میری تعلیمی زندگی کا بیشتر حصہ افغانستان کی جنگوں، ریاست کی تعمیر، اس کی تباہی اور چالیس سالہ خانہ جنگی کے بارے میں تحقیق اور تالیف میں گزرا ہے۔ کئی سالوں سے دل بیزار ہے، اس بابت مزید کچھ لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ جو کچھ افغانستان کے بارے میں مغرب میں لکھا جارہا ہے، اُس پر پاکستان میں اس خطے کی سلامتی، امن اور استحکام کے بارے میںدلچسپی رکھنے والا ہرشخص نظر رکھتا ہے۔ ہم افغان معاملات سے غافل ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ نہیں کہ وہاں ہماری مداخلت ہو، یا ہمارا سکہ چلے۔ ہرگز نہیں۔ میں کبھی اس نوعیت کی پالیسی کی تائید نہیں کرتا۔ ہماری دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں امن ہو یا جنگ، اس کا مثبت یا منفی اثر ہمارے اندرونی حالات پر ضرور پڑتا ہے۔ یہ تاریخ کا سبق بھی ہے عالمی حقیقت بھی۔ ریاستوں کے اندرونی بحران یا مسائل اُن کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں رہ سکتے۔ افغانستان کی جنگوں کے پاکستان پر کیا اثرات ہوئے، اس کا اندازہ عام آدمی کو بھی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں کیسی خوفناک انتہاپسندانہ تحریکوں نے جنم لیا۔ افغان جنگوں کے شعلوں نے ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ہم تو کیا، مغرب اور امریکہ تک نے اس جنگ کی تمازت محسوس کی۔ جو آگ اُنھوں نے سوویت یونین کی نظریاتی عداوت میں بھڑکائی تھی، اس کو بجھانے کی بجائے اُنھوں نے واپسی کی ٹھانی۔ شکست خوردہ سوویت یونین بھی افغانستان سے دستبردار ہوگیا۔ اس سے خلا پیدا ہوا، اور علاقائی ممالک نے اپنے پسندیدہ افغان دھڑوں کی پشت پناہی کرکے میدان گرم رکھا۔ معلوم نہیں کیسا فہم وادراک ہے، یا تاریخ کی گواہی کہ جنگیں صرف جنگوں سے ہی ختم ہوسکتی ہیں؟ دو بڑی جنگوں کے بارے میں جو کچھ فتح یاب حلیف ممالک میں لکھا گیا، زیادہ تر وہ تاریخ ہے‘ جو غالب طاقت مغلوب فریق کے بارے میں تحریر کرتی ہے۔ فاتح کی شان میں قصیدے ہیں۔ تباہی اور بربادی کا کچھ ذکر ہوتا ہے، مگراس جواز کے ساتھ کہ یہ سب ناگزیر تھا، کیونکہ دشمن نے کوئی اور راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ پھر بہادری کے قصے کہانیاں، جرنیلوں کی عظمت، دانشمندی اور عزم کے بارے میں مبالغہ آمیز تحریریں۔ جنگوں میں معصوم لوگ مارے گئے؛ لیکن پھر جنگوں سے تو ایسا کچھ ہی ہوتا ہے۔
افغانستان کی جنگوں کی طویل اور دردناک تاریخ ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس پر اپنے وقت کی تین بڑی طاقتوں نے فوج کشی کی، اور سب ناکام رہیں۔ امریکہ کی طویل ترین جنگ یہاں جاری ہے۔ اس پر فوجی اورغیر فوجی اخراجات دیگر کئی جنگوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ جب جنگ کی گرد بیٹھے گی تو پتہ چلے گا کہ کتنے لاکھ افغان جان بحق ہوئے۔ خاکسار کی پہلی کتاب کے انگریزی عنوان کا مفہوم یہی ہے کہ افغانستان کی جنگ میں کوئی فتح یاب نہیں ہوا، اور نہ ہوسکتا ہے۔ امریکہ 17سال تک لڑنے کے باوجود نہیں جیت سکا؛ البتہ یہ ضرور ہوا کہ مغربی ممالک نے افغانستان کی تعمیر اس قدر مضبوط کردی ہے کہ اب طالبان دوبارہ اپنا اقتدار قائم نہیں کرسکتے۔ افغانستان کے زمینی حقائق کچھ یوں ہیں کہ کوئی فریق بھی مکمل طورپر حاوی ہوکر اپنا حل مسلط نہیں کرسکتا۔ امریکہ کو بھی معلوم ہے اور طالبان بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ اسی لیے تو مذاکرات کا آغاز ہوا۔
گزشتہ دوماہ سے افغانستان کے سیاسی حل کے بارے میں خوش کن خبریں ہر جگہ گردش میں تھیں۔ مذاکرات کے 9 ادوار مکمل ہوئے، اور ساتھ ہی یہ نوید سنائی گئی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پاچکا۔ اگر یہ خبر صرف واشنگٹن کی طرف سے آتی تو اس پر کچھ بدگمانی ہوسکتی تھی، مگر خود طالبان نے بھی بخوشی دنیا کو بتایا کہ سمجھوتہ ہوگیا ہے، نیز اُن کی تمام باتیں مان لی گئی ہیں۔ امریکہ وہاں مستقل بنیادوں پر اپنی فوجیں نہیں رکھے گا؛ تاہم اُسے واپس جانے میں کچھ عرصہ درکار ہوگا۔ طالبان کے پرامن طریقے سے اقتدار میں آنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوگی۔ جنگی قیدی رہاہوجائیں گے۔ نیز وہ کابل پر چڑھائی نہیں کریں گے۔
اس دوران طالبان کی سب سے بڑی شرط یہ تھی کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ براہ ِراست بات نہیں کریں گے، کیونکہ وہ امریکی مداخلت کی پیداوار ہے۔ اُن کے نزدیک اصل فریق امریکہ ہے، جس نے جنگ مسلط کرکے اُنہیں اقتدار سے محروم کیا۔ یہ امریکیوں کی کمزوری تھی کہ وہ ان مذاکرات میں صدر اشرف غنی کو شامل نہ کراسکے۔ اُنہیں صرف بریفنگ ہی دی جاتی رہی۔ اس دوران امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد، جو خود افغان ہیں، اُن سے مشاورت کرتے تھے۔ صدر غنی کو ملال تھا کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرتے وقت اُن کی نہیں سنی۔ بس سب کچھ طے کرکے معاہدے کا مسودہ اُن کی جھولی میں پھینک دیاکہ اب اُنہیں یہ قبول کرنا پڑے گا۔ اسی طرح شمالی اتحاد سے تعلق رکھنے والے غیر پشتون دھڑے بھی آزردہ تھے کہ جس امریکہ نے اُنہیں طالبان کے خلاف جنگ میں سترہ سال تک استعمال کیا، اب وہ اُنہیں اعتماد میں لیے بغیر اُن کے ساتھ امن معاہدے کررہا ہے۔
امریکہ میں اکثر مبصرین کی رائے یہ تھی کہ معاہدہ طے پاچکا ہے۔ اس میں صرف زیر زبر یا کچھ معمولی سی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اگر کام مکمل نہیں تو بھی طرفین کی طرف سے پیش رفت کے مثبت اشارے ہیں۔ میری رائے بھی یہی تھی کہ معاہدہ طے پانے کے امکانات ہیں۔ خدشات البتہ اپنی جگہ پر موجود ہیں کیونکہ افغان مسئلہ بہت الجھا ہوا ہے۔ امریکہ کو توقع یہ تھی کہ جب مذاکرات کا سلسلہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے تو طالبان کو جنگ بندی پر اتفاق کرلینا چاہیے؛ تاہم وہ نہ مانے، اور افغانستان کی سرکاری فورسز پر حملے جاری رکھے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کا خون بہایا جائے؟ کبھی کسی افغان دھڑے نے نہیں سوچا کہ بہت ہوچکا؛ افغان سرزمین کو امن کی ضرورت ہے۔ اب طالبان کے تازہ حملے میں ایک امریکی فوجی بھی ہلاک ہوا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ پیغام میں انکشاف کیا کہ وہ خفیہ سربراہی مذاکرات، جو اُن کے طالبان کے سربراہ اور صدر اشرف غنی سے کیمپ ڈیوڈ میں طے تھے، وہ منسوخ کررہے ہیں۔ اگر یہ حملہ نہ ہوتا تو ہم معاہدے پر دستخط ہونے کی تقریب آئندہ چند دنوں میں منعقد ہوتی دیکھتے۔ حالتِ جنگ کی حرکیات ایسی ہی ہوتی ہیں۔ جب تک مکمل امن قائم نہ ہو، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سربراہی نشست کا بھانڈا پھوٹ چکا۔ معلوم نہیں اب کتنا اور وقت درکار ہوگا، مزید کتنا خون بہے گا، کتنی کاوشیں درکارہوں گی، لیکن جب بھی ہوا، بات کسی تصفیے پر ختم ہونی ہے۔ طویل جنگ کی فتح کا سہرا کسی کے سر نہیں سجے گا۔
امریکہ اور پاکستان بلکہ ساری دنیا کی خواہش ہے کہ افغانستان کی جنگ ختم ہو، امن ہو، اور بکھرے ہوئے افغانوں کو سکون کا سانس میسر ہو۔ مگر خواہش سے امن قائم ہوتا ہے اور نہ جنگ ختم۔ زمینی حقائق خواہشات کے برعکس ہوتے ہیں۔ دوبارہ امن عمل شروع کرنے کیلئے فریقین کا خلوص، سنجیدگی اور مثبت کاوش درکار ہوگی۔ جنگ طاقت کا کھیل ہے تو امن بھی بچوں کا کھیل نہیں۔ ہر فریق میز پر بیٹھنے سے پہلے اپنی طاقت کا احساس دلانا چاہتا ہے، تاوقتیکہ وہ شکست خوردہ ہو۔
افغان امن میں ریاست، حکومت، نظامِ سیاست، افغان اور غیر افغان دھڑے، لسانی اور نسلی گروہ، اُن سب کا اپنے اپنے علاقوں میں اثر اور تحفظ،اور تجارت اورمعیشت، بہت کچھ سٹیک پر ہے۔ ان تمام دھڑوں کے درمیان آخری مرتبہ اتفاق، ہم آہنگی اور مفاہمت کا ماحول افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے زمانے میں دیکھنے میں آیا تھا۔ موجودہ حالات میں تو یہ ایک خواب ہی ہے۔
افغانستان کے سیاسی اور سکیورٹی کے مسائل کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ امن معاہدہ صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان طے نہیں پاسکتا۔ ان سے شروعات ہوسکتی ہیں، لیکن طالبان سمیت افغانستان کے دیگر دھڑوں کے درمیان بھی مذاکرات ہونے ہیں۔ افغانستان کے شمالی علاقوں میں طالبان کی نیت اورنظریات کے بارے میں شدید شکوک و شبہات موجود ہیں۔ وہ افغان دھڑے نہ مکمل کنٹرول رکھنے والی مرکزی افغان ریاست کے حق میں ہیں، اور نہ طالبان کے نظام کے۔ وہ تکثیریت پسند، جمہوری اور کسی حد تک لچکدار وفاقی نظام میں امن چاہتے ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر یہ عمل نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔ افغانستان میں تازہ ترین حملے نے بہت کچھ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے موجودہ حالات میں یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے۔