تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     15-09-2019

شرمند گی انسانیت کی

انسان کتنا گرسکتا ہے ؟ جب انسان ‘ انسانیت سے گرتا ہے ‘تو وہ حیوان بن جاتاہے۔ کشمیر کاموجودہ مسئلہ محض سیاسی‘ جغرافیائی‘ سماجی یا مذہبی نوعیت کا نہیں ‘ یہ انسانی مسئلہ بھی ہے‘ جسے تادیر اندرونی معاملہ کہہ کر چھپایا جاتا رہا۔ جی ہاں! لائن آف کنٹرول اندرونی معاملہ ہے ؛ ہاں شملہ معاہدہ کہتا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ دوطرفہ مذاکرات سے حل ہوگا؛یقینا کشمیرکا ایک تاریخی پس منظر ہے‘ جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ؛اس کے آئینی مضمرات بھی ہیں‘ لیکن سب سے بڑھ کر یہ ایک انسانی مسئلہ ہے‘ جوسرحدوں‘ قوانین‘ معاہدوں‘ سیاست اور معیشت سے ماوراہے اور اس وقت سب سے بڑا سچ یہی ہے ؛ حتیٰ کہ حیوانوں کو بھی اس طرح خوراک اور ادویات کے بغیر40 دن بند نہیں رکھا جاتا۔ 
اقوام ِ متحدہ نے بالا ٓ خر انڈیا کو اُن 38 شرمناک ممالک کی فہرست میں رکھ لیا‘ جو اپنے ساتھ تعاون کرنے والے لوگوں کو بھی ہلاکتوں‘ تشدد اور جبری گرفتاریوں کے ذریعے دباکرر کھتے ہیں۔ اقوام ِمتحدہ کی سالانہ رپورٹ میں بھی مظلوم کشمیری عوام اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے اور ان کیخلاف توہین آمیز مہم چلانے کے الزامات موجود ہیں۔یہ فہرست ابھی پہلا قدم ہے ۔ انڈیا نے خواتین ‘ مسلمانوں‘ مسیحیوں اور نچلی ذاتوں؛جیساکہ دلتوں کے ساتھ غیر انسانی ‘ توہین آمیز سلوک کو ایک راز رکھا‘ لیکن کشمیر میں بلیک آئوٹ کرنے سے راز فاش ہونے لگے۔ دنیا نے سری نگر اور وادی کے دیگر شہروں میں قیامت ٹوٹتے دیکھی۔ رابطے منقطع کیے تو راز کھلنے لگا۔ دنیا ‘شہریوں کو بنیادی ضروریات کے بغیر زندگی کے دن کاٹتے دیکھ رہی ہے اور حیوان نما انسان‘ جبراور تشدد کی انتہاتک پہنچ چکے ہیں۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت یکطرفہ طور پر ختم کرکے اس پر جبری قبضہ جمانے سے پہلے بھی یہاں زندگی سنگینوں کے پہرے میں تھی۔ ہندوتوا سے تعلق نہ رکھنے والوں پر ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے ۔مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور قتل انڈیا کے چہرے پر بدنما دھبہ تھا۔ تبریز انصاری کی ہندو جنونیوں کے ہاتھوں ہلاکت اس درندگی کی ایک مثال ہے ۔ رواں سال جون میں 24 سالہ مسلم نوجوان تبریز انصاری پر مشتعل ہجوم نے حملہ کیا اور بے دردی سے ہلاک کردیا۔ تشدد کی ویڈیوز ظاہر کرتی ہیں کہ اس کو موٹر سائیکل چوری کا الزام لگاکرٹیلی فون کے ایک کھمبے کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ ہجوم اُسے وحشیانہ انداز میں مار تے ہوئے ''جے شری رام‘ جے ہنومان ‘‘ کہنے پر مجبور کررہا تھا۔ گزشتہ اپریل میںایک مسیحی قبائلی کو ایک مردہ بیل کی کھال اتارنے پر ہلاک کردیا گیا تھا۔ جھاڑکھنڈ کے گائوں جھرمو میں ایک کسان ادرانش کجور نے بتایا کہ اُس کا20 سال کا بوڑھا بیل کھیت میں مر گیا تھا۔ کم و بیش 35 دیہاتی اُس کی کھال اتارنے گئے تھے ۔ چند منٹوں کے بعد لوہے کی سلاخوں اورڈنڈوں سے مسلح ایک ہجوم نے اُن پر حملہ کیا ۔ اُن کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے گائے کو ہلاک کیا ہے ‘جو ان کے نزدیک ایک جرم تھا۔ 
یہ تو ہے تمام ہندوستان کی صورت ِحال‘ لیکن جو کچھ کشمیر میں ہورہا ہے ‘وہ دفعتاً کسی مشتعل ہجوم کا حملہ نہیں‘ بلکہ انڈین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کا منظم قتل ِعام ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی انسانی حقوق پر ایک رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ بغاوت کو دبانے کیلئے بھارتی فوج نت نئے حربے استعمال کررہی ہے ۔ 560 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کشمیریوں پر قید ِ تنہائی‘ مسلسل جگائے رکھنے اور حتیٰ کہ ہرقسم کا جنسی تشدد کیا جاتا ہے ۔ غائب کیے گئے افراد کے والدین کی تنظیم APDPاور جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی کے ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق‘ بجلی کے جھٹکے دینا‘ چھت سے لٹکانا‘ قیدیوں کا سر پانی میں ڈبونا(جبکہ پانی میں سرخ مرچیں حل کی گئی ہوں)معمول کی بات ہے ۔ تشدد کے دوران قیدیوں کو برہنہ کرکے ڈنڈوں سے مارنا ‘ ہیٹر وں یا جلتے ہوئے سگریٹوں سے داغا جاتا ہے ۔ 
اگر دنیا سوچتی ہے کہ یہ سیاسی مقابلے بازی میں دو حریف ہمسایوں کا پروپیگنڈا ہے ‘ تو وہ بھی اس جرم ‘ جس کا جوالا مکھی پھٹنے کو ہے ‘ میں برابر کی شریک ہے ۔ ایک امریکی تنظیم جینو سائیڈ واچ نے پہلے ہی کشمیر اور آسام کے حوالے سے ریڈ الرٹ جاری کردیا ہے ۔ یہ تنظیم نسل کشی کے خطرے کو بھانپ کر اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے ۔ نسل کشی کا تعین کرنے کے دس تسلیم شدہ اصول ہیں۔ جیسا کہ دیکھا جائے کہ ہلاک کیے جانے والے افراد کا تعلق کسی خاص گروہ ہے ؛ ہلاکتیں منظم اور پر تشدد ہیں؛ ان کی علامتی اہمیت ہے ؛ ہلاکتیں پوری تیاری کے ساتھ کی جاتی ہیں؛ جرم کا اعتراف نہیں کیا جاتا؛ پورے کے پورے خاندانوں کو ختم کیا جاتا ہے؛ وغیرہ ۔ کشمیر میں یہ سب کچھ کیا جارہا ہے ۔واضح رہے کہ 1990 ء سے بھارتی فورسز کے علاوہ جنگجووں کے ہاتھوں قتل ِعام کے 25 ایسے واقعات پیش آچکے‘ جن میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 25 سے زائد تھی۔ مودی اور بی جے پی حکومت نے ہمیشہ ان ہلاکتوں کی تردید کی ۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردی ختم کرنے اورخوشحالی لانے کا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ رپورٹس کے باوجود انہوں نے قتل ِعام کا کبھی اعتراف نہیں کیا۔ کبھی کسی بھارتی فوجی یا پولیس افسر کو تشدد‘ قتل یا آبروریزی پر سزا نہیں دی گئی او ر ظلم بڑھتارہا ۔
کئی عشروں سے انڈیا کا ترقی پسند سیکولر امیج اس کا اہم ترین اثاثہ رہا ہے ۔ اپنی ثقافتی مارکیٹنگ کے ذریعے قائم کیے گئے اس تاثر میں بالی وڈ کا کردار بھی بہت اہم ہے ۔ اس نے فلموں میں جدید تکثیریت پسند بھارتی سماج کی جھلک نمایاں کی ہے ‘ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ دیگر علاقے ایک طرف‘ ممبئی اور دہلی کی حقیقت بھی فلموں میں دکھائے جانے والے محبت بھرے بھارت سے بہت مختلف ہے ۔ بالی وڈ کی سپرہٹ فلم ''سلم ڈاگ ملینئر ز‘‘ میں ممبئی کی کچی آبادیوں کا نقشہ پیش کیا گیا ۔ دنیا بھارت کے اس بدنما چہرے کو بمشکل ہی جانتی تھی ۔ یہ کچی آبادی شہر کا کوئی مضافات نہیں‘ بلکہ بھارتی سماج کی مکروہ تصویر ہے۔ اس میں اب مودی کا ہندوتوا اور عقیدے کے امتیاز کا جنون لہو کا رنگ بھر رہا ہے ۔ انڈیا‘ دنیا میں خواتین کیلئے سب سے خطرناک جگہ ہے ۔ تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کی 2018 ء کی ایک رپورٹ‘ انڈیا کو خواتین پر جنسی تشدد ‘ انسانی سمگلنگ‘ گھریلو تشدد‘ جبری شادی اور جنسی غلامی اور جبری مشقت کے لحاظ سے بدترین قوم قرار دیتی ہے ۔ اس رپورٹ میںدہلی کو دنیا میں ''آبروریزی کا دارالحکومت‘‘ کہا گیا ہے ۔ 
ان رپورٹس پر بھارتی حکومت کا مخصوص رد ِعمل ان کی تردید اور مذمت کرنا ہوتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر تیزو تند شوز کے ذریعے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سوشل میڈیا میں بھارت کی بالا دستی اور روایتی میڈیا کی چکاچوند کی وجہ سے بھارتی عوام اس یک طرفہ ردعمل کودرست مان لیتے ہیں‘ جس دوران مودی سرکار کشمیر کو محاصرے میں لیے ہوئے ہے ‘ اور وہاں سے کوئی معلومات باہر نہیں آرہیں‘ خدشہ ہے کہ ایک تباہ کن اور خونی بغاوت کا لاوہ پھوٹنے کو ہے ۔ایک جرمن چینل کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قابض سکیورٹی فورسز خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنارہی ہیں۔ گھریلوخواتین اور سکول کی طالبات کی اجتماعی آبروریزی کے واقعات پیش آئے ہیں۔جنسی تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کودبانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بھارتی سیاست دان اپنے عوام کو کشمیری لڑکیوں کے متعلق ‘ خوبصورت اثاثہ قرار دے کر اُنہیں حاصل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایک کشمیری محقق خاتون کا کہنا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ میں ایک ہدف ہوں‘ ایک زمین کا ٹکڑا ہوں ‘ جسے بھارتی خرید لیں گے‘ میں ایک مال کی طرح ہوں۔
یہ شرم ناک کردار صرف مودی یا اُن کا نہیں ‘جو انسانی تذلیل کے کسی جوا ز کو تسلیم کرتے ہیں‘ بلکہ اسلامی دنیااور مغربی دنیا بھی اس میں برابر کی شریک ہے ۔وہ دیکھ اور سن رہے ہیں کہ وہاں عورتوں ‘ مردوں اور بچوں پر کس جہنم کے دروازے کھولے جارہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved