چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ بہت کم گو ہیں۔ اخبارات اورٹی وی کی زینت بننے کاشوق نہیں رکھتے۔ میڈیا کے لوگوں سے کم رابطہ رکھتے ہیں۔ ان سے میڈیا نمائندگان کی زیادہ ترگپ شپ مختلف ایونٹس پر ہی ہوتی ہے ۔جسٹس آصف سعید کمرہ عدالت میں بھی سُنتے زیادہ ہیں اوربولتے کم ہیں۔ ٹودی پوائنٹ سوال کرتے ہیں اورمسکراکرجواب سنتے ہیں۔ بطورجج سپریم کورٹ‘ انہوں نے بڑے بڑے مقدمات کے فیصلے دیئے۔چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی ان کے بارے یہ تاثرعام تھا کہ وہ بلاوجہ سوئوموٹو کااختیار استعمال نہیں کریں گے اوراخبارات کی زینت بننے کی بجائے اپنے ادارے میں اصلاحات کاعمل شروع کریں گے۔یہ بات درست ثابت ہوئی۔ انہوں نے بطورِجج بھی ا پنے طورپرسپریم کورٹ کی حد تک تمام فوجداری مقدمے نمٹائے اورچیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ میں ای کورٹ کانظام متعارف کروایا‘ جس کے باعث سائلین کے مالی مسائل کم ہوئے اوروکلا کوبھی محض ایک مقدمے کی خاطر دوردراز کے سفر کی کوفت سے نجات ملی۔ ماتحت عدالتوں میں ماڈل کورٹس کااجرا کیااورفوجداری مقدمات کونمٹانے کی رفتارمیں اضافہ ہوا۔ پہلی بار ماتحت عدالتوں یعنی ڈسٹرکٹ کورٹس میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں کمی کارجحان مشاہدے میں آیا۔ گوکہ ان کابطور چیف جسٹس آف پاکستان دورانیہ صرف ایک سال ہوگا ‘لیکن انہوں نے محض آٹھ ماہ کے قلیل عرصے میں نمایاں اقدامات کئے ہیں ‘جن کافائدہ خاص طورپر سائلین کوپہنچ رہا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کچھ عرصہ پہلے فیڈرل جوڈیشل اکیڈیمی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کاتصور متعارف کروارہے ہیں‘ جس کے تحت ماتحت عدلیہ مقدمات کے شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد سارے حقائق کمپیوٹر کے حوالے کریں گی اورکمپیوٹر میں موجود آرٹیفیشل انٹیلی جنس کاسوفٹ ویئر متوقع فیصلے سے آگاہ کرے گا‘جس سے فاضل جج رہنمائی بھی حاصل کرسکیں گے کہ آیاجوان کے ذہن میں مقدمے کافیصلہ ہے‘ وہی فیصلہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے بھی آیا ہے کہ نہیں‘تاہم یہ لازم نہیں کہ جج محض آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر ہی انحصار کریں۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ اپنے فیصلوں میں انگریزی ادب کا تڑکا لگانے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔سابق وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کے خلاف توہین عدالت کامقدمہ ہویاسابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کاکیس‘ فاضل چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے اضافی نوٹ خاص طورپرزیربحث آتے ہیں۔
پانامہ لیکس آنے کے بعدسابق وزیراعظم نوازشریف نے سابق چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کوتحقیقات کیلئے خط لکھا۔ انہوں نے جوابی خط لکھا کہ تحقیقات شخصیات کوکس دائرے میں رکھ کرنا ہیں اورکس کے خلاف کرنا ہیں؟ لیکن اس خط کاجواب سپریم کورٹ کونہیں دیاگیا۔ بالآخر مقدمہ کھلی عدالت میں پہنچ گیا۔ جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں پانامہ کیس پردرخواستوں کی سماعت کی گئی‘ لیکن ان سماعتوں کوادھوراچھوڑکر جسٹس انورظہیرجمالی نے یہ کہہ کرسماعت ملتوی کردی کہ آنے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔خودجسٹس جمالی نے اپنی ریٹائرمنٹ سے تین ہفتے قبل ہی عدالتی کام چھوڑدیا تھا۔ ایسا عدالتی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔ میاں ثاقت نثار چیف جسٹس کے منصب پرفائز ہوئے توانہوں نے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ تشکیل دیا۔ دیگر ارکان جسٹس اعجازافضل خان‘ جسٹس عظمت سعید شیخ‘ جسٹس گلزاراحمد اورجسٹس اعجازالاحسن تھے ۔مقدمہ چلا ‘ متعدد سماعتیں ہوئیں۔ پہلے لارجر بنچ کے دوارکان جسٹس آصف سعیدکھوسہ اورجسٹس گلزاراحمد نے میاں نوازشریف کومجرم اورنااہل قراردیا‘ مگرتین ارکان نے جے آئی ٹی تشکیل دی اوربالآخر لارجربنچ دوبارہ بیٹھا اورمیاں نوازشریف کونااہل قراردے دیا۔ مزیدکارروائی کیلئے مقدمات احتساب عدالتوں کومنتقل کردیئے گئے۔ اس دوران بہت سے نشیب وفرازآئے‘ عدالتوں کودھمکیاں بھی دی گئیں‘توہین عدالت کے الزام میں طلال چوہدری‘دانیال عزیز اورنہال ہاشمی کوسزائوںکاسامناکرناپڑاجبکہ دیگر رہنمائوں کو معافی مانگنے پر معاف کر دیا گیا۔ میاں نوازشریف‘مریم نواز کوسزائیں ہوچکی ہیں۔ اپیلیں ہائیکورٹ میں زیرالتوا ہیں۔ آصف علی زرداری اورفریال تالپورسمیت پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے بہت سے ارکان کوکرپشن کے مقدمات کاسامنا ہے ۔کچھ گرفتارہیں کچھ مفرورہیں۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ پانامہ کیس کی ابتدا سے آج تک دھونس‘ دھاندلی اوردھمکیوں کایہ سلسلہ جاری ہے اورشریف فیملی عدالتوں کے فیصلے تسلیم کرنے کیلئے تیارنہیں ہے۔ قانونی اورسیاسی جنگ شدت اختیارکرتی جارہی ہے‘ یہاں تک کہ احتساب عدالت کے جج ارشدملک کاآڈیوویڈیو سکینڈل بھی منظرعام پرآچکاہے۔ دوسری جانب زرداری فیملی کے خلاف احتساب کا عمل شروع ہواتو انہوں نے بھی کم وبیش شریف فیملی والاطرزعمل ہی اختیارکیا اداروں کودھمکیاںدی اوراینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں تک کی گئیں۔
پاکستان کاسیاسی‘عدالتی نظام اورکلچر ایساہے کہ یہاں بڑے لوگوں اوربااثراشرافیہ کوسزائیں کم ہی ملتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی سٹیج پرپہنچ کرکسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگرعدالتیں اورقانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچانے میں اپنی جان ومال اورآبرو خطرے میں ڈال کران کوسزائیں سنا دیں تو بھی این آراو کے نام پر عام معافی کااعلان کردیاجاتاہے ‘جس کے نتیجے میں معاشرے میں یہ تاثر مزید تقویت پکڑجاتا ہے کہ بڑے کوکوئی پکڑنہیں سکتا۔جن لوگوں اوراداروں نے سزائیں سنائی ہوتی ہیں ان میں بددلی اورمایوسی پھیلتی ہے اورانہیں اس بااثر مافیا کے غیظ وغضب کاسامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس بااثراشرافیہ کے لوگ معاشرے کے ہرطبقے میں موجود ہوتے ہیں‘اورکسی بھی مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کی مددکرتے ہیں۔ یہ کھیل پاکستان میں عرصۂ دراز سے جاری ہے۔ افواجِ پاکستان نے ایک فیصلہ کیا کہ پاکستان کو دہشتگردوں سے پاک کرنا ہے۔ اس فیصلے پر صدق دل سے عمل کیا گیا۔ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔افواج پاکستان کی قیادت تبدیل ہوتی گئی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی‘جنرل راحیل شریف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ‘ تینوں سربراہان کے ادوار میں پالیسی میں یہ تسلسل برقرار ہے‘ جس کافائدہ آج پوری قوم اٹھا رہی ہے۔ اس جنگ میں لاکھوں پاکستانیوں نے بلا تفریق‘ رنگ و نسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
پانامہ لیکس میں آنے والے حقائق کے بعد پاکستان کے تمام متعلقہ اداروں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ معاشی دہشتگردی کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔معاشی دہشتگردی کے خلاف جنگ عدلیہ نے فرنٹ مین کے طور پر لڑی اور ابھی تک لڑ رہی ہے ۔اس جنگ سے بچنے کے لیے عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے تحقیقاتی اداروں کو بھاری مراعاتی پیکیجز کی پر کشش آفرز کی گئیں‘ دھمکیاں بھی دی گئیں‘ یہاں تک کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مدد بھی مانگی گئی‘ لیکن کرپشن کے خلاف یہ جنگ تمام اداروں نے پرعزم ہو کر لڑی‘ جو اب تک جاری ہے ۔پی پی پی اور مسلم لیگ( ن) کی قیادتیں احتساب کے سخت ترین شکنجے میں ہیں‘ ان کو بچانے کے لیے‘ ان کو مظلوم ظاہر کرنے کے لیے اہل دانش کا ایک طبقہ بھی میدان میں ہے ۔
الزامات اور مقدمات مختلف مراحل اور مختلف عدالتوں میں زیر التوا اور زیر سماعت ہیں‘ لیکن ایک بار پھر ماضی کی طرح یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ قید میں اشرافیہ سے ڈیل ‘این آر او اور معاملات طے کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر ان بڑوں کو سزائیں دی گئیں تو سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو جائے گا اور سیاسی نظام کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ‘جبکہ دوسری جانب یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ احتساب کے اس عمل سے حکمران جماعت کے رہنما ‘ان سے جڑے ہوئے بااثر بیوروکریٹس‘ جن کے مقدمات احتساب بیورو میں زیر التوا ہیں‘ وہ سب کے سب محفوظ ہیں۔ اب وہ دور نہیں کہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس سے اعلیٰ عدلیہ بے خبر رہے۔نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان خطرات‘معلومات‘خدشات اور تاثر کو بھانپتے ہوئے خبردار کیا کہ عدلیہ بطور ادارہ اس تاثر کو بہت خطرناک سمجھ رہی ہے کہ ملک میں جاری احتساب کا عمل سیاسی انجینئرنگ کے لیے ہے ‘اس تاثر کے ازالے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹوازم میں عدم دلچسپی پر خوش نہیں‘ جبکہ وہی طبقہ چند ماہ پہلے جوڈیشل ایکٹوازم پر تنقید کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جوڈیشل ایکٹوازم کے بجائے جوڈیشل ازم کو فروغ دے رہے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ سوئوموٹو پرعدالتی گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے خبردار کیا کہ اعلیٰ عدلیہ قومی اہمیت کے معاملے پر سوئوموٹو نوٹس ضرور لے گی۔
چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے اپنی کم گوئی میں بہت کچھ کہہ دیا ہے ۔احتساب کے جاری عمل کو ڈی ریل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ کوئی بھی ادارہ ٹشو پیپر بننے کے لیے تیار نہیں ہے اور اگر ایسا ہوا تو بھرپور ردعمل یقینی ہے ۔بہتر ہو گا کہ تمام اداروں کو اپنا اپنا کام کرنے دیا جائے‘ کیونکہ نہ تو سپاٹ فکسنگ اور پچ فکسنگ کی گنجائش ہے اور نہ ہی حالات ایسا کرنے کی کسی کو اجازت دیں گے۔