تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-09-2019

اصل حقیقت کیا ہے؟

آج شاہ جی بڑے دنوں کے بعد ملے۔ میں نے غنیمت جانا اور شاہ جی کو گھیر لیا۔ میں نے چھوٹتے ہی پوچھا: شاہ جی! یہ پنجاب حکومت میں ہل جل کیسے شروع ہو گئی ہے؟ شاہ جی بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے: اس ''ہل جل‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ مجھے تو کوئی ہل جل نظر نہیں آ رہی۔ رتی برابر بھی نہیں۔ جو شے عرصے سے جہاں پڑی ہے وہیں ہے۔ کوئی ہلانے جلانے والا ہو تو کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلے۔ بلکہ اس ہل جل نہ ہونے سے‘ جھاڑ پونچھ نہ ہونے سے اور صفائی ستھرائی نہ ہونے سے سارے سسٹم کو زنگ سا لگتا جا رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ ہل جل شروع ہوئی ہے۔
میں نے کہا : شاہ جی! آپ بادشاہ ہیں۔ پوری بات سنے اور سمجھے بغیر ہی آپ مجھ پر چڑھ دوڑے ہیں۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ پنجاب حکومت میں ہل جل شروع ہوئی ہے۔ شہباز گل اور عون چوہدری کی چھٹی ہوئی ہے۔ شاہ جی نے درمیان میں ٹوکا اور کہنے لگے: اس بات کی درستی کر لیں کہ شہباز گل کی چھٹی ہوئی ہے‘ اس نے استعفیٰ دیا ہے۔ میں زور سے ہنسا اور کہا: شاہ جی! جب ملک الموت آنکھوں کے سامنے آ جائے تو توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ جب فارغ کرنے کا حکم نامہ آ جائے تب دیئے گئے استعفے کی نہ کوئی اخلاقی حیثیت ہے اور نہ ہی یہ ''برضا و رغبت‘‘ والا معاملہ رہ جاتا ہے‘ سو یہی کچھ شہباز گل کے ساتھ ہوا ہے‘ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ذاتی طور پر شہباز گل کے استعفے پر ملال ہوا ہے۔ میں کبھی شہباز گل سے نہیں ملا۔ کبھی کسی تقریب میں ملاقات نہیں ہوئی۔ کبھی کسی سیاسی گہما گہمی میں بھی ٹاکرا نہیں ہوا۔ ٹی وی میں نہیں دیکھتا۔ ممکن ہے کبھی نظر آئے تو میں پہچان بھی نہ پائوں۔ لیکن بات انصاف کی کرنی چاہئے۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی اپنی جگہ۔ اس خرابے میں بھی جتنی صفائی کرنے کی کوشش شہباز گل نے کی تھی اس پر اس کے حوصلے کی اور ہمت کی داد نہ دینا انتہائی نا انصافی کی بات ہوگی۔ بھلا اس حکومتی کی کارکردگی کی صفائی دینا اور اس کا دفاع کرنا کوئی آسان کام ہے؟ کوئی عام تام یہ کام کر سکتا ہے؟ اتنا عرصہ شہباز گل نے یہ کام بڑے صبر‘ حوصلے اور استقامت سے سر انجام دیا۔ اس پر تو اسے تمغہ جرأت (سول) عطا کرنا چاہئے تھا کجا کہ اس کو فارغ کر دیا اور فارغ بھی کیا الزامات لگا کر کیا گیا؟
شاہ جی پوچھنے لگے کہ کیا الزامات لگے ہیں؟ میں نے کہا: شاہ جی! آپ ایک عظیم ''کھچرے اور مچلے‘‘ آدمی ہیں۔ میں آپ سے پوچھنے کے چکر میں ہوں اور آپ الٹا مجھ سے سوالات کر رہے ہیں۔ فی الحال تو بات ہو رہی تھی ہل جل کی۔ میرا تو خیال ہے کہ تبدیلی کی ہوا چلنے والی ہے۔ یہ تبدیلی تحریک انصاف کے منشور والی تبدیلی نہیں بلکہ حکومت کی تبدیلی کی ہوا کی بات ہو رہی ہے۔ عثمان بزدار صاحب فی الحال اپنی ساری ناکامیوں کا ملبہ اِدھر اُدھر گرا کر وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ لیکن کب تک؟ ان کا کہنا ہے کہ شہباز گل وغیرہ ان کو چلنے نہیں دے رہے۔ بھلا آپ انصاف کریں کہ ایک بندہ رضائی لپیٹ کر چارپائی پر لیٹا ہو اور الزام لگائے کہ فلاں اسے چلنے نہیں دے رہا تو اس پر سوائے ہنسنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ چلنے کے لیے ارادے کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔ اب یہ ہوگا کہ شہباز گل کو نکلوا کر‘ عون چوہدری کی چھٹی کروا کر بھی کارکردگی میں بہتری نہ آئی جو سو فیصد یقین ہے کہ نہیں آئے گی تو پھر کیا بہانہ چلے گا؟ شہباز گل پر ملبہ گرایا گیا ہے کہ یہ ''میری‘‘ حکومت کو چلنے نہیں دے رہا۔ شاہ جی! آپ سے حالانکہ انصاف کی توقعات کا لیول کوئی زیادہ بلند نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ کو ہی منصف کرنا پڑ رہا ہے۔ آپ خود بتائیں بھلا اس حکومت کو کون چلنے سے روک سکتا ہے جو بذات خود چل ہی نہ رہی ہو۔ اب ایسی صورتحال میں کسی پر الزام لگانا ایسا ہی ہے کہ کسی شخص کو بس چلانا تو کجا‘ بس کو سٹارٹ کرنے کے لیے سیلف مارنا بھی نہ آتا ہو اور وہ بس کمپنی کے مالک کے پاس جا کر رونا شروع کر دے کہ اڈے کی صفائی والا لڑکا اسے بس نہیں چلانے دے رہا۔
اوپر سے ستم یہ ہو کہ بس اڈے میں اتنا گند پھیلا ہو کہ دنیا کا سب سے بہترین صفائی کرنے والا بھی اپنی تمام تر کوشش اور محنت کے باوجود اس سارے گند کی صفائی نہ کر پا رہا ہو تو اب اس کے دو حل ہیں۔ پہلا یہ کہ صفائی کا عملہ بڑھایا جائے اور دوسرا یہ کہ اڈے کی انتظامیہ صفائی کا نظام بہتر کرے اور وہاں زیادہ گند پھیلانے ہی نہ دے۔ یہ دونوں کام اڈے کی انتظامیہ کے ہیں۔ بے چارے صفائی والے لڑکے کے نہیں ہیں۔ اڈے پر ڈسٹ بن نہ ہوں تو لوگ سارا گند فرش پر ہی گرائیں گے۔ ابھی تو معاملہ صرف شہباز گل تک ہے۔ یعنی صفائی پر مامور شخص پر سارا ملبہ گرایا گیا ہے۔ ابھی آگے آگے دیکھیں ۔ ڈرائیوری سے قطعاً نابلد ڈرائیور بس نہ چلنے کا ملبہ بکنگ آفس کے کلرک پر ڈالے گا۔ اڈے کے ہاکر پر ڈالے گا۔ ٹکٹ چیکر پر ڈالے گا۔ لیڈی ہوسٹس پر ڈالے گا۔ سکیورٹی گارڈ پر ڈالے گا حتیٰ کہ دو چار سواریوں پر بھی ڈالے گا۔ آپ ابھی دیکھتے تو رہیں۔ ہوتا کیا ہے۔
شاہ جی نے اچانک مجھ سے پوچھا: ملتان کا کمشنر کون ہے؟ میں ایکدم سے گڑبڑا گیا۔ بلکہ پہلے تو اس سوال پر گڑبڑایا پھر گھبرا گیا اور شرمندہ ہوگیا۔ بڑا یاد کیا لیکن ملتان کے کمشنر کا نام یاد نہ آیا۔ یاد بھی کیسے آتا؟ ہر چوتھے دن تو ملتان کا کمشنر تبدیل ہو رہا ہے۔ پہلے اسد اللہ خان کمشنر ملتان تھا۔ اس کے بعد بلال بٹ ملتان میں کمشنر لگ کر آ گیا۔ اسد اللہ خان نے بھی قریب دو اڑھائی سال سے زیادہ بطور کمشنر ملتان اپنا فریضہ سر انجام دیا۔ پھر بلال بٹ ملتان کمشنر بن کر آ گیا۔ ابھی سال سے تھوڑا زیادہ ہی ہوا ہوگا کہ الیکشن آ گئے اور نگران حکومت نے اسے تبدیل کر دیا۔ پھر ندیم ارشاد کیانی آئے اور چار ماہ روشنی دکھا کر رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد عمران سکندر بلوچ تقریباً نو ماہ کمشنر ملتان رہا اور تبدیلی کی ہوا کی نذر ہو گیا۔ اب نیا کمشنر آیا ہے۔ ایک دوست کو فون کر کے نام معلوم کیا۔ پتا چلا کہ ہمارے نئے کمشنر کا نام افتخار علی سہو ہے اور اسے ملتان میں بطور کمشنر تعینات ہوئے ڈیڑھ ماہ کا'' طویل عرصہ‘‘ گزر چکا ہے۔
شاہ جی کہنے لگے: عزیزم! یہ صرف ملتان کے کمشنر کی پوسٹنگ کا حال ہے۔ کبھی زمانہ تھا بجٹ ایک سال کے لیے اور سرکاری ملازم تین سال کے لیے آتا تھا۔ اب نہ بجٹ سال چلتا ہے اور نہ سرکاری ملازم تین سال۔ ایک ڈپٹی کمشنر کا یہ حال ہے کہ وہ ایک سال کے دوران چھ بار سے زیادہ تبدیل ہوا ہے۔ ایک محکمے کا سیکرٹری پانچ بار تبدیل ہو چکا ہے۔ عمران خان نے اپنی عزت اور ناک کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ کنڈیکٹر پر کنڈیکٹر تبدیل ہو رہا ہے۔ بکنگ آفس کا کلرک چھ بار تبدیل کیا جا چکا ہے۔ پانچ بار بورڈ کو معطل کیا ہے۔ لیڈی ہوسٹس چھ سات بار بدلی گئی ہے‘ لیکن بس ہے کہ چل نہیں پا رہی۔ ڈرائیور کو سیلف مارنا نہیں آتا لیکن بس کمپنی کا مالک اسی ڈرائیور کے ساتھ بس چلانے پر مُصر ہے۔ اول تو اس بس نے چلنا نہیں اور بفرض محال چل بھی پڑی تو سوائے کہیں ٹکرانے کے اور کچھ نہیں کرے گی۔ پنجاب تیرہ کروڑ سواریوں والی بس ہے۔ بچوں کی ریموٹ کنٹرول والی گاڑی نہیں ہے جس میں ڈمی ڈرائیور بیٹھا ہوتا ہے اور اسے ہاتھ میں پکڑے ریموٹ سے کنٹرول کر کے چلا لیا جاتا ہے۔
ادھر دوسری طرف عثمان بزدار صاحب نے اپنی تبدیلی کا امکان مسترد کر دیا ہے۔ اگر شہباز گل سے پوچھا جاتا تو وہ بھی اپنی فراغت سے ایک گھنٹہ پہلے تک اپنی تبدیلی کے امکان کو یکسر مسترد کر دیتا۔ عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ دشمن اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔میں نے پوچھا: شاہ جی! یہ عثمان بزدار کا دشمن کون ہے؟ شاہ جی نے ایک لمحہ توقف کیا پھر کہنے لگے: عثمان بزدار کے ایک نہیں کئی دشمن ہیں۔ اس کی کارکردگی اس کی دشمن ہے۔ اس کی سوجھ بوجھ اس کی دشمن ہے۔ اس کا ... یہ کہہ کر شاہ جی رک گئے۔ کہنے لگے: یہ لمبی فہرست ہے۔ مختصر کہوں تو وہ اپنے دشمن خود ہیں اور کوئی نہیں۔ اور ہاں! ایک بات یاد رکھو‘ ہمارے ہاں جب کوئی اپنے جانے کا امکان مسترد کرتا ہے تو دراصل وہ اپنے جانے کے امکان کی از خود تصدیق کر رہا ہوتا ہے۔ باقی رہ گئی بات اپنے عثمان بزدار صاحب کی‘ تو حاشا وکلا وہ بے قصور ہیں۔ سارا قصور تو اس کا ہے جس نے سلیکشن کی اور اب وہ اپنی اس سلیکشن پر بضد بھی ہے۔ بلکہ شنید ہے وہ اسے جانے بھی نہیں دے رہا۔ حقیقت کیا ہے؟ اللہ ہی جانتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved