جسے ہم جیسے تیسے گزار رہے ہیں‘ کیا اُسے زندگی کہا جاسکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اس کا موثر جواب دیئے جانے کی صورت ہی میں یہ بھی طے ہوگا کہ ہم واقعی ڈھنگ سے جینا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ع
داستاں در داستاں‘ افسانہ در افسانہ غم
ہم بھی اسی منزل پر رک کر رہ گئے ہیں۔ بات غم سے شروع ہوکر غم پر ختم ہو رہی ہے۔ زندگی کا‘ حالات کا اور اپنے وجود کا رونا روتے رہنے کو زندگی کا شعار بنالیا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قدم قدم پر مشکلات اور الجھنیں ہیں‘ مگر ہمیں مشکلات سے نبرد آزما رہتے ہوئے ہی تو جینا ہوتا ہے۔ یہی ہمارے لیے اصل امتحان ہے اور دنیا میں جو کچھ بھی ملتا ہے وہ اِسی کا صِلہ ہے۔
معاشرے کی عمومی روش کچھ اس انداز کی ہے گویا سب کچھ تماشے میں تبدیل ہوگیا ہو۔ لوگ ایک ہی چیز بار بار دیکھ کر بھی اپنی سوچ بدلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ جو کچھ دیکھ اور سمجھ لیا گیا ہو‘ اُس کے دہرانے سے گریز ایک بنیادی تقاضا ہے‘ جسے نبھانے سے گریز کی صورت میں صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔
دنیا کے ہر معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے کا تانا بانا بھی بُری طرح تبدیل ہو رہا ہے۔ بُری طرح یوں کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ اخلاقی اقدار کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جو کچھ مذہب نے سکھایا ہے اور اہلِ دانش کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اُسے اپنانے کی بجائے لوگ اپنے طور پر اخلاقی اقدار طے کر رہے ہیں۔ جھوٹ بولنے سے گریز ہر ایک کے بس کی بات نہیں‘ جسے جھوٹ بولنا ہے وہ بولے۔ کس میں دم ہے کہ روکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب اتنا کردار بھی نہیں رہا کہ جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر بولا جائے۔ لوگ بضد رہتے ہیں کہ جو جھوٹ وہ بول رہے ہیں ‘وہی سچ ہے! یہ معاشرے کی عمومی روش ہے۔ ایسے میں کسی بہتری کی کیا توقع رکھی جائے؟
حقیقت جہاں تھی وہی ہے‘ کہانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے کا اجتماعی مزاج یہ ہے کہ بات بات پر کہانیاں سُنی اور سُنائی جارہی ہیں۔ ہر معاملے کو کہانی کا رنگ دینے کا چلن شرمناک حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی مہربانی ہے کہ اب لوگ ہر بات سے کچھ نہ کچھ لطف کشید کرنا چاہتے ہیں۔ ہر معاملے کو زیادہ سے زیادہ پُرلطف ثابت کرنے کی کوشش جاتی ہے۔ اگر کوئی بُرا مانتا ہے تو مانتا رہے۔
دل و دماغ کو جھنجھوڑ دینے والے واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے اب صرف اس نکتے پر توجہ دی جارہی ہے کہ اُسے تماشے میں‘ کہانی میں تبدیل کیا جائے۔ کہانی گھڑنے اور سُنانے کی بیماری کو بُری طرح پھیلانے میں سوشل میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سوشل میڈیا نے ذہنی یا فکری ساخت بُری طرح تبدیل‘ بلکہ مسخ کردی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اُن تک پہنچنے والی ہر بات میں ایک ایسی کہانی ہو‘ جسے پڑھنے میں بھی لطف محسوس ہو اور سُنانے میں بھی۔ شیئرنگ کے نام پر اِدھر کی بات اُدھر کرنے کا رجحان ایسا پروان چڑھا ہے کہ اب کام کی ہر بات بوریا بستر لپیٹ کر ایک طرف ہٹ گئی ہے‘ کونوں کُھدروں میں دُبک گئی ہے۔
معاشرے میں تیزی سے پنپنے والے کئی رجحانات ایسے ہیں‘ جن کا ہماری زندگی سے مجموعی طور پر کوئی خاص تعلق نہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے‘ جسے لوگ محض دیکھا دیکھی زندگی کا حصہ بنارہے ہیں۔ یہ سب کچھ میکانیکی انداز سے ہو رہا ہے۔ عام آدمی جو طرزِ فکر و عمل اپنائے ہوئے ہے‘ اُس کے حوالے سے اُس کے پاس کوئی منطقی جواز نہیں۔ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کی روش پر گامزن رہنے کی عادت نے ایسی پختگی اختیار کی ہے کہ سوچنے سمجھنے کو بوجھ سمجھتے ہوئے ذہن سے اتار کر پھینک دیا گیا ہے۔
زندگی کی وقعت کو سمجھنے سے گریز اور وجود کو بامعنی بنانے سے برتے جانے والے اجتناب کے باعث آج ہم ہر معاملے کو اُس کے حقیقی تناظر سے ہٹ کر کسی اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ وقت ہم سے بہت کچھ چاہتا ہے۔ زندگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سنجیدہ ہوں‘ اپنے ماحول سے زیادہ سے زیادہ مطابقت پیدا کریں‘ دوسروں کو سمجھنے اور اُن سے اپنے تعلق کو زیادہ سے زیادہ بامعنی اور بارآور بنانے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے ہی سے زندگی کو اُس کے حقیقی تقاضوں کے ساتھ نبھانے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنے کی ہمت کس میں ہے کہ ہمیں عطا کی جانے والی سانسیں اُسی وقت زیادہ بامقصد اور بارآور ثابت ہوسکتی ہیں جب ہم ہر معاملے کو کہانی کا رنگ دینے سے گریز کریں۔ آج کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا چاہتے ہیں ‘جو بھرپور مزے لیتے ہوئے سُنا جاسکے اور پھر بھرپور لطف کے ساتھ سُنایا بھی جاسکے۔ یہی سبب ہے کہ بات کا بتنگڑ بنتے دیر نہیں لگتی۔ بات سے بات نکالنے کو کسی زمانے میں ہنر تصور کیا جاتا ہے۔ اب یہ عادت ہے‘ بلکہ بری عادت۔
کہانیوں کا تانا بانا بنتے رہنے کی عادت نے آج ہماری فکری ساخت کو اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ معمولی سی بات کو بھی نمک مرچ لگاکر بیان کرنے کی عادت پروان چڑھ چکی ہے۔ کسی کو کسی کے بارے میں کچھ معلوم ہوجائے تو وہ آگے پیچھے بہت کچھ ملاکر اس طور آگے بڑھاتا ہے کہ معاملہ کہیں سے کہیں جا پہنچتا ہے۔ یہ عادت رشتوں اور تعلقات میں غیر معمولی بگاڑ کا باعث ثابت ہو رہی ہے۔
کسی بھی معاملے کو سوچے سمجھے اور اپنی ذمہ داری محسوس کیے بغیر نمک مرچ لگاکر آگے بڑھانے سے کیا ہوتا ہے؟ اور کچھ ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو‘ بدگمانیاں ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بدگمانیاں اگر بروقت اور درست انداز سے دور نہ کی جائیں تو رشتوں اور تعلقات میں دراڑیں ڈال دیتی ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں ‘جس میں ہر طرف بدگمانیاں ہی بدگمانیاں ہیں۔ لوگ بات بات پر بدگمان ہو جاتے ہیں۔ بات بات پر ناراض ہونے کا بہانہ ڈھونڈا جارہا ہے۔ ایسے میں معاملات کو درست کرنے اور درست رکھنے کی کوششیں زندگی کے لوازم میں سے ہیں۔ سمارٹ فونز نے ہمیں غیر معمولی حد‘ بلکہ خطرناک حد تک الجھادیا ہے۔ ایک معاملے کو درست کرنے کی کوشش کیجیے تو دوسرا معاملہ سر اٹھالیتا ہے۔ دوسرے معاملے کو درست کرے پر متوجہ ہونے کی کوشش کیجیے تو کوئی تیسرا معاملہ سامنے آجاتا ہے اور توجہ چاہتا ہے۔ ایسے میں کہانیاں تلاش کرنے اور اُن سے محظوظ ہونے کا مزاج ایک طرف ہٹاکر زندگی کے حوالے سے مجموعی طور پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔
محمد رفیع مرحوم نے اپنے آخری ایام میں ونود کھنہ کی فلم ''راجپوت‘‘ کے لیے ایک گیت گایا تھا ‘جس کے بول تھے :ع
کہانیاں سُناتی ہے پون آتی جاتی
یہ بات آج درست حقیقت میں تبدیل ہوچکی۔ آتی جاتی ہوا طرح طرح کی کہانیاں ساتھ لاتی ہے اور لے جاتی ہے۔ زندگی کے ہر معاملے کو افسانے کا مزاج اور رنگ دینے کی روش ایسی پختہ ہوچلی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اکثریت اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ یہ روش ہمارا بہت کچھ داؤ پر لگا رہی ہے۔ حقیقت پسندی کو اپنانے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ جھوٹ سے نجات کی صورت میں سچ ہماری فکری ساخت کا اہم حصہ بنے اور ہماری زندگی سے لایعنی معاملات کا خاتمہ ہو۔