تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-09-2019

جنگِ ستمبر بھارت کی زبانی…(2)

جیسا کہ اس کالم کی پہلی قسط کے ابتدائیہ میں بتایا ہے کہ اس کالم میں جنگ ستمبر کے حوالے سے بھارت کے اندر کے پوشیدہ رازوں کے تمام الفاظ اپنے طور سے یا پاکستان کے ذرائع ابلاغ سے نہیں بلکہ مکمل طور پر انڈین جنرلز‘ وزیر دفاع وائی بی چوان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری آ ر ڈی پرادھن اور بھارت کے معروف اور چوٹی کے انگریزی اخبارات کے ایڈیٹرز کی یاد داشتوں پر مشتمل ہیں۔سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم لندن کی جانب سے متعدد بار یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ جنگ ستمبر میں بھارت نے پاکستان کو شکست دی تھی‘ میںاس پر کوئی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی بجائے ان سے اور ان جیسے دانشوروں کے سامنے ایک سیدھا سادہ سوال رکھتا ہوں کہ ایک ایسی فوج‘ ایسا جنرل‘ ایسا وزیر اعظم جو اپنے پورے لائو لشکر کے ساتھ لاہور پر حملہ آور ہوتا ہے‘ لیکن17 روز تک بار بار اپنا سر پھوڑنے کے بعد بھی وہ لاہور پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے کی بجائے اپنی ہی فوج کے بہنے والے خونی سمندر میں غرق ہو کر رہ جاتا ہے‘ تو بتایئے بی آر بی سے بار بار ٹکرانے کی کوششوں میں ناکام ہونے والوں کو شکست خوردہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟ یہی سوال پاکستان کے ترقی پسند دانشوروں اور ایسے میڈیا ہائوسز اور سیا سی جماعتوں سے بھی کرنا چاہوں گا کہ اپنی تقریروں میں افواج پاکستان کو شکست خوردہ فوج کہنے سے پہلے میرے اس سوال کا جواب دے دیں کہ کسی حملہ آور کو اگر اس کے باطل ارادوں سمیت نیست و نابود کر دیا جائے تو فاتح کون ہو گا؟
جنگِ ستمبر کا سب سے معتبر حوالہ لاہور‘ قصور محاذ کے کمانڈر جنرل ہر بخش سنگھ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے‘ جو ببانگ دہل کہہ رہا ہے کہ انبالہ میںانڈین ائیر فورس کے آپریشن روم میں اُس وقت کے بھارتی چیف آف آرمی سٹاف جنرل جے آنٹو ناتھ چوہدری نے خود اسے کہا کہ ہمیں اپنی فوجوں کو دریائے بیاس کے ادھر اسی طرح ڈیپلائے کرنا ہو گا جیسے پاکستان نے اپنی افواج کو لاہور بچانے کے لیے بی آر بی نہر کے اس پار کر رکھا ہے۔ جنرل ہر بخش سنگھ کی یاد داشتوں''ان دی لائن آف ڈیوٹی‘‘ کو دیکھئے تو اس میں وہ صاف طور پر لکھتے ہیں کہ انہوں نے دریائے بیاس کے ادھر دوسری دفاعی لائن بنانے سے انکار کرتے ہوئے جنرل چوہدری سے کہا کہ میری جگہ وہ خود اس محاذ پر جنگ کی کمانڈ سنبھال لیں کیونکہ میںاستعفیٰ دے دوں گالیکن بیاس کے پار کا سارا علا قہ کمانڈر ہونے کی حیثیت سے خالی نہیں کروں گا ۔ لاہور‘ قصور فرنٹ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ نے انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر شیکھر گپتا کو جب بتایا کہ انبالہ میں آرمی چیف جنرل چوہدری نے اسے لاہور کے مختلف محاذوں سے بھارتی فوجوں کو اگلے مورچے خالی کر کے دریائے بیاس کے پار دوسری ڈیفنس لائن بنانے کو کہا تو خوف اور غصے سے اس کے جسم کا ایک بال بال کھڑا ہو گیا۔ جنرل بخش نے کہا کہ اس نے جنرل چوہدری کے زبانی احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہیں کہا کہ جب تک آدھا بھارتی پنجاب پاکستانی فوج کے قدموں میں دینے کا آر ڈر وہ تحریری شکل میں نہیں دیں گے اس پر عمل نہیں ہو گا ۔ جنرل ہربخش سنگھ اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتے ہیں ''ہم دیکھ رہے تھے کہ 15 ڈویژن کی گاڑیاں سڑک پر ادھر اُدھر پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے ڈرائیور انہیں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔ بہت سی ٹرینوں کے تو انجن تک بند نہیں کر دئے گئے تھے۔ سڑک کے بیچوںبیچ ایک ہتھیار بند گاڑی کھڑی ہوئی تھی‘ جس میں کوئی نہیں تھا‘ لیکن چابی لگی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سڑک سے ہٹوا کر کنارے لگوایا‘‘۔ہربخش سنگھ لکھتے ہیں کہ ڈویژنل ملٹری پولیس کی ایک گاڑی انہیں گنے کے ان کھیتوں کے پاس لے گئی جہاں 15 ڈویژن کے کور کمانڈر میجر جنرل نرنجن پرساد پاکستانی بمباری سے بچنے کے لیے رو پوش تھے۔جنرل ہربخش سنگھ لکھتے ہیں کہ جب جنرل نرنجن پرساد مجھے ریسیو کرنے آئے تو ان کے جوتے کیچڑ سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کے سر پر ٹوپی نہیں تھی اور انہوں نے شیو بھی نہیں بنائی ہوئی تھی۔ ان کی وردی پر ان کا عہدہ بتانے والے سارے نشانات بھی غائب تھے۔ میں نے ان کو اس حال میں دیکھ کر براہ راست سوال کیا آپ ڈویژن کے جنرل افسر کمانڈنگ ہیں یا قلی؟ابھی یہ سوال جواب چل ہی رہے تھے کہ دو پاکستانی جنگی طیارے بہت نیچے پرواز کرتے ہوئے ان کے سر وںکے اوپر سے گزرگئے۔ جنرل نرنجن پرساد نے جنرل ہربخش سنگھ کو پاس کی جھاڑی میں کھینچنے کی کوشش کی۔جنرل ہربخش سنگھ نرنجن پرساد پر زور سے چلائے اور بولے :جہازوں کی ہم میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ویسے بھی وہ ہمیں نہیں دیکھ پا رہے ‘ وہ ان گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جنہیں آپ نے سڑک پر یوں ہی چھوڑ دیا ہے۔جنرل ہربخش نے نرنجن پرساد سے پوچھا کہ آپ کے بریگیڈ کمانڈر کہاں ہیں؟‘ نرنجن پرساد نے آواز لگائی ''پاٹھک ‘ پاٹھک ‘‘ ،جب پاٹھک وہاں پہنچے تو ان کا منہ چادر کی طرح سفید تھا۔پاٹھک نے کہا کہ بہت سے لوگوں کے ہلاک ہو جانے کی وجہ سے وہ غیر فعال ہو گئے ہیں۔اب کچھ حوالے صف اول کے اخبارات سے : جنگ ستمبر کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لندن کے ڈیلی مرر نے لکھا'' جیسے ہی رات ہونے لگتی ہے بھارت اپنی پوری طاقت سے بی آر بی عبور کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ لیکن مقابلے میں پاکستان کا دفاع اس قدر بھر پور ہوتا ہے کہ جب سورج نکلتا ہے تو چاروں جانب بھارتی فوجیوں کی لاشوں کے انبار لگ جاتے ہیں‘ جنہیں وہ اٹھانے کی بھی کوشش نہیں کرتے ۔ ڈیلی ٹائمز لندن نے جنگ ستمبر پر رپورٹ کر تے ہوئے لکھاتھا ''بھارت ایک ایسی قوم کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہا ہے جو اس سے تعداد میں آدھی سے بھی کم اور جس کی فوجی تعداد بھارت کی فوج سے تین درجے کم ہے‘‘۔
ٹائمز کے جنگی رپورٹر LOUIS KARRAR نے جنگ ستمبر پر رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا '' اس قوم کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے جو موت سے خوف زدہ ہونے کی بجائے Plays hide and seek with death۔ امریکہ کے ہفت روزہ ایوی ایشن نے اپنے دسمبر1968 ء کے شمارے میں لکھا ''جنگ ستمبر میں پاکستان نے بھارت کی فضائیہ کا اسی طرح حشر نشر کیا جس طرح اسرائیل نے1967ء میں عرب ممالک کا کیا تھا‘‘۔ فضائیہ کی لڑی جانے والی یہ جنگ اس لئے بھی جنگی تاریخ کی حیران کن جنگ شمار کی جاتی ہے کہ ایک فوج کے پاس پانچ طیارے جبکہ دوسرے کے پاس ایک طیارہ ہو‘ لیکن پانچ ایک کے با وجود ایک والا پاکستان پانچ طیاروں والے بھارت کو پچھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔یہ حیران کن ہی نہیں نا قابل یقین بھی ہے‘ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ سچ بھی ہے جس پر پاکستان ائیر فورس جس قدر چاہے فخر کر سکتی ہے۔
اب جنگ ستمبر میں پاکستان کی بر تری اور سترہ روزہ جنگ میں بے تحاشا اسلحہ اور گولہ بارود استعمال ہونے کے با وود اس کی فوجی قوت اور سپلائی میں کسی قسم کی کمی نہ ہونے کا ثبوت پیش کروں گا اور یہ اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ آر ڈی پرادھن کی جنگ ستمبر پر لکھی جانے والی کتاب کے صفحہ100 کا حوالہ دیتے ہوئے بتائوں گا'' سترہ روزہ جنگ ستمبر پر اقوام متحدہ نے جب 22 ستمبر کوجنگ بندی کی قرار داد پیش کی تو بھارت نے سب سے پہلے اسے قبول کرنے کاا علان کر دیا‘جبکہ پاکستان نے اسے بعد میں تسلیم کیا۔جیسے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا تو بھارت کے وزیر دفاع نے اپنی ڈائری میں لکھاThe ball is now in the political court again -- where it should be--and not in the military one.۔بھارت کے مرحوم وزیر دفاع چوان کا آج سے54 برس قبل لکھاگیا یہ نوٹ بھارت کی وزارتِ دفاع کے ریکارڈ کا آج بھی حصہ ہے‘ جس میںوہ مسئلہ کشمیر پر جنگ کی تباہ کاریوں کو دیکھنے کے بعد اپنی حکومت اور اس کے بعد آنے والی تمام سیا سی قیادتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اب مسئلہ کشمیرکو کبھی بھی فوج کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ ہم سب کو اس کا سیا سی حل نکالنا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved