تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     16-09-2019

حساب

ایک فرضی حکایت اس طرح ہے کہ ایک بادشاہ کافی عرصہ سے بیمار تھا۔ جب بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اس نے ایک عجیب و غریب اعلان کروایا کہ میرے مرنے کے بعد میری تدفین سے پہلے جو شخص ایک رات میری قبر میں گزارے گا‘ اسے آدھی سلطنت انعام میں دی جائے گی۔ کئی بار منادی کروانے کے باوجودکوئی نہ آیا۔ اڑتی اڑتی یہ خبر ملک کے دور دراز علاقے میں ایک مفلوک الحال شخص تک جا پہنچی جس کی کل کائنات ایک جھونپڑی اور ایک گدھا تھا۔ دن بھر وہ گدھے پر وزن لاد کر محنت مزدوری کرتا اور شام دھلنے کے بعد جھونپڑی میں پڑا رہتا۔ بادشاہ کا اعلان سن کر اس نے سوچا کہ ساری زندگی فاقہ کشی اور محنت مزدوری میں گزر گئی۔ ایک رات کی تو بات ہے، اس کے بدلے آدھی سلطنت مل گئی تو باقی زندگی عیش و آرام سے گزر سکتی ہے۔ اسی سوچ کے تحت وہ بادشاہ کے دربار جا پہنچا۔ دربانوں نے محل میں اطلاع دی کہ ایک شخص آیا ہے اور وہ بادشاہ سلامت کی قبر میں ایک رات گزارنے پر راضی ہے۔
بادشاہ نے اطلاع پاتے ہی اسے اندر بلا لیا اور اپنے وزیروں سے کہا کہ اسے شاہی مہمان بنا کر رکھا جائے اور میرا انتقال ہوتے ہی اسے میرے لیے کھودی گئی قبر میں ایک رات کے لیے لٹا دیا جائے اور صبح ہوتے ہی اسے قبر سے نکالنے کے بعد نہلا دھلا کر قیمتی پوشاک پہنائی جائے اور آدھی سلطنت اس کے حوالے کر دی جائے۔ بادشاہ کی روح قبض ہوتے ہی اس کی وصیت کے عین مطابق اس شخص کو قبر میں لٹا دیا گیا۔ رات کے آخری پہر میں فرشتے حساب لینے آ گئے‘ جو دراصل فرشتے نہیں بلکہ بادشاہ کے ہی بندے تھے۔ فرشتوں کو دیکھتے ہی وہ شخص اٹھ کے بیٹھ گیا اور بولا ''یہ قبر میری نہیں، میں تو یہاں صرف ایک رات کے لیے آیا ہوں‘ اس قبر کا اصل مکین صبح ہوتے ہی آ جائے گا‘‘ فرشتوں نے جواباً کہا: اس وقت تو تم ہی موجود ہو حساب تمہیں ہی دینا پڑے گا، وہ جب آئے گا‘ اس کا حساب تب کرلیں گے۔
خیر! فرشتوں نے حساب شروع کیا اور کہا کہ تم نے فلاں وقت اپنے گدھے کو کھانا نہیں دیا تھا‘ لہٰذا تمہیں اس ظلم پر دو سو کوڑے پڑیں گے۔ کوڑے کھا کر ابھی سیدھا ہی ہوا تھا کہ فرشتوں نے ایک اور سوال کر ڈالا کہ تم نے فلاں وقت گدھے پر اس کی ہمت سے کہیں زیادہ وزن لاد دیا تھا۔ زیادہ وزن کی وجہ سے گدھا ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہا تھا لیکن تم نے اس پر چابک برسائے جس پر گدھا تڑپ کر رہ گیا تھا۔ تمہیں اس پر ترس نہیں آیا اور تم نے اس سے اپنا پورا کام لیا۔ اس بے رحمی پر تمھیں تین سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ مزیر تین سو کوڑے کھانے کے بعد اٹھنے لگا تو فرشتوں نے کہا کہ لیٹے رہو... ابھی تمھاری سزا باقی ہے۔ پوچھنے پر اس شخص کو بتایا گیا کہ فلاں وقت طوفانی بارش تھی اور ساری رات گدھا بھیگتا اور ٹھٹھرتا رہا‘ لیکن تم مزے سے بستر میں سوتے رہے۔ تمھاری سفاکی پر دو سو کوڑے لگیں گے۔ مزید دو سو کوڑے کھانے کے بعد وہ ادھ موا ہو کر ایک طرف لڑھک گیا اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کب صبح ہو اور وہ قبر سے نکلے۔ فرشتوں نے جانے سے پہلے سو کوڑے اور لگا ڈالے کہ تم نے قبر میں آنے سے پہلے گدھے کو اس کا چارا کیوں نہیں دیا‘ وہ سارے رات بھوکا رہے گا۔
صبح ہوتے ہی بادشاہ کی وصیت کے مطابق اس شخص کو قبر سے نکالا گیا تو کوڑے کھا کھا کر اس ادھ مرے شخص میں بجلی سی کوند گئی۔ باہر نکلتے ہی سرپٹ دوڑ پڑا۔ وزرا اور درباری اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شاہی دربانوں کو اس کے تعاقب میں دوڑایا گیا جو اسے جلد ہی پکڑ لائے تو وزیروں نے اس شخص سے کہا کہ تم نے اپنی شرط پوری کرکے آدھی سلطنت کے حقدار بن چکے ہو۔ اب تمھارے خوشحالی کے دن آنے لگے ہیں تو تم بھاگ کیوں رہے ہو۔ وہ شخص ہاتھ جوڑ کرروتے ہوئے بولا: مجھے کچھ نہیں چاہیے‘ بس مجھے جانے دو‘ میں تو ایک گدھے کا حساب نہیں دے پایا آدھی سلطنت کا حساب کیسے دوں گا؟
اس سبق آموز حکایت سے عبرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اسے ملکی حالات اور طرز حکمرانی سے ہرگز منسوب نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ حکمران جانیں‘ ان کا طرز حکمرانی جانے‘ ان کی ترجیحات کی توجیہات بس وہی جانتے ہیں۔ حکومت پنجاب کی شاندار کارکردگی اور بے مثال خدمت کے بعد عوام کی سہولتوں‘ آسانیوں اور خوشحالی میں مزید اضافہ کے لیے ایک اور فخریہ پیشکش سامنے آچکی ہے۔ بلدیاتی ادارے اور حکومتی ارادے عوام کی مشکلات میں پہلے ہی اضافہ کرچکے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ سرکار کا جبر اور عوام کا صبر‘ دونوں ہی آمنے سامنے آچکے ہیں۔جبر جتنا بھی بڑھ جائے جیت بالآخر صبر کی ہی ہوتی ہے۔
محترم جناب وزیراعلیٰ پنجاب ڈینگی مچھر کے شکار عوام کے بارے میں انتہائی فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اپنے کالموں میںکئی بار توجہ دلوا چکا ہوں کہ انسداد ڈینگی پر پیشگی اقدامات صفر ہیں۔ اگر ڈینگی کا مچھر بپھر گیا تو اس کا سامنا اور مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا‘ لیکن متعلقہ حکام سب اچھا کا راگ الاپتے رہے اور ڈینگی کا لاروا پلتا رہا۔ انسداد ڈینگی پروگرام بھی شہباز شریف سے عناد کی نذر کرکے سابقہ دور کی تمام پالیسیاں اور انسداد ڈینگی پروگرام نظر انداز کردیے گئے۔ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ شہباز شریف نے کابینہ کمیٹی برائے انسداد ڈینگی قائم کی تھی‘ جس میں صوبائی وزرا، صوبائی سیکرٹری پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے افسران باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے اورڈینگی لاروا کے تدارک کے لیے متعلقہ محکموں کی کارکردگی کو سختی سے مانیٹر کرتے تھے۔
ڈینگی لاروا کے تدارک کے لیے قبرستانوں سے لے کر سڑکوں اور دکانوں تک‘ سرکاری محکموں سے لے کر پرائیوٹ اداروں تک روزانہ کی بنیاد پر سبھی کا معائنہ کیا جاتا تھا۔ اگرکسی تھانے میں کہیں لاروا برآمد ہوجاتا تو اگلے ہی لمحے ایس ایچ او معطل یا لائن حاضر کر دیا جاتا۔ اسی طرح جس دکان یا دفتر سے لاروا مل جاتا اس کے خلاف مقدمہ یا چالان یقینی تھا۔ سوئمنگ پولز، نمائشی فواروں اور ایئرکنڈیشنر سے نکلنے والے پانی سے لے کر قبرستانوں میں رکھے گئے پرندوں کے پانی کے برتنوں تک سبھی خشک نظر آتے تھے اور اگر ان میں کہیں پانی نظر آ جاتا تو ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔ اس کام میںضلعی انتظامیہ پیش پیش نظر آتی تھی جبکہ انصاف سرکارکی ضلعی انتظامیہ ''ضلعی انتقامیہ‘‘ کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ ڈینگی کا ڈنگ انتہائی تیز اور مچھر بپھر چکا ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد اور لاہور سمیت کئی شہروں کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہوچکی ہے اور انصاف سرکار ڈینگی ویک منانے اور ڈینگی کے خلاف مہم شروع کرنے کی منصوبہ بندی کرتی نظرآتی ہے۔
وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار کی انتظامی ٹیم میں شامل افسران میں اکثر اعلیٰ عہدوں پر تعینات شہباز شریف کے قریبی اور فرنٹ لائن بیوروکریٹس میں شمار ہوتے تھے۔ تعجب ہے ان میں سے کسی چیمپئن نے وزیراعلیٰ صاحب کو نہیں بتایا کہ انسداد ڈینگی کے لیے ہم باقاعدہ پیش بندی اور منصوبہ بندی کیا کرتے تھے۔ اگر اس میں ذرا بھی غفلت برتی گئی تو ڈینگی مچھر 2011 والی تباہی مچا سکتا ہے۔ افسران وہی، وسائل وہی، اہداف وہی، مسائل وہی تو پھر نتائج یکسر مختلف کیوں؟ سابقہ حکومت جو نتائج انہی افسران سے برآمد کرتی تھی وہ نتائج انصاف سرکار کیوں نہیں برآمد کرواسکی؟ وزیراعلیٰ صاحب تو ذمہ دار ہیں ہی‘ وزارتِ صحت پورا سال کہاں اور کن کاموں میں مگن رہی؟ اور ہاں وہ تیاری کہاں گئی جو انصاف سرکار برسر اقتدار آنے سے پہلے امور حکومت چلانے کے لیے کرتی رہی؟ وہ مہارت کہاں رہ گئی جس کا ڈنکا بجایا جاتا تھا؟ وہ قابلیت کیا ہوئی جس کا چرچہ تھا؟ وہ گورننس کس کنویں میں کود مری‘ جس کی نوید سنائی گئی تھی؟ وہ میرٹ کون کھا گیا جو انصاف سرکار نے نافذ کرنا تھا؟ ویسے بھی ہسپتالوں میں بجلی جیسی بنیادی سہولت نہ ہو تو اس کے تصور سے ہی انسان کانپ جاتا ہے۔ یہاں تو بجلی سمیت اہم سہولیات کب کی روٹھ چکی ہیں۔ یہاں یہ کوئی کانپتا ہے، نہ ہی ہانپتا ہے۔ یہ تو عوام کو حساب نہیں دے سکتے۔ اپنے اس رب کو حساب کیسے دیں گے؟ ویسے بھی اس شخص کا ہاتھ جوڑ کررونا ٹھیک تھا کہ میں تو ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکتا، سلطنت کا حساب کیسے دے پائوں گا؟ ہمارے حکمران تو سلطنت سمیت نہ جانے کون کون سے بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ خدا ان کے حال پر رحم کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved