عمران ہٹ جائیں‘ معیشت ٹھیک ہو جائے گی: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے سینئر رہنما چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عمران ہٹ جائیں‘ معیشت ٹھیک ہو جائے گی‘‘ بلکہ اگر ملک ہی چھوڑ دیں تو ملک کے باقی معاملات بھی ٹھیک ہو جائیں گے اور یہی اُن کی حب الوطنی بھی ہے‘ چلو ملک نہ چھوڑیں‘ سیاست ہی چھوڑ دیں‘ کیونکہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہی ہے ‘جسے بعد میں آ کر ہم مزید ٹھیک کر لیں گے‘ جو ہمارے لیے کوئی مشکل بھی نہیں ہوگا‘ کیونکہ جس نے معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہو‘ اسے بحال بھی وہی کر سکتا ہے اور ہم نے معیشت کا بھٹہ جتنی آسانی سے بٹھایا‘ اسی سہولت سے اسے ٹھیک بھی کر لیں گے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
طاقت کا سر چشمہ صرف عوام ہیں‘ جمہوریت کا
پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیں گے: زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''طاقت کا سر چشمہ صرف عوام ہیں‘ جمہوریت کے پرچم کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیں گے‘‘ کیونکہ یہ جمہوریت ہی کے کرشمے ہیں کہ باریاں مقرر ہوتی ہیں اور کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہوتا اور دنوں میں ہی وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور اگلی پچھلی سب کسریں نکل جاتی ہیں‘ جبکہ یہ ساری رونق عوام ہی کے دم سے ہے؛ چنانچہ طاقت کے اس سرچشمے سے اتنی طاقت حاصل کر لی جاتی ہے کہ کیا ملک کے اندر اور کیا ملک کے باہر وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور سیاست کے سارے مقاصد حاصل اور پورے ہوتے رہتے ہیں‘ جبکہ عوام کی ساری طاقت ہمیں منتقل ہو چکی ہوتی ہے‘ اس لیے ان کی شبانہ روز بڑھتی ہوئی ناتوانی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ آپ اگلے روز جمہوریت کے عالمی دن پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
وزیراعظم بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہے: سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہے‘‘ حالانکہ اب تک بھارت پر حملہ کردینا چاہیے تھا اور یہ سراسر بزدلی ہے ؛حالانکہ میں کئی بار اعلان کر چکا ہوں کہ ہم وزیراعظم کے ساتھ ہیں ‘لیکن افسوس کہ انہیں کسی کے ساتھ ہونے کا فائدہ بھی اٹھانا نہیں آتا اور نہ ہی کسی کے خلوص کی قدرکرنا آتی ہے‘ جبکہ میں نے اپنی بارہ بور بندوق کو تیل شیل دے کر بالکل تیار کر رکھا تھا ؛ حالانکہ اُس تیل سے تیل کی دھار بھی دیکھی جا سکتی تھی‘ جبکہ ہمارے تلوں میں تو پہلے ہی تیل نہیں‘ جبکہ جنگ شروع کرنے سے پہلے سوچنے سمجھنے کی ہرگز ضرورت نہیں اور اس طرح سارا وقت ضائع ہو جاتا ہے ؛حالانکہ زندہ قومیں اپنے وقت کی مناسب سے بڑھ کر کرتی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان دشمن کے خلاف حملہ کر کے اس تاخیر کی تلافی کر دیں گے۔ آپ اگلے روز کوئٹہ میں عوامی مارچ سے خطاب کر رہے تھے۔
سیر سوات
یہ محمد یوسف حضروی کی تصنیف ہے‘ جس کی تدوین و ترتیب ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے کی ہے اور جسے قلم فاؤنڈیشن نے چھاپا ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کا قلمی ہے۔ انتساب ملک حق نواز خان کے نام ہے۔ دیباچے ڈاکٹر سفیر اختر اور ارشد محمود ناشاد نے لکھے ہیں۔ اس کے بعد سیر سوات کا مختصر متن ہے‘ جس کے بعد سوات ہی کے موضوع پر نظم ہے‘ پھر مصنف کے قلم سے مقدمہ ہے اور اس کے بعد تعارف ِسوات کے بعد کتاب شروع ہوتی ہے اور وادی ٔسوات کی تاریخ اور اس کے جغرافیے پر روشنی ڈالی گئی ہے‘ جبکہ مختلف ابواب میں پوری وادی کی ایک طرح سے سیر کرا دی گئی اور اس خوبصورت علاقے کی تصویر کشی کی گئی ہے اور اس طرح سے کہ قاری وہاں جائے بغیر ہی اس کا مکمل نظارہ کر لیتا ہے۔ یہ مصنف کے اس علاقہ کے احوالِ سفر کی رنگا رنگ داستان ہے‘ جو دلچسپ ہونے کے ساتھ معلومات افزا بھی ہے۔ اندرون سرورق ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی تصویر اور مختصر تعارف درج کیا گیا ہے‘ جبکہ سرورق سوات کے ایک خوبصورت نظارے کی تصویر سے مزین ہے۔
اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس
اور اُس کے راستے کو کھلا کر رہے ہیں ہم
اک ایسے شہر میں ہیں جہاں کچھ نہیں بچا
لیکن اک ایسے شہر میں کیا کر رہے ہیں ہم
جتنا اڑا دیا گیا
اتنا غبار تھا نہیں(ذوالفقار عادل)
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
اک ہی شخص تھا جہان میں کیا(جون ایلیا)
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر ہم نے اُٹھا راہ گزر پر رکھا (جمال احسانی)
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں (ثنا اللہ ظہیر)
مجھے تخریب بھی نہیں آتی
توڑتا کچھ ہوں‘ ٹوٹتا کچھ ہے (مقصود وفا)
بے جان پڑا دیکھتا رہتا تھا میں اُس کو
پھر اُس نے مجھے ایک اشارے سے اُٹھایا(انجم سلیمی)
آج کا مقطع
سو بھی ظفرؔ ہوا ہوں مٹی کے ساتھ مٹی
باقی تھا ایک میں ہی اُس کی نشانیوں میں