تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     16-09-2019

امید و یاس کا طویل سفر

صدر ٹرمپ نے حسب سابق ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کی اور اس پیشکش پر کچھ لوگ بہت زیادہ بے قراری اور فرحت محسوس کر رہے ہیں، جس کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ کشمیر گزشتہ ستر سالوں سے طاقت کی مختلف راہداریوں میں کسی نہ کسی شکل میں زیر بحث رہا ہے۔ واشنگٹن میں شاید ہی کوئی ایسا قابل ذکر صدر گزرا ہو، جس نے اس مسئلے پر کچھ کہا سنا نہ ہو۔ اس باب میں طویل تاریخی تجربات ہیں، جن سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ جن امریکی صدور نے مسئلہ کشمیر میں گہری دلچسپی لی ان میں جان ایف کینیڈی بھی شامل ہیں۔ اس کی روداد بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔
بروس ریڈل بنیادی طور پر ایک جاسوس ہے، دانشور نہیں، مگر اس کی تصنیف ''جان ایف کینیڈی کے بھولے بسرے بحران‘‘ ایک دلچسپ اور معلومات افزا کتاب ہے۔ یہ کتاب سرد جنگ کے دور کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو پڑھنی چاہیے۔ اس کتاب کو لے کر میری توجہ کا نقطہ ماسکہ وہ حصہ ہے، جس میں کشمیر‘ انڈیا اور پاکستان کے بارے میں لکھا گیا ہے۔
سی آئی اے کے اس سابق اہل کار نے اس باب میں کافی اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ اس نے اس عام خیال کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان سن انیس سو باسٹھ میں بھارت پر حملہ کرنے کی بہترین پوزیشن میں تھا اور اگر پاکستان ایسا کر لیتا تو بھارتی فوج چین اور پاکستان کے اس دو طرفہ حملے کی وجہ سے تقسیم ہو کر کمزور ہو جاتی۔ پاکستان نے اس حملے کی تیاری اور فیصلہ کر لیا تھا لیکن امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور برطانوی وزیر اعظم ہیرولڈ میکملن نے اس حملے سے روکنے کے لیے دبائو ڈالا تھا۔ انہوں نے پاکستان کو بتایا کہ اگر آپ نے حملہ کیا تو ہم آپ کو چین کی طرح جارح قرار دیں گے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان جنگ ایک سرحدی تنازعہ ہے، جس کو سرد جنگ اور اشتراکیت کے زاویے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ لیکن امریکہ اسے ایک کمیونسٹ ملک کی طرف سے ایک جمہوری ملک پر حملے کے حوالے سے دیکھ رہا تھا۔ پاکستان اگر حملہ کر لیتا تو امریکہ اور برطانیہ کے غصے کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہو جاتا۔ اس وقت کے بھارت میں مقیم امریکی سفیر کے مطابق ایوب خان امریکی مشورے کے سخت خلاف تھے۔ مگر جب انہیں بتایا گیا کہ امریکی صدر تحریری طور پر اس بات کی گزارش کریں گے تو ایوب خان ان کی بات سننے پر راضی ہو گئے مگر انہوں نے اس کی یہ پیشگی شرط رکھ لی کہ امریکہ یہ وعدہ کرے کہ وہ جنگ کے بعد بھارت کے خلاف مسئلہ کشمیر پر ایک سخت پالیسی اختیار کرے گا۔ ایوب خان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ امریکہ اور پاکستان بھارت کو مشترکہ طور پر مل کر مجبور کریں گے کہ وہ کشمیر پاکستان کے حوالے کر دے۔
ایوب خان نے جان ایف کینیڈی سے فوری طور پر کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ امریکہ نے پاکستان کو بتائے بغیر بھارت کو چین کے خلاف ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ امریکہ نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے تحت امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ چینی حملے کے باوجود پاکستان کی رضا مندی کے بغیر امریکہ بھارت کو جنگی ساز و سامان نہیں فراہم کرے گا۔ 
بہرحال اس گفت و شنید کے دوران امریکہ اور برطانیہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جنگ کے بعد مکالمے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں گے۔ جنگ کے بعد جب ایوب خان نے یہ بات اٹھائی تو بھارت میں امریکی سفیر نے واشنگٹن کو جواب دیا کہ چین سے جنگ ہارنے کے بعد نہرو غیر مقبول ہو چکا ہے، اور اس کی اب اتنی ساکھ نہیں رہی کہ وہ کشمیر جیسے اہم مسئلے پر کوئی فیصلہ کر سکے۔ اس پر ثالثی کا باب وقتی طور پر بند ہو گیا ہے۔ مگر کچھ ہی عرصے میں باہمی گفت و شنید کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا کوئی حل تلاش کرنے کی نئی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس کی تفصیلی رپورٹ چوبیس مئی انیس سوچونسٹھ کو نیو یارک ٹائمز میں چھپی تھی۔ اس خبر کے مطابق ''شیخ محمد عبداللہ‘ جو کسی الزام میں بھارتی جیلوں میں قید ہیں‘ کو بر صغیر کی دو دشمن قوموں کے درمیان ایک ثالث کا کردار سونپ دیا گیا ہے۔ وہ کل راولپنڈی جا رہے ہیں۔ وہاں وہ ایوب خان سے مل کر کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، جو مغرب کی بڑی طاقتیں نہ کر سکیں، یعنی مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ سمجھوتہ کرانا اور مسئلہ کشمیر کا کوئی متفقہ حل تلاش کرنا۔ صدر ایوب نے شیخ عبداللہ کو دعوت دی ہے کہ وہ اس سے ملنے کے لیے بے چین ہیں... اگر شیخ عبداللہ پاکستان اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات اور دوستی میں مدد دے سکتا ہے، تو یہ دونوں ملکوں کی عظیم خدمت ہو گی۔
اس سے دونوں اطراف میں امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے۔ سترہ ماہ قبل دونوں ملکوں کے وزرا نے امریکہ اور برطانیہ کے دبائو میں آ کر مذاکرات شروع کیے تھے۔ یہ مذاکرات پانچ ماہ جاری رہے اور ان کا نتیجہ مزید دشمنی کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ عبداللہ‘ نہرو کے ساتھ دو ہفتے کی بات چیت کے بعد ایوب خان کو دینے کے لیے اپنے ساتھ کیا لے جا رہا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایوب خان کا رد عمل کیا ہو گا۔ نہرو اور شیخ عبداللہ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل پر مختلف فارمولوں پر بات چیت کرتے رہے ہیں ، مگر یہ بات سامنے نہیں آئی کے وہ فارمولے کیا تھے۔ غیر سرکاری رپورٹس بتاتی ہیں کہ انہوں نے تین ممکنہ حل پر بات کی ہے... شیخ عبداللہ انہی فارمولوں پر بات کرنے پاکستان جا رہے ہیں، شیخ عبداللہ کو پنڈت نہرو کی آشیرباد تو حاصل ہے، مگر اس کے پاس بھارت کی طرف سے کوئی پکا وعدہ نہیں ہے کہ بھارت کوئی فارمولا لازمی طور پر قبول کرے گا، بے شک ایوب خان کوئی حل تسلیم کر بھی لیں تو ضروری نہیں ہے بھارت بھی مان جائے۔ یہاں تک کہ نہرو کی آشیرباد بھی ذاتی نوعیت کی ہی ہے۔ اس کی کابینہ کے بیشتر وزرا اور کانگرس پارٹی کا خیال ہے کہ کشمیر پر سمجھوتے کی کوئی وجہ نہیں ہے... نہرو گزشتہ ہفتے خود بمبئی میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ اگرچہ بھارت شیخ عبداللہ کی کوششوں میں اس کی مدد کیلئے تیار ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے ہمیں کشمیر کے بارے میں اپنے اصولوں اور بنیادی رویے پر قائم رہنا چاہیے۔ نہرو کی آواز ایک تھکے ہوئے بوڑھے کی آواز ہے۔ اس کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ وہ چوہتر سال کا ہے، اور جنوری میں اسے فالج ہوا ہے، جس نے اس کی طاقت و توانائی کو متاثر کیا ہے۔ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ اگر وہ پاکستان سے معاملہ نہ کر سکا تو اس کے جانشین اگلی نسل تک شاید ایسا نہ کر سکیں‘‘۔
اس کے فوراً بعد نہرو کی موت سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں جو امید پیدا ہوئی تھی‘ وہ ختم ہو گئی اور اس کے جانشین مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے جو کچھ کر رہی ہے مودی کا 5 اگست والا اقدام اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔ یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ نہرو ہو‘ امریکہ کا صدر ہو یا برطانیہ کا وزیر اعظم ‘ ان میں سے کبھی کسی نے مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے سلسلے میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ سبھی ٹائم پاس کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سات طویل دہائیاں گزر جانے کے باوجود حل نہیں ہو سکا ہے۔ یہ پاکستان ہے جو ماضی میں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کی کوششوں میں مصروف رہا اور آج بھی جس کی کوشش ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو حق خود ارادیت مل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا موقف ہر اہم فورم پر اٹھا رہا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے تو خود کو کشمیریوں کا سفیر مقر کر لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گے اور کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دلانے تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved