پاکستان کے ایک سو مایہ ناز لوگوں سے پوچھا، کیا تحریک انصاف اداروں کو مضبوط کر پائی؟ چوہتر نے جواب دیا: نہیں، ہرگز نہیں۔ پوچھا، گورننس کو کیسے دیکھتے ہیں؟ پچپن نے کہا: ناقص۔ سوال کیا، حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟ اسّی نے کہا: معیشت۔ یہ سب لوگ وہ ہیں جن کی عمریں بیوروکریسی، فوج، کاروبار اور میڈیا میں گزریں۔ انہیں لوگوں سے جب پوچھا کہ خارجہ پالیسی پر تحریک انصاف نے ایک سال میں کیسی کارکردگی دکھائی تو صرف ستائیس نے اسے ناقص کہا‘ تیس نے مناسب قرار دیا، بتیس نے کہا: بہتر ہے اور گیارہ نے کھل کر داد دی اور بولے، ''بہترین‘‘۔ ان میں سے ہر کسی کی رائے سے اختلاف ممکن ہے مگر راست بازی پر کوئی شک نہیں۔ ان کی راستی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ جس حکومت کی خارجہ پالیسی سے مطمئن ہیں اسی کی دیگر پالیسیوں، گورننس اور اداروں کی مضبوطی کے دعووں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دی۔ خارجہ پالیسی کے بارے میں اس عمومی اطمینان کی وجہ یقیناً حکومت نہیں ہے۔ یہ کسی قابل ہوتی تو باقی معاملات میں بھی اس کی کچھ کارکردگی ہوتی۔ آخر خارجہ پالیسی میں ہی ایسا کیوں ہے کہ خوب سوچ بچار کے بعد ایک مقصد طے کیا جاتا ہے، سب لوگوں کو ان کے کام کرنے کا میدان معلوم ہو جاتا ہے اور اہداف حاصل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مشکل وقت ٹالنے کے لیے عرب دوستوں سے سرمایہ بھی مل گیا، بھارت نے شرارت کی کوشش کی تو اس نے منہ کی کھائی، کشمیر پر مودی نے ہندو انتہا پسندی کے زور پر قبضہ کرنا چاہا تو دنیا میں رسوا ہو گیا۔ اتنے سلیقے سے کام کرنا تحریک انصاف کا شیوہ ہے‘ نہ ہی عمران خان صاحب کی تعلیمات میں شامل۔ سبب اس کامیابی کے صرف تین ہیں، اور وہ ہیں خود عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور شاہ محمود قریشی۔ عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ کی رائے پر فیصلہ کرتے ہیں اور شاہ محمود قریشی قرینے سے اس پر عمل درآمد کرا لیتے ہیں۔ دیگر شعبوں میں تباہی اور تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ ان سے متعلق فیصلوں میں چیف آف آرمی سٹاف شامل ہوتے ہیں نہ شاہ محمود قریشی، سو نا اہلی اور پھوہڑ پن کا ایک تماشا ہے جو ایک سال گزر جانے کے بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حکمرانوںکے ارد گرد وہی لوگ زیب دیتے ہیں جو کسی ہنر میں کمال رکھتے ہوں۔ لیکن عمران خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے مصاحبین میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو چرب زبانی کے سوا کوئی کمال رکھتا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم نے جسے پرنسپل سیکرٹری لگایا، اس کی اہلیت پر بھی سوال اٹھ رہا ہے۔ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کا عہدہ وہ ہے جس کا بیوروکریٹ خواب دیکھتے ہیں۔ اس عہدے پر کسی کے فائز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک بھر کے افسران سے وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق کام لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عمران خان صاحب نے وزیر اعظم بنتے ہی سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا کو اپنا پرنسپل سیکرٹری لگایا اور ایک دوسرے سابق چیف سیکرٹری کو مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ لگا دیا۔ اہلیت ان دونوں حضرات کی یہ تھی کہ دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ تک خیبر پختونخوا میں رہتے ہوئے عمران خان کو ہمیشہ با خبر رکھتے تھے۔ اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ وزیر اعظم نے ایک وفاقی محکمے میں جس سرکاری افسر کو متعین کرنے کا کہا، اسے بیرون ملک کورس کرنے بھیج دیا گیا اور اس کی جگہ 'اپنا‘ آدمی لگا لیا گیا۔ ظاہر ہے جب تعیناتی اور ترقی کا معیار کام کی بجائے نسل ہو جائے تو پھر وہی ابتری پھیلتی ہے جو پھیلی ہوئی ہے۔ بیوروکریسی میں ان حضرات کے خلاف ایک غیر اعلانیہ بغاوت کی سی کیفیت ہے اور وزیر اعظم ہاؤس سے آنے والے تمام نیلے پیلے یا لال رنگ کے احکامات سرکاری قواعد کی بھول بھلیوں میں گم کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی تجاویز پر جتنی بھی تعیناتیاں ہوئی ہیں، ان کا نتیجہ وزیر اعظم کو اپنی اور دو صوبائی حکومتوں کی بے عملی کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان میں صورتحال کچھ بہتر اس لیے ہے کہ وہاں وزیر اعلیٰ جام کمال اعلیٰ افسروں کا انتخاب خود کرتے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد جب تحریک انصاف حکومت بنا رہی تھی تو تبدیلی کی تمنا کچھ زیادہ مضبوط تھی۔ اس وقت پارٹی میں یہ طے ہوا تھا کہ عمران خان صاحب وزارت عظمٰی سنبھالنے کے بعد حکومت کو ایک بیوروکریٹ پرنسپل سیکرٹری کی بجائے امریکی صدر کی طرح اپنے قابل اعتماد ساتھی کے ذریعے چلائیں گے‘ جسے چیف آف سٹاف کا عہدہ دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو چیف آف سٹاف وزیر اعظم کی ترجیحات کے مطابق بیوروکریسی سے کام کرواتا اور خود افسروں کے درمیان اس کی حیثیت فریق کی بھی نہ ہوتی۔ شاید یہ ایک مؤثر ماڈل ہوتا لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی یہ صاحبان وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہوئے، انہوں نے ایسے لوگوں کو باہر نکالنے کی ہر ممکن کوشش شروع کر دی جو عمران خان کوچیف آف سٹاف کی تجویز یاد دلا سکتے تھے یا ان بابوؤں کی اہلیت کا پردہ فاش کرنے کی جرأت رکھتے تھے۔ ان کی گزشتہ یک سالہ کارکردگی کی بنیاد پر وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا جا چکا ہے کہ ان سے جان چھڑا کر ایسے لوگوں کو اپنے سٹاف میں شامل کریں جو معاملات کو سمجھتے ہوں اور نظام کے اندر رقابتیں پیدا کرنے کی بجائے کام کریں۔
معاملات کی خرابی ان کرداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ نالائقوں کا ایک غول ہے جو وزیر اعظم صاحب کے ارد گرد پایا جاتا ہے۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہیں عمران خان نے بغیر کسی مشورے کے خود منتخب کیا تھا۔ یہ وہی لوگ تھے جو ان کی جلوت و خلوت کے ساتھی رہے تھے۔ ان کی سیاسی اہلیت بس اتنی تھی کہ جب عمران خان کہیں جاتے تو یہ اپنی قیمتی گاڑیاں ان کے پیچھے بھگایا کرتے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کوئی کاروبار کیا ہے‘ نہ کوئی ہنر ان کے پاس ہے۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ سے یہ جیت تو گئے لیکن قیادت کے گلے کا ہار بن گئے۔ اب ایک سال کی ناکامی کے بعد وزیر اعظم صاحب کو قوی دلائل دے کر سمجھایا جا رہا ہے کہ انہیں اپنے ارد گرد ان تمام لوگوں کو ہٹا دینا چاہیے۔ مشورہ دینے والوں کی رائے میں مذکورہ دونوں حضرات سمیت سات افراد ایسے ہیں جنہیں وزیر اعظم کے دفتر کے ارد گرد ایک میل کے دائرے میں نظر نہیں آنا چاہیے۔
حکومتیں افراد سے چلتی ہیں اور بہترین حکومتیں بہترین افراد کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ ابن خلدون، میکیاولی اور چانکیہ جیسے شاطروں نے بھی حکمرانوں کو یہی سمجھایا ہے کہ لائق ترین لوگ ہی ان کی حکومت کو دوام دے سکتے ہیں جبکہ نالائق مشیر اپنے حاکم کی گردن کٹوا ڈالتے ہیں۔ عمران خان یہ نکتہ مسلسل نظر انداز کیے دے رہے ہیں۔ نا اہلوں کی مسلسل سرپرستی جہاں عوام میں ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث ہے وہیں نظام میں ان کی حیثیت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی مردم نا شناسی اب خطرے کی حدود کو چھونے لگی ہے۔ ان کے چنیدہ لوگ اتنے نکمے ثابت ہوئے ہیں کہ ایک سال بعد بھی حکومتی نظام کا طریقۂ کار نہیں سمجھ پا رہے۔ شام سے لے کر رات گہری ہونے تک پارٹی کرنے والا یہ ہجوم صبح نو بجے دفتر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ نتیجہ اس کا یہ کہ دوپہر بارہ بجے تک افسر اپنے دفتروں میں فارغ بیٹھے کسی ہدایت کا انتظار کرتے رہتے ہیں؛ البتہ ان دفاتر میں جہاں ٹھیک آٹھ بجے کام شروع ہو جاتا ہے، وہاں یہ رائے پختہ ہو چکی ہے کہ اگر یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے اپنی تنظیم نو کرنا ہو گی۔ جناب وزیر اعظم یہ کام خوش دلی سے کر لیں تو بہت عمدہ، ورنہ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ گئی ہے۔