وفاق غیر آئینی طریقے سے کراچی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وفاق غیر آئینی طریقے سے کراچی پر قبضہ کرنا چاہتا ہے‘‘ لیکن وہ ایسا کر کے سخت پچھتائے گا‘ کیونکہ یہاں ہم نے کچرے کی ہی رونق اتنی لگا رکھی ہے‘ جو قیامت تک صاف نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ ہمیں اچھی طرح سے معلوم تھا کہ وفاق کی نظریں کراچی پر ہیں‘ جس کا ہم نے پیشگی انتظام کر لیا تھا ؛چنانچہ وفاق کا یہ عبرتناک انجام دیکھنے کیلئے ہم پوری طرح تیار ہیں اور ہمیں اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ فارورڈ بلاک کی روک تھام کیلئے ہمیں کافی وقت مل جائے گا اور اس طرح ہم وفاق کی یہ چال بھی ناکام بنا دیں گے‘ نیز وفاق ؛چونکہ سارے کا سارا ادھر لگا ہوا ہوگا‘ اسلام آباد بھی اس دوران کچرے کا ڈھیر بن جائے گا اور اسے لینے کے دینے پڑ جائیں گے اور ہم یہاں بیٹھ کر اس کا تماشا دیکھیں گے ۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آزادی مارچ روکنے کی کوشش کی تو پورا ملک بند کر ینگے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''آزادی مارچ روکنے کی کوشش کی ‘تو پورا ملک بند کر دیں گے‘‘ اس لیے ہم نے سوچا ہے کہ آزادی مارچ اتوار کے روز شروع کیا جائے‘ کیونکہ چھٹی کی وجہ پورا ملک پہلے ہی بند ہوتا ہے۔ ریڑھی اور پھیری والوں کو ہم خود بند کر لیں گے اور سیدھی سی بات ہے کہ اگر ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں ساتھ نہیں دیتیں تو ریڑھی پھیری والے جو عام طور پر پھل اور دیگر اشیائے خورو نوش فروخت کر رہے ہوتے ہیں‘ انہیں ہم کھا پی کر ایسے ہی صفایا کریں گے اور اس طرح جہاں جہاں پہنچیں گے‘ سارے شہر بند ہوتے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بند کرنے کیلئے اس پر لاتیں بھی مارتے جائیں گے‘ جو ویسے بھی تازہ دم ہو چکی ہو گی‘ یعنی ایک پنتھ دو کاج اور لوگوں کو محاورے پر صحیح طور پر عمل ہوتے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا‘ جو اکثر و بیشتر انہیں بہت کم ہی ملتا ہے‘ یعنی لگے ہاتھوں لوگوں کی یہ عیاشی بھی ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو ضد چھوڑ کر قومی قیادت کو اعتماد میں لینا ہوگا: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت کو ضد چھوڑ کر قومی قیادت کو اعتماد میں لینا ہوگا‘‘ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو خاکسار کو اعتماد میں لے کر ہی ساری کسر پوری کر سکتی ہے اور حکومت جس وقت بھی چاہے‘ میں اس کے اشارے پر اسلام آباد آ کر اس کے اعتماد میں آنے کیلئے تیار ہوںیا اگر مصروفیت وغیرہ کی وجہ سے اس کیلئے یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی وزیر یا ذمہ دار شخصیت کو بھیج کر بھی مجھے اعتماد میں لیا جا سکتا ہے؛حتیٰ کہ فون پر بھی یہ کارِ خیر سر انجام دیا جا سکتا ہے اور نیکی کے کام میں ہرگز دیر نہیں کرنی چاہیے‘ تاہم اگر ایک دو روز کی دیر بھی ہو جائے‘ تو اسے دیر آید درست آید ہی کہا جائے گا‘ کیونکہ میں نے اپنی جماعت کو قائل کر کے اس کی منظوری لے رکھی ہے اور اب اس میں کوئی بھی امر مونع نہیں ہے‘ اسی لیے حکومت کو اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پیشتر اس کے کہ جماعت اپنی منظوری واپس لے لے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں مشوانی قبائل جرگہ سے خطاب کر رہے تھے۔
زرناب
یہ احمد افتخار کا مجموعہ کلام ہے‘ جسے نظمیہ پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ آپ یہاں لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ کتاب کا انتساب امی اور ابو کے نام ہے۔ اندرون سرورق اظہر محمود کی تحریر ہے۔ اہتمام اشاعت زعیم رشید کا مرہون منت ہے۔ مقدمہ دلاور علی آذر کا تحریر کردہ ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:؎
باندھنا ہے خیالِ خام مجھے
سوچتا ہوں کدھر سے باندھا جائے
میری آنکھوں میں ترا خواب نیا ہے لیکن
خواب سے کوئی تعلق ہے پُرانا میرا
سانس جیسا پہاڑ بھی آخر
میرے رستے سے ہٹنے والا ہے
روز ہوتی ہے شب خرابے میں
جانے سورج کہاں اُترتا ہے
آپ دل کی خبر تو رکھتے ہیں
اور کیا کچھ ہے مضمحل مجھ میں
اور اب آخر میں رستم نامیؔ کی شاعری:
عجب کردار سازی ہے ہماری
کہ یہ جو کار سازی ہے ہماری
اجڑتا جا رہا ہے گلشن جاں
گل و گلزار سازی ہے ہماری
ہمیں نقصان دیتی ہے یہی تو
جو کاروبار سازی ہے ہماری
سمجھتا ہی نہیں ہے بات کوئی
یہی اظہار سازی ہے ہماری
میسر تو نہیں ہیں ہم کو لیکن
لب و رُخسار سازی ہے ہماری
خیالوں اور خوابوں ہی میں نامیؔ
در و دیوار سازی ہے ہماری
زندگی کا فائدہ ہے ہی نہیں
ہم کو لیکن یہ پتا ہے ہی نہیں
اس لیے اُس کے ستم سہتے ہیں ہم
اور کوئی راستا ہے ہی نہیں
اس لیے آتا نہیں ہے یاد وہ
وہ مرے دل سے گیا ہے ہی نہیں
آج کو مقطع
کچھ فرق تو پڑے گا اس سے ظفرؔ
کہ اب میں باہر کی یہ ہوائیں کمروں میں لا رہا ہوں