹایا تو دشمن کے ناپاک ہاتھ اس کے پاک وطن کی کی عزتوں کی طرف بڑھیں گے۔مجھے ان ناپاک ہاتھوں کو روکنا ہے۔یاد رہے کہ ان گم نام شہیدوں کا تعلق پاکستان کے ہر خطے سے ہے۔پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلے ہوئے یہ گمنام سپاہی جو سوات کی وادیوں‘ مہمند ایجنسی ‘ بونیر‘ دیر بالا‘وزیرستان ‘راولپنڈی ‘پشاور ‘ تربت‘ لورا لائی ‘ گوادر‘ لائن آف کنٹرول اور کوئٹہ میں ارض پاکستان کی نگہبانی کرتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں۔ کیا ہم ان کو بھول جائیں؟ کیا یہ ہمیں زیب دیتا ہے؟
یہ گم نام شہید کون ہیں؟انہیں کوئی جانتا پہچانتا نہیں تھا ۔پاکستان کی مختلف چھائونیوں کی سڑکوں پر‘ با زاروں میں یہ کئی بار ہما رے قریب سے گزرے ہوں گے‘ بسوں‘ ویگنوں‘ ریل گاڑیوں میں ان میں سے اکثر ہمارے ساتھ بیٹھے ہوں گے اور ہم نے ان کی طرف دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ وہ دُوردراز گمنام سے دیہاتوںکے گمنام سپاہی تھے ‘سادہ سے‘ لیکن سب دیکھ رہے ہیں کہ گمنام دیہاتوں کے یہی بے نام اور گمنام سپاہی نعرہ ٔحق کی گرج بن کر دشمن کی سدھائی ہوئی کفر کی آہنی اور آتش فشاں متحرک چٹانوں پر بجلیاں بن کر گر رہے ہیں۔ان کے جسم زخموں سے چور ہیں‘ لیکن وہ آخری دم تک دیکھے اور ان دیکھے دشمن کی راہ میں فولادی چٹانیں بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved