تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     12-09-2019

عظمت بغیر تکلیف نہیں ملتی !

انسانوں کی ایک عظیم اکثریت ویژن سے محروم ہوتی ہے ۔ وہ بہت ہی چھوٹے دائرے میں سوچتی ہے ۔ جب Eventsوقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں تو وہ ان کے دیر پا اثرا ت (Implications)کا اندازہ نہیں لگا سکتی ۔دنیا میں بے شمار ایسے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ‘ جن میں لوگ کیمرے کے سامنے جرائم کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس وقت ہجوم کی جارحانہ نفسیات میں انہیں اس بات کا کوئی بھی خوف باقی نہیں رہتا کہ ان کی ویڈیو بن رہی ہے ۔ وہ شناخت کر لیے جائیں گے ‘ پھانسی پر لٹکا دیے جائیں گے ۔ آپ کو سیالکوٹ میں ہجو م کے ہاتھوں دو لڑکوں کا قتل یاد ہوگا ۔پورا ہجوم ان پہ ڈنڈے برسا رہا تھا اور وہ بھی اس حال میں کہ ان کی وڈیوز بنائی جا رہی تھیں ۔ 
خصوصاًحکمران جب اپنے ایک اشارے پر لشکروں کو حرکت میں آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ طاقت کے نشے میں اس قدر سرمست ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی حدود کا کوئی خیال نہیں رہتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے دورِ اقتدار میں صدام حسین کس طرح ایک کے بعد دوسری جنگ شروع کرتا رہا۔ جب جنرل پرویز مشرف نے افتخار چوہدری کو معزول کیا تھا‘ اسے اس بات کا کچھ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ۔ 
لیکن جو بڑا لیڈر یا مفکر ہوتاہے ‘ اس کے اندر اتنی بصیرت ہوتی ہے کہ وہ واقعات (events)کے دیر پا نتائج دیکھ رہا ہوتاہے ۔ اقبالؔ کو پوری طرح اندازہ تھا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اور اس کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ۔ قائد اعظمؒ کو اندازہ تھا کہ وہ جو تحریک چلارہے ہیں ‘ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک الگ ملک بن جائے گا اور مسلمانوں کے جو لیڈر قیامِ پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں ‘ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ یہ کہ ان کی آئندہ نسلیں ہندوحکمرانو ںکو اپنی وفاداری کا یقین دلاتی رہ جائیں گی ۔ قائداعظم ؒسے کسی نے پوچھا کہ کیا پاکستانی بیس سال میں ایک قوم بن جائیں گے ۔ فرمایا :نہیں سو سال میں ۔ آج ہم جو دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ‘ جناح اور اقبالؔ کو اس کا اندازہ تھااور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اپنی بقا کی جنگ پاکستان جیت لے گا۔ انہیں معلوم تھا کہ بھارت کس طرح پاکستان کا گلا دبانے کی کوشش کرتا رہے گا ۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہندو ایک حقیقی جنگجو قوم نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ایک بہت چھوٹی اقلیت ہونے کے باوجود طویل عرصہ ان پر حکومت کرتے رہے ۔جنگجو سارے مسلمانوں میں تھے یا سکھوں میں۔ 
محمد علی جناح کا اندازہ درست تھا ۔ آج بھارت کے مسلمان ہندو اکثریت کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں مصروف ہیں ۔ سیاسی طور پر بھارت میں سب سے زیادہ متحرک مسلمانوں کی تنظیم کا کہنا یہ ہے کہ مودی جی نے کشمیر پر ترنگا لہرا کر ایک تاریخ رقم کر دی ہے ۔جس شخص کے پاس دین کا کوئی علم نہیں‘ لیکن وہ پاکستان اور بھارت کی عسکری تاریخ اور حالیہ صورتِ حال پہ نظر رکھتا ہے ۔ کشمیر کی صورتِ حال کو سمجھتا ہے ‘ مسلمانوں اور ہندوئوں کے مزاج کو سمجھتا ہے ‘ وہ بخوبی جانتا ہے کہ دونوں ممالک میں ایک فیصلہ کن جنگ ہو کر رہنی ہے ۔ اس جنگ کو ٹالا جا سکتاہے ‘ مستقل طور پر روکا نہیں جا سکتا۔ برہمن کبھی بھی اس احساسِ کمتری سے باہر نہیں نکل سکتا کہ مسلمان اقلیت میں ہونے کے باوجود ہم پر حکومت کیسے کرتے رہے ۔ اس کا خواب ہے کہ ایک دفعہ وہ بھی برصغیر پہ حکومت کرے گا ۔ 
انسانوں کی اکثریت Short sightedہوتی ہے اور مستقبل میں دور تک دیکھ نہیں سکتی؛ البتہ حضرت امام حسینؓ کو بخوبی علم تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے اور مسلمان دنیا پر قیامت تک باقی رہنے والے اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ وہ ہستی تھی‘ جسے سرکارِ دوعالمؐ اپنے کندھوں پر سوار کر لیا کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ عالی جناب ؐ ان سے اس قدر محبت صرف اس لیے نہیں فرماتے تھے کہ وہ بچّے تھے اور خوبصورت اور معصوم دکھائی دیتے تھے ۔ حضورؐ کو معلوم تھا کہ حضرت امام حسن ؓ نے اس قدر بڑی سلطنت کا تاج ٹھکرانا ہے او رحضرت امام حسینؓ پہ کیا گزرنی ہے ۔ سب کچھ تو طے تھا ۔ حضرت امام حسینؓ کو بخوبی علم تھا کہ یزید کے سامنے جھکنا‘ دین کو سرنڈر کرنے کے برابر ہے ۔ سو‘ وہ کیسے پیچھے ہٹ جاتے ۔ انسان کو سب سے زیادہ تکلیف اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتا دیکھ کر ہوتی ہے ۔ یہ تکلیف بھی انہوں نے برداشت کر لی ۔جو لوگ یزید کے ساتھ تھے‘ ان کے خیال کے مطابق ‘آلِ رسول ؐ کو ختم ہو جانا تھا اور یزید کی بادشاہت کو باقی رہنا تھا۔ یہ ان کی Short sightednessکی انتہا تھی ۔ 
آپ یہ دیکھیں کہ حضرت امام حسینؓ نے ان دنوں کس طرح کا طرزِ عمل اختیار کیا‘ جب بھوک پیاس اور اولاد کی شہادت سمیت دنیا کی ساری آفتیں ان پر ٹوٹ پڑی تھیں ۔ جب تکلیف آتی ہے تو انسان کا طرزِ عمل بتاتا ہے کہ اس میں کتنا دم خم ہے ۔ حضرت امام حسینؓپر جو مصیبتیں دیکھنا پڑیں ‘ وہ انسانی تاریخ میں پہلے کسی نہ دیکھی تھیں ۔تو حضرت امام حسینؓ نے نواسہ ٔ رسولؐ ہونے کا حق ادا کر دیا ۔ 
حضرت امام حسینؓ تو ایک ہی تھے ۔ ان جیسا دوسرا تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا ‘لیکن آپ دیکھیں کہ دنیا بھر میں جو عام سیاسی لیڈر ہوتے ہیں ‘ وہ بھی اپنے مقاصد کے لیے قید و بند اور تشدد کی اذیتیں اپنی بساط کے مطابق ‘برداشت کرتے ہیں ۔ سید علی گیلانی اور یٰسین ملک سمیت کشمیری لیڈر شپ کی قربانیاں ہمارے سامنے ہیں ۔ ساری زندگی انہوں نے ایک مقتل میں گزار دی ہے ۔ سر سے پائوں تک جسم کا کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں ‘ جس پر تشدد کے نشانات نہ ہوں ‘ لیکن وہ باقی زندگی بھی یہ اذیتیں برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ آپ نیلسن منڈیلا کو دیکھ لیں ۔ ساری زندگی انہوں نے جیل میں گزار دی ۔ 
ایک وہ لیڈر ہیں ‘ جو اللہ نے ہمیں عطا فرمائے ۔ آصف علی زرداری ‘فریال تالپور‘ میاں محمد نواز شریف ‘ ڈاکٹر عاصم حسین ‘ شرجیل میمن ۔ آپ نام لیتے جائیے‘ جو بھی گرفتار ہوتا ہے ‘ بیماریوں کی ایک پوری فہرست اس کی بغل سے نمودار ہوتی ہے ۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ گرفتار ہونے سے پہلے تک یہ حضرات اقتدار کی جنگ پوری آب و تاب سے لڑر ہے ہوتے ہیں ۔ 
آپ جنرل پرویز مشرف کو دیکھ لیں ۔ وہ اس طمطراق سے پاکستان واپس تشریف لائے تھے کہ اب کی بار سیاسی جدوجہد سے الیکشن جیت کر ایک دفعہ پھر ملک پہ حکومت کریں گے ۔ جیسے ہی گرفتار ہوئے نصف درجن بیماریاں دریافت ہوئیں ؛ حالانکہ جنرل پرویز مشرف کا دورِ اقتدار حالیہ سیاسی تاریخ کا سب سے بہتر دور تھا۔ ڈالر ساٹھ روپے کا تھا۔ قرضوں میں کوئی اضافہ نہ ہوا اور انہیں چھ ہزار ارب روپے کی سطح پر روک دیا گیا۔ ریکارڈ ترقیاتی کام ہوا ‘لیکن تکلیف جس چیز کانام ہے ‘ اسے برداشت کرنے کے لیے پاکستانی لیڈر تیار ہی نہیں ۔ جنرل پرویز مشرف‘ اگر جیل میں پڑے رہتے اور اپنے دورِ اقتدار کی کامیابیوں پہ روشنی ڈالتے رہتے تو عمران خان کے مقابلے میں وہ ایک بڑے لیڈر بن کے ابھر سکتے تھے ‘ مگر افسوس کہ ہمیں صرف چوری کھانے والے مجنوں ہی عطا ہوئے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved