بھارت کی زبانی؛ دوکشتیوں کا ایک نیا بھارتی ڈرامہ سنتے ‘دیکھتے ہوئے ذہن میں رکھیے گا کہ یہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے‘ جب ایک جانب FATF کا فیصلہ کن اجلاس منعقد ہو رہا ہے‘ تو دوسری جانب کشمیر پر انٹرنیشنل انسانی حقوق کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں دو ہفتے بعد نیو یارک میں جنرل اسمبلی کا سالانہ ہنگامہ خیز اجلاس ہو رہا ہے‘ جس میں کشمیر کا مسئلہ فلیش پوائنٹ بننے والا ہے‘اس لیے پاکستانی وزارت ِخارجہ کو ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کو بتانا ہو گا کہ سچ کیا ہے اور اس کیلئے میں ان کے سامنے بھارت کا ہر اہم موقعے پر کھیلا گیا‘ دہشت گردی کا ڈرامہ رکھ رہا ہوں:۔
جنوبی بھارت کی آرمی کے جنرل آفیسر کمانڈر ایس کے شاہنی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ٹروپس نے گجرات کے قریب دو لاوارث خالی کشتیوں کو نوٹس کیا ہے۔ ان کی پریس کانفرنس کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا کے واویلا کے مطا بق‘ دو لاوارث کشتیاں بھارت کی سدرن کمانڈ نے قبضے میں لی ہیں‘ جن کے متعلق ان کاکہنا ہے کہ اس میں پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے دہشت گرد سوار تھے‘ جو کوئی بہت بڑی تخریب کاری کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور اس قسم کے جھوٹ جلد ہی پکڑلیے جاتے ہیں ۔ ''انڈیا ٹو ڈے‘‘ پر چلنے والی اس خبر پر جب میں نے 10 ستمبر کی صبح‘ قریباً دس بجے انہیںمیسیج کیا کہ ایسے وقت میں جب پاکستان اور بھارت کی بری‘ بحری اور فضائی افواج انتہائی الرٹ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہیں ‘تو کیا سر کریک سے آگے بھارتی بحریہ کو کوئی خاص قسم کی بھنگ پلا کر مدہوش کیا ہوا ہے کہ اسے اپنی جانب تیرنے والی کوئی کشتی نظر ہی نہیں آئی اور نیوی کی بجائے انڈین آرمی کے حصے میں یہ اہم کامیابی لائی گئی کہ وہ گجرات کے قریب ان کشتیوں کو اپنے قبضے میں لے سکے ‘ جس میں انسان تو کجا کوئی مچھلی بھی نہیں پائی جا سکی ۔اس بابت لیفٹیننٹ جنرل ایس کے شائینی کے الفاظ ہیں کہ:
We're taking precautions to ensure that designs of inimical elements and terrorists are stalled.
وزیر اعظم‘ آرمی چیف اور وزارت ِخارجہ گزشتہ دو ماہ سے اقوام عالم اور ان کے خفیہ فوجی اداروں کو خبردار کر رہی ہے کہ کشمیریوں کی پر امن جدو جہد آزادی کو بھارت کسی خود ساختہ دہشت گردی جیسے عوامل کے ذریعے سبو تاژ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور گزشتہ ایک ماہ سے تو وزیر اعظم عمران خان نے ملنے والی مصدقہ اطلاعات کی روشنی میں وارننگ جاری کرتے ہوئے کہنا شروع کیا ہوا ہے کہ بھارت کشمیر میں کوئی نیا پلوامہ ‘اُری کیمپ یا بھارت کے اندر پارلیمنٹ ہائوس‘ ممبئی جیسا کوئی ڈرامے سٹیج کر سکتا ہے اور اگر اس ڈرامے کی آڑ میں بھارت نے کسی قسم کی جارحیت کرنے کی کوشش کی تو پاکستان اس پر احتجاج نہیں‘ بلکہ اس کا بھر پور جواب دے گا۔
جنوری2015ء میں امریکی صدر براک اوبامہ بھارت کے دورے پر آنے والے تھے‘ جس میں تنازعہ کشمیر پر امریکی فارمولے پر گفتگو ان کے ایجنڈے میں شامل تھی کہ 31/12/2014 کو رات گئے ‘نئے سال کی تقریبات کے جشن کے دوران آئی جی انڈین کوسٹ گارڈ کے آر نوتیال نے میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ ہماری فورسز نے بندر پور‘ گجرات سے356 کلومیٹر دور ایک نا معلوم کشتی کو روکنے کی کوشش کی‘ لیکن ہماری وارننگ پر رکنے کی بجائے وہ تیز رفتاری سے آگے نکل گئی‘ پیچھا کرتے ہوئے متعدد وارننگ پر کوسٹ گارڈز نے کشتی پر فائرنگ کر دی‘ جس سے کشتی ایک دھماکے سے اڑ گئی‘ جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی‘ انڈین نیشنل کانگریس نے سب سے پہلے ردعمل دیتے ہوئے کہا '' کشتی کی کہانی مودی سرکار کے اجیت ڈوول کے گھڑے ہوئے سنسنی خیزڈرامے کے سوا ور کچھ نہیں‘‘ کیونکہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ 30HP کشتی کوسٹ گارڈز کے جدید جہازوں سے تیز چل سکے؟لیکن امریکی صدر اوبامہ کی بھارت آمد پر اجیت ڈوول نے ان کے طے شدہ کشمیر ایجنڈے کو اس نا معلوم کشتی کے ساتھ ہی نذر آتش کر دیا۔ بھارت سے عالمی ا ور پاکستانی میڈیا کی جانب سے بار بار کہا گیا کہ اس کشتی کا کوئی پرزہ یا اس میں سوار دہشت گردوں کے جسم کا کوئی ایک حصہ ہی ہمیں دکھا دیا جائے۔
امریکی صدر بل کلنٹن کشمیر پر ایک واضح اور پہلے سے دونوں حکومتوں کے درمیان چناب فارمولے کے نام سے باہمی طے شدہ ایجنڈے پر فیصلہ کن ڈرافٹ تیار کرنے کیلئے بھارت کے دورے پر آئے ہوئے تھے‘ وہ ابھی اپنے جہاز ہی میں تھے کہ22 مارچ2000ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے نئی دہلی ائیر پورٹ پر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ رات گئے پاکستان کی کالعدم تنظیموںکے دہشت گردوں نے جموںو کشمیر کے چٹی سنگھ پورہ کی سکھ آبادی والے گائوں کے36 سکھوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکال کر گائوں کے باہر قطار میں کھڑا کرتے ہوئے مشین گنوں سے بھون کر رکھ دیا ہے‘ ایسے میں بھارت کشمیر سمیت کسی بھی ایجنڈے پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ‘کیونکہ پورے بھارت میں پاکستان کے خلاف سخت غم وغصہ پھیل رہا ہے‘ ہمارے لئے تو اس وقت یہ امتحان ہے کہ پاکستانی سفارت خانے اور مسلم کمیونٹی کی کس طرح مشتعل ہجوموں سے حفاظت کی جائے۔
13 دسمبر2001ء کو نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر بھارتی دعوؤں اور انڈین میڈیا کی رپورٹس نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ پاکستان کی دو کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ کہا گیا کہ اس حملے میں پانچوں دہشت گردوں سمیت کل چودہ افراد ہلاک کر دئیے گئے ہیں‘ جن میں دہلی پولیس کے چھ‘ ایک مالی ‘ پارلیمنٹ سکیورٹی سٹاف کے دو رکن بھی شامل ہیں ۔مضحکہ خیزی اور جھوٹے دعوؤں کا واویلا دیکھئے کہ ان کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کیلئے کمانڈوز نہیں‘ کوئی سپیشل فورسز نہیں‘ بلکہ صرف دہلی پولیس کا عام دستہ بھیجا گیا‘ جس نے حملہ کیلئے وہاں آئے پانچوں دہشت گردوں کو اڑا کر رکھ دیا اور یہ ڈرامہ اس لئے کیا گیا کہ امریکا ‘افغانستان پر حملہ کر چکا تھا اور اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کی قیادت شمالی وزیرستان اور پاک افغان بارڈر سے ملحقہ حصوں میں تورا بورا سے نکل کر اکتوبر میں کہیں پناہ لے چکی تھی اور پاکستان ان کے خلاف اس وقت کارروائی نہیں کر رہا تھا‘ اگر کسی کو رتی بھر بھی یاد رہ گیا ہو تو پاکستان نے القاعدہ کے خلاف کارروائی کہیں2005ء کے آغاز میں شروع کی تھی اور دہلی پارلیمنٹ حملے کی آڑ میں بھارت کی دس لاکھ فوج پاکستانی سرحدوں سے دو سال تک کسی وقت بھی حملہ کرنے کیلئے بٹھا دی گئی اور یہ تمام امریکی دبائو ڈالنے کیلئے کیا گیا تھا ‘تاکہ جنرل مشرف‘ القاعدہ اور طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کریں۔
جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں کئی ماہ کی پس پردہ کوششوں سے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اپنے وفد کے ہمراہ بھارتی حکام سے بات چیت کیلئے 19 فروری2007ء کی صبح نئی دہلی جانے کیلئے پر تول رہے تھے کہ ان کی روانگی سے صرف پانچ گھنٹے قبل سترہ اور اٹھارہ فروری کی رات دہلی سے آنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی دو بوگیوں میں اچانک کئے گئے دو خوفناک بم دھماکوں نے69 مسافر وں کو زندہ جلا کر رکھ دیا اور ان بم دھماکوں کے ایک گھنٹے بعد بھارت کے سارے میڈیا نے سر آسمان پر اٹھا لیا کہ پاکستان کی کالعدم تنظیموں اور خفیہ ایجنسی نے سمجھوتہ ایکسپریس کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہوئے‘ اس کی دو بوگیوں کے مسافروں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔
26/11/2008کے ممبئی حملوں کی60 گھنٹے کی فلم اس لیے دکھائی جاتی رہی کہ پی پی پی حکومت نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو امریکا اور حامد کرزئی کے ذریعے بگلیہار‘ چناب اور کشمیر سمیت سر کریک اور سیا چن پر بات چیت کیلئے انہیں دہلی بھیجا تھا‘ لیکن ابھی وہ نئی دہلی پہنچ کر اپنا سامان کھول رہے تھے کہ ''26/11 کروا دیا گیا‘‘۔( زیر طبع کتاب26/11 ہیمنت کرکرے اور اجمل قصاب کے انگریزی ایڈیشن سے ماخوذ )۔