تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     13-09-2019

دنیا کا محافظ ہار گیا؟

امریکا اور طالبان کے درمیان اصولی طور پہ امن معاہدہ طے پا جانے کے باوجودپانچ ستمبر کی صبح کابل کے محفوظ ترین علاقہ میں کاربم دھماکہ میں چار غیر ملکیوں سمیت دس افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر کی طرف سے ڈرامائی انداز میںمذاکرات کی منسوخی کے فیصلہ نے افغانستان میں قیام امن کی مساعی کو دھچکا پہنچایا۔اس سے قبل دنیا کی واحد سپرپاور کے وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے امن معاہدہ کے سرنامہ میں طالبان کی بجائے اسلامی امارت افغانستان کا لفظ لکھنے کو ناقابل قبول قرار دیکر اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا؛اگرچہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اب بھی کہتے ہیںکہ ہم جنگ ہار رہے ہیں‘پرُامن انخلاء واحد آپشن ہوگا‘مگرصلیبی تصورات کی اسیر امریکی اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ دنیا افغانستان میں طالبان کی فاتحانہ واپسی کو اسلام کے ہاتھوں عیسائیت کی شکست سے تعبیر کرے گی۔روشن خیالی کی علمبردار مغربی طاقتیں سیکولر رویوں کے ساتھ تو اسلام پسندوں کی مزاحمت پہ قابو نہیں پا سکیں‘کیا اب یورپ کو بھی مودی کی ہندوتوا کی مانند مسلمانوں کو دبانے کی خاطر عیسائی عصبیتوں سے توانائی حاصل کرنا پڑے گی؟لیکن ‘جس دن مغرب والوں نے اپنے چہرہ سے سیکولرازم کا خوشنما نقاب اتار پھینکا‘ اسی دن مسلمانوں کی ان منتشر مزاحمتی تحریکوں کے اساسی مقاصد کی تکمیل ہو جائے گی ‘جو پچھلے سو برسوں سے مغرب کی تہذیبی یلغار اورسیاسی بالادستی کیخلاف برسرپیکار ہیں۔
بہرحال‘امن معاہدہ کی قبولیت پہ امریکی انتظامیہ کے درمیاں ابھرنے والے اختلافات نے ان تلخ حقائق سے پردہ اٹھا دیا۔عالمی طاقتیں‘ جنہیں جدید ڈپلومیسی کے طلسماتی لبادوں میں ملبوس رکھ کے دنیا اورخود کو فریب دینا چاہتی تھیں۔کل تک جو امریکی کہتے تھے‘وہ آخری گولی اور آخری دشمن کے خاتمہ تک جنگ لڑیں گے۔آج وہ ایک کروڑ انسانوں کو مارنے کی جنگی صلاحیت رکھنے کے باوجود رسواکن پسپائی قبول کرنے پہ تیار ہو گئے ہیں‘بلکہ کسی تصفیہ کا انتظار کئے بغیر امریکا عملاً افغانستان چھوڑ رہا ہے۔امن معاہدہ کے تحت پہلے مرحلہ میں امریکا نے جن پانچ فوجی مراکز کو خالی کرنے کی پیشکش کی‘ان پانچوں فوجی اڈوں کو وہ کب کا خالی کر چکے ‘اگر طالبان کو علم ہوتا کہ مذاکرات کے دوران امریکی فورسز کا انخلاء جاری ہے تو شاید امن معاہدہ کیلئے ان کی شرائط مختلف ہوتیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ طالبان کی فاتحانہ واپسی امریکا سمیت پوری مغربی دنیاکیلئے ناگوار مرحلہ ہو گی‘کیونکہ افغانستان میں امریکا کی فوجی شکست کے نفسیاتی اثرات دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے حوصلے بڑھا دیں گے۔قرائن بتاتے ہیں‘متذکرہ معاہدہ کی تکمیل سے قبل ہی امریکا نوازافغان گورنمنٹ طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو گی‘تاریخ گواہ ہے‘جب بھی کوئی فاتح یہاں داخل ہوا‘ کابل کی پوری فوج اس کے ساتھ مل گئی۔افغان صدر اشرف غنی اس حقیقت کو جانتے ہیں‘جس دن طالبان فاتح بن کے کابل میں داخل ہوئے‘ اسی روز ان کی پوری سرکاری مشینری اورفوج طالبان کی ہمنوا ہوگی۔
اس وقت بھی قندوز سمیت شمالی افغانستان کے متعدد صوبوں میں طالبان کو برتری حاصل ہے‘ لیکن تزویری حکمت عملی کے تحت وہ صوبہ جاتی مراکز پہ قبضہ کرنے سے گریزاں ہیں‘ تاکہ اپناکنٹرول قائم رکھنے کی خاطر انہیں دفاعی پوزیشن پہ نہ آنا پڑے‘لیکن امریکی اتھارٹی کیلئے اس صورت حال کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ دراصل دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بنیادی جوازکو باطل قرار دینے کی تاریخ ساز دستاویز ثابت ہو گا‘یعنی اکتوبر دوہزار ایک میں پوری دنیا کی حمایت کے ساتھ امریکا نے جس گروہ کو نائن الیون کا ذمہ دار اور دہشت گرد قرار دیکر عالمی امن کیلئے خطرہ باور کرایا اورمجرموں کو انصاف کے کٹہرا میں لانے کی خاطر وسیع جنگی مہم لانچ کی تھی‘اب انہی ''دہشت گردوں‘‘کے ساتھ امن معاہدہ دراصل اپنی غلطی کا اعتراف اورفوجی و اخلاقی شکست تسلیم کرنے کے متراداف ہو گا۔کیا امریکا سمیت پورا مغرب ان مبینہ دہشت گردوں کے سامنے سرنگوں ہوجائے گا‘ جنہوں نے امریکی قوت و شکوہ کی علامت ٹوین ٹاور کو تباہ کر کے دنیا کی واحد سپر پاور کی آتش غضب کو ہوا دی تھی‘اگر ایسا ہے تو‘امریکن(جو خود کو Savior of the worldسمجھتے ہیں)یہ جانتے ہوئے بھی کہ جن لوگوں پہ دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے اٹھارہ برسوں پہ محیط تاریخ کی طویل ترین جنگ مسلط کی انہی کے ساتھ امن معاہدہ کی توثیق عالمی بالادستی سے دستبرداری کے مترادف ہو گی اور اپنی ہی پلان کردہ جنگ سے نجات کی تمنا زوال کی طرف پیش قدمی کی علامت سمجھی جائے گی۔
دنیا کی عظیم سپر پاورکا نمائندہ برملا اعتراف کرنے پہ مجبورہے کہ وہ افغانستان کوطالبان سے نجات دلانے کیلئے لڑی جانے والی جنگ ہار رہے ہیں‘اگر حقیقت یہی ہے تو اب مغربی تہذیب کا تحفظ کون کرے گا؟کیا دنیا سے مغربی تہذیب کی بالادستی کا سورج غروب ہونے والا ہے؟ بلاشبہ امریکا کی مہیب جنگی ٹیکنالوجی اور مغرب کی جدید پروپیگنڈا مشینری طالبان کی فوجی و نظریاتی تسخیرمیں ناکام رہی اور وقت کی میزان نے امریکا کے پورا فلسفہ جنگ اور ان کی سیاست کے عالمی نظریہ کو باطل ثابت کر دیا۔دیکھئے تاریخ کس طرح تقدیر کی مجبوریوںکو بے نقاب کرتی ہے‘امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جس طرح دوسری جنگ عظیم میں مبینہ ہولوکاسٹ کو جواز بنا کے جرمنی سمیت جاپان‘ترکی اور مڈل ایسٹ کو تہس نہس کیا اور کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کو ہوّا کھڑا کرکے عراق اور شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘بعینہ اسی طرح وہ دہشت گردی کی آڑ لے کر ایک کمزور ملک افغانستان پہ بھی چڑھ دوڑے تھے‘ لیکن طویل ترین جنگ میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے باوجود وہ طالبان کو شکست دے سکے ‘نہ اپنے دعوی کو درست ثابت کر سکے‘لیکن اب سوال یہ ہے کہ افغانستان سے فقط امریکی فورسز کا انخلاء ہی اس عظیم المیہ کی تلافی کر پائے گا؟جس نے پورے جنوبی ایشیا کی معیشت‘تہذیب اورامن کو تہہ و بالا کرڈالا‘ہرگز نہیں! لاریب‘مغربی دنیاکو ہولناک جنگ کے مضمرات کو سنبھالنے میں مدد دینا ہوگی‘ بصورتِ دیگر جنگ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہولناک انارکی چین‘روس‘ایران اور ترکی سمیت پورے مڈل ایسٹ کے مستقبل کو متاثر کرے گی۔
امریکا کی تحویل میں موجود ان پانچ ہزار جنگجووں کا کیا بنے گا‘ جن میں سے پندرہ سو افراد کی لسٹ طالبان نے دوحہ میں زلمے خیل زاد کے حوالے کی۔ماسکو مذاکرات کے دوران طالبان نے واضح کر دیا تھا کہ وہ مُلا فضل اللہ سمیت تحریک طالبان کے کسی منحرف رکن کو پاکستان کے حوالے نہیں کریں گے‘طالبان کے افغانستان میں پاکستان کے مخالف عناصر کی موجودگی دونوں پڑوسی ممالک کے باہمی تعلقات پہ کیا اثر ڈالے گی؟اسی طرح پاکستانی جیلوں میں قید ان ہزاروں مبینہ دہشت گردوں کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے گا؟جو سرکاری تنصیبات پر حملوںکے ملزم ٹھہرائے گئے۔کیا انہیں طالبان حکومت کے سپرد کیا جائے گا؟اگر انہیں طالبان کے حوالے کیا گیا تو ان زخم خوردہ عسکریت پسندوں کا پاکستانی اتھارٹی کے ساتھ رویہ کیا ہو گا؟طالبان‘جو ہمارے لیے دہشتگرد نہیں تھے‘وہ اگر خطرہ تھے تو امریکا اور یورپ کیلئے تھے ‘لیکن ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکی اتحادی بن کت انہیں اپنا دشمن بنا لیا۔اب‘ ان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟اورکیا طالبان لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس لے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved