تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-09-2019

ہمیشہ یادرکھیں گے!

'' فرشتوں سے بہتر ہے‘ انسان ہونا‘‘ یہ جملہ متعدد بار سننے کا اتفاق ہوا‘ لیکن سمجھ نہیں آتی تھی کہ کہاں ہم جیسے انسان اور کہاں اﷲ کے نیک صفت فرشتے‘ پھرذہن میں آتا کہ ہم انسانوں کو تو رب العالمین نے اشرف المخلوقات کہہ کر پکارا ہے۔عرضیکہ زندگی میں کچھ ایسے انسانوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے‘ جنہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ شاید ایسے ہی انسانوں کو فرشتوں سے بہتر کہا گیا ہے۔
25 جولائی کو تیز اور موسلا دھار بارش کی وجہ سے مانسہرہ سے ناران جانے والی سڑک پرہونے والی خطرناک لینڈ سلائیڈنگ سے سڑک کا ایک حصہ بہہ جانے کی وجہ سے دو ہزار کے قریب لوگ بابو سر ٹاپ میں پھنس کر رہ گئے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ سب لوگ بابوسر سے بٹا کنڈی کی جانب محو سفر تھے کہ سامنے سے آنے والی ٹریفک نے انہیں بتایا کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک بلاک ہو چکی۔ تین چار گھنٹے انتظار کے بعد کچھ لوگ بھوک مٹانے اور وقت گزارنے کیلئے وہاں کے ایک ریسٹورنٹ چلے گئے ‘تا کہ جب تک سڑک کھلنے کی اطلاع نہیں آتی ‘وہاں رک کر بچوں سمیت کچھ آرام کر لیا جائے ۔ لوگ ابھی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا کر چائے کا انتظار کر رہے تھے کہ بابوسر میں پھنسے ہوئے کئی دوسرے ٹوریسٹ بھی اپنی خاندانوں سمیت وہاں پہنچ گئے۔دریں اثناء ٹی وی اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ سے پتا چلا کہ سڑک کھولنے کیلئے ایف ڈبلیو او کے لوگ مسلسل کام تو کر رہے ہیں‘ لیکن شدید بارش کی وجہ سے راستہ کھولنے کیلئے کئی گھنٹے درکار ہوں گے او یہ اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ ایک گاڑی میں سوار فیملی کے چار افراد لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انٹر نیٹ اور سیٹیلائٹ کی کچھ سہولتوں کی وجہ سے معلوم ہوا کہ راستہ کل ہی کسی وقت کھل سکے گا ۔الغرض دو ہزار سے بھی زیا دہ سیاحوں کے سامنے اس رات ایک ہی موضوع اورسوچ تھی کہ خواتین اور بچے سرد ترین رات کیسے اور کہاں بسر کریں گے؟ کیونکہ کسی ایک کے پاس بھی بابوسر جیسے مقام پر رات کی سرد ترین سردی سے بچنے کیلئے کوئی ضروری سامان نہیں تھا اور کئی خاندان تو ایسے تھے‘ جن کے ساتھ ایک سے پانچ سال سے کم عمر کے بچے بھی تھے اور ان کی مائیں انہیں اپنے ساتھ لپٹائے خوف سے کانپ رہی تھیں۔ بابوسر میں سوائے ایک ریسٹورنٹ کے اور کوئی ہوٹل بھی نہیںتھا اوراس کے مالک نے وہاں پھنسے ہوئے سیا حوں کو بیٹھنے کیلئے چارپائیاں مہیا کردیں‘ بلکہ اس نے اپنے گھر اور ملازمین کی تمام چارپائیاں بھی وہاں پہنچا دیں ‘تاکہ زیا دہ سے زیا دہ لوگ آرام کر سکیں ۔ ریسٹورنٹ کا بر آمدہ جو دو اطراف سے بند تھا‘ اس کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگ رات9 بجے تک سردی سے کانپنا شروع ہو گئے‘ لہٰذا وہاں پھنسے ہوئے پانچ سو سے زیا دہ سیا حوں نے فیصلہ کیا کہ بچے اور خواتین شیڈ کے نیچے رہیں گے‘ جو دوا طراف سے بند تھا۔
ریسٹورنٹ کے مالک نے اپنے گھر اور ملازمین کے لحاف‘ گدے اور کمبل لا کر ایک سے پانچ سال تک کے بچوں ان کی مائوں اور بزرگ خواتین اور مردوں میں بانٹ دیئے۔ خواتین اور بچے سب شیڈز کے نیچے‘ جبکہ تمام مرد باہر میدان میں سخت سردی کا مقابلہ کرتے رہے۔ بابوسرمیں اس ریسٹورنٹ کے مالکان نے رات ساڑھے بارہ بجے تمام مسافروں کیلئے گرم گرم حلوہ تیار کر کے ان کے سامنے رکھا‘ تاکہ گرم حلوے سے وہ سردی کا مقابلہ کر سکیں اور پھر رات دو بجے سب کوگرم گرم چائے پلائی گئی اور بہت سے لوگوں نے ایک سے زیا دہ پیالیاں چائے کی پئیں ۔صبح نو بجے ایک بار پھر تمام سیا حوں کو گرم گرم حلوہ‘ انڈے اور پراٹھے دیئے گئے۔ دوپہر دو بجے کے قریب سڑک کھلنے کی اطلاع ملی تو بابوسر میں 18 گھنٹوں تک پھنسے رہنے والے تمام سیاحوں کی جان میں جان آئی اور پھر ایک ایک کر کے سب ناران کی جانب چل نکلے ‘لیکن جس قابل ِ حیرت عمل نے مجھے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا‘ وہ یہ ہے کہ بابوسر کے اس ریسٹورنٹ کے مالک نے وہاں رکے ہوئے سیا حوں سے اپنی مذکورہ بالاتمام خدمات کے بدلے ایک روپیہ بھی معاوضہ نہیں طلب کیا۔ بہت سے لوگوں نے اسے رقم دینا چاہی‘ لیکن اس کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ مجبوری کے باعث پھنسے ہوئے مہمانوں‘ جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں‘ ان سے ایک روپیہ بھی وصول نہیں کرے گا ۔ میںاس انسان کو آج بھی یاد کرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ کیاایسے انسان‘ واقعی فرشتوں سے بہتر نہیں؟
اسی طرح کوئی دو برس ہوئے‘ چھانگا مانگا کے قریب بھٹہ خشت پر12 سالہ بچے کو کام کرتے ہوئے دیکھ کر پولیس اور مجسٹریٹ بھٹہ مالک کو گرفتار کرنے کے بعد لڑکے کو ساتھ لے آئے کہ اسے سکول داخل کروایا جائے‘ تو اس لڑکے نے مجسٹریٹ کی قیا دت میں چھاپہ مار ٹیم کے ساتھ آئے ہوئے میڈیا سے کہا کہ مجھے قلم اور کتاب دینے سے پہلے ذرامیرے گھر چلیں‘جہاں میرا معذور باپ دس برس سے چار پائی پر پڑا ہوا ہے ۔ اس پر راقم نے '' روٹی اور کتاب‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا‘ جس پر ایک درد مند انسان نے اس بچے کی تعلیم ‘ اس کی یرقان سے بیمار ماں اور بپھری ہوئی گائے کی وجہ سے زندگی بھر کیلئے معذور ہو جانے والے باپ کیلئے ہر مہینے کچھ رقم دینے کی ذمے داری قبول کی تھی۔اس بچے کا معذور باپ تو چند ماہ بعد انتقال کر گیا تھا‘ لیکن کہاجاتا ہے کہ بدقسمتی اکیلے نہیں آتی ۔امسال اپریل میں اس لڑکے کی بہن کا خاوند‘ جو سرائے مغل میں ایک زمیندار کے کولڈ سٹوریج پر چوکیدار تھا‘ صبح کے وقت نا معلوم افراد نے اسے قتل کر کے دیا‘ جس کے قاتلوں کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ خاوند کے قتل کے بعد اس کی بیوہ بہن مع تین بیٹیوں کے‘ جن میں بڑی کی عمر سات سال ہے‘ اپنی بیوہ اور بیمار ماں کے پاس آ چکی ۔ یوںاس خاندان کی بے چارگی سے پورا ا علا قہ واقف ہے‘ لیکن کسی نے کبھی ان کی خبر لینا بھی منا سب نہیں سمجھا‘ جبکہ کہیں دور بیٹھے ہوئے ایک صاحب‘ جن کا نام لکھنے کی اجازت نہیں‘ اس بچے کی تعلیم اور اس کے خاندان کی مسلسل دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
فرشتوں سے بہتر انسانوں کا تذکرہ ہو رہا ہے توایک واقعہ اور سن لیجیے؛ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد ناظر خان ‘امارات میںایک مشہور ٹیلی کام کمپنی میں کام کرنے لگا‘ جہاں بیس برس سروس مکمل کرتے ہی ناظر خان کا دل پاکستان آنے کیلئے مچلنے لگا اور آخر کار ایک دن وہ دبئی میں واقع اپنے فلیٹ سے یہ تہیہ کر کے نکلا کہ جاتے ہی اپنا ستعفیٰ کمپنی کو بھیج دے گا۔خیر جیسے ہی وہ اپنے آفس پہنچا تو اس کی میز پر اس کے نام کا ایک بند لیٹر رکھا ہوا تھا اور جس بات نے اسے چونکا دیا ‘وہ یہ تھی کہ اس لفافے پر اس کے نام کے ساتھ اس کا عہدہ بھی لکھا ہواتھا۔ نا ظر خان نے جلدی سے بند لفافہ کھولا تو اس میں اس کی قابلیت اور ٹیلی کام کمپنی کیلئے بہترین خدمات کی انجام دہی پر ایگزیکٹو عہدے پر ترقی دیتے ہوئے انتہائی پرُ کشش مراعات سے نوازا گیا تھا‘ لیکن چونکہ ناظر خان فیصلہ کر چکا تھا کہ استعفیٰ کے بعد کمپنی سے ملنے والی رقم اور آبائی جائیداد بیچ کر وہ میانوالی اور لاہور کے نواح میں غریب مزدوروں‘ مزارعوں اور چھوٹے درجے کے ملازمین کیلئے بہترین تعلیمی ادارے قائم کرے گا اور اس وقت پپلاں اور لاہور کے نواحی علاقوں میں وہ اپنے مشن کے مطابق‘ کئی ادارے قائم کر چکا‘ لیکن اس پاداش میں کئی محکمے اور مذکورہ علاقے کے چوہدری ٹائپ لوگوں نے اس کا جینا محال کر رکھا ہے‘لیکن یہ فرشتہ نما انسان اپنے مشن پر ڈٹا ہوا ہے اور اس کے بنائے ہوئے اداروں میں نابینا بچے اور بچیاں تمام تر سہولتوں کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہی ہیں ۔ 
آغاز میں جو عرض کیا تھا کہ '' فرشتوں سے بہتر ہے‘ انسان ہونا ‘‘ وہ ناظر خان‘ بابو سر ٹاپ کے اس ریسٹورنٹ کے مالک اور بھٹہ مزدور نوجوان کی مدد کرنے والے صاحب کے لیے موزوں ترین جملہ ہے اور ایسے لوگوں کو ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved