انسانی طبیعت کا ایک بنیادی خاصہ یہ بھی ہے کہ جب یہ کسی راہ پر گامزن رہتا ہے تو پختگی کے مراحل سے گزرتے ہوئے ایک خاص رجحان اور مزاج کا حامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہم بیشتر معاملات میں ''تواتر‘‘ کا ثمر ہیں‘ جو کچھ ہم تواتر کے ساتھ سوچتے اور کرتے رہتے ہیں‘ ویسے ہی ہو جاتے ہیں۔ دن رات جو کچھ ذہن میں چل رہا ہو‘ وہی بالآخر ہمارے پورے وجود پر طاری اور حاوی ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں‘ جسے سمجھنے کے لیے انتہائی اعلیٰ درجے کا ذہن درکار ہو۔بس‘ ذرا سی کاوش سے یہ بات معمولی نوعیت کی ذہانت رکھنے والے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ مزاج کا کسی خاص طرف جھکاؤ ہم سے کس نوعیت کی کھلواڑ کرتا ہے؟ اس دنیا میں بھرپور کامیابی بالعموم اُن لوگوں کو گلے لگاتی ہے‘ جو عمومی سطح پر خاصے رجائیت پسند رہتے ہوئے مصروفِ عمل رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُمید کا دامن تھامے رہنے سے انسان کیلئے رُو بہ عمل رہنا بھی محض ممکن نہیں‘ بلکہ آسان ہو جاتا ہے۔
مثبت سوچ انسان کو آگے بڑھانے میں غیر معمولی‘ بلکہ کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہر کامیاب انسان نے دنیا کو بتایا ہے کہ کچھ کرنا ہے تو دنیا کو اپناؤ‘ گلے لگاؤ‘ فکر و نظر میں اثبات کا پہلو نمایاں رکھو۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انکار کی صورت میں ہوتا کیا ہے؟ جب ہم کسی کو مسترد کرتے ہیں تب اپنے وجود پر خاصی نمایاں حد تک ظلم ڈھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر خالص مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھیے اور سوچئے تو اندازہ ہوگا کہ یہ ایک انکار ہی تو تھا‘ جس نے ابلیس کو مردود ٹھہرایا اور مستقل لعنت کا حقدار بنادیا۔ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار نے لاکھوں برس کی عبادت کے ثمرات غارت کرکے ابلیس کو راندۂ درگاہ کردیا‘ کیونکہ یہ انکار اس کے تکبر کی بنیاد پر تھا۔
ہر انکار کسی نہ کسی درجے میں تکبر ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ تکبر ہی ہے ‘جو کسی واضح حقیقت کو تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور کسی بھی موزوں منطق یا دلیل کے بغیر اپنی بات آگے بڑھانے پر اُکساتا ہے۔ تکبر ہی سے جھوٹی انا پیدا ہوتی ہے ‘جو انسان کو دوسروں کے لیے ناقابلِ قبول بناتی ہے۔ جب انسان کسی جواز کے بغیر انانیت کا مظاہرہ کرتا ہے ‘یعنی اپنی غلط بات کو بھی درست ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے تب زندگی کی راہ میں دشواریاں پیدا ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔
انکار پسند ذہنیت پورے وجود کو انکار زدہ کردیتی ہے۔ ذہنی یا فکری ساخت جب انکار پر مائل ہو تو بیشتر معاملات کو منفی انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ فضاء انکار سے بھر جاتی ہے۔ ایسے میں عمل پسند ذہنیت پروان نہیں چڑھتی۔ عمل پسند ذہنیت معاملات کو سلجھانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ جب ذہن انکار پسندی کی راہ پر گامزن ہو تو معاملات میں الجھن کا تناسب بڑھتا چلا جاتا ہے۔
''اینمل فارم‘‘ اور ''1984‘‘ جیسے عالمگیر شہرت کے حامل ناولز کے مصنف جارج آرویل نے کہا ہے کہ حقیقی مسرّت کا وجود صرف قبولیت میں ممکن ہے۔ جارج آرویل نے اپنے اس ایک جملے میں معانی کا ایک جہاں سمودیا ہے۔ یہ دنیا کسی کے لیے بھی اگر کچھ ہے تو صرف اُس وقت جب اِسے کھلے دل سے‘ خندہ پیشانی سے قبول کیا جائے۔ عدمِ قبولیت کی صورت میں یہ دنیا کسی کام کی نہیں۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کیا‘ دنیا کو قبول نہ کرنے والا خود کسی کام کا نہیں رہتا۔
کسی بھی ماحول کے حوالے سے غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیابی اُنہی کے حصے میں آتی ہے ‘جو بیشتر معاملات میں قبولیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بعض معاملات میں اختلافِ رائے بھی ہوسکتا ہے۔ کسی بھی معاملے کا کوئی ایک پہلو آپ کے نزدیک محلِ نظر ہو تو اُس پر بات کی جاسکتی ہے‘ تاہم یہ بھی اس طور ہو کہ آپ پورے معاملے ہی کو قبول کرنے سے انکار نہ کریں۔ انکار کی صورت میں بات کرنے کی گنجائش برائے نام رہ جاتی ہے۔ جب اختلافِ رائے کے اظہار کے لیے کوئی نکتہ اٹھایا جاتا ہے تب فریقِ ثانی کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پورے معاملے کو نظر انداز یا مسترد نہیں کر رہے‘ بلکہ درستی و اصلاح کا پہلو تلاش کر رہے ہیں۔ آپ کی نیت آپ کے افکار و اعمال سے ظاہر ہوتی ہے۔ ذہنیت انکار کی ہو یا اقرار کی‘ فکری ساخت اور اندازِ عمل سے ظاہر ہو رہتی ہے۔ ہم چاہیں بھی تو اِس پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ جو کچھ ہم سوچتے اور کرتے ہیں‘ وہ اپنی پُشت پر موجود نیت کے ساتھ ظاہر ہونے پر مجبور ہے۔ نتائج کی نوعیت ہی بتاتی ہے کہ جو کچھ سوچا اور کیا گیا وہ کس نیت کے تحت تھا۔
ہمارے لیے فکر و عمل کا مرحلہ اُس وقت آسان ہوتا ہے ‘جب ہم انکاری ذہنیت ترک کرکے اقراری ذہنیت کو اپناتے‘ گلے لگاتے ہیں۔ کوئی معاملہ اچھا ہو یا بُرا‘ ہماری طرف سے قبولیت کا اظہار کیے جانے کی صورت ہی میں ہمارے لیے مطلوب نتائج پیدا کر پاتا ہے۔
بہت سے لوگ کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتے ہیں اور اُس کے ہاتھوں پریشانی کا سامنا بھی کر رہے ہوتے ہیں‘ مگر اُسے قبول نہیں کرتے۔ مرض کو قبول کرنے کی صورت ہی میں علاج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ مرض کو قبول کرنے سے اُس کے علاج کے تمام مراحل میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے‘ طبیعت معالج کی بیان کردہ احتیاطی تدابیر کو قبول کرنے پر مائل ہوتی ہے اور یوں علاج کے بیشتر مراحل قدرے آسان ہو جاتے ہیں۔ معالج اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ مریض کسی بھی صورتِ حال میں مرض کے وجود کو تسلیم کرے۔ اس منزل سے گزرنے پر ہی علاج کی راہ ہموار ہو پاتی ہے۔ اگر مریض یہ تسلیم ہی نہ کرے کہ وہ مریض ہے تو علاج کی طرف مائل بھی نہ ہوگا۔
اقراری ذہن مجموعی طور پر بہت کچھ قبول کرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ جو شخص اپنے ماحول کو قبول کرتے ہوئے اپنی مسائل کے حل اور ماحول کی اصلاح کو ترجیحات میں نمایاں حیثیت دیتا ہے‘ وہ کامیابی سے ہم کنار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ترقی‘ پیش رفت اور خوش حالی کا تعلق اصلاً اقرار پسند ذہنیت سے ہے۔ جس کی فکری ساخت میں قبولیت کا مادّہ نمایاں ہو وہ اچھائیوں کو گلے لگاتا اور بُرائیوں کے وجود کا اقرار کرتے ہوئے اُن سے نجات کے بارے میں سوچتا ہے۔ تعلیم و تدریس کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ انسان کو قبولیت کے لیے تیار کیا جائے۔ جن بچوں کو چھوٹی عمر سے بتایا جاتا ہے کہ کسی کو قبول کرنے ہی کی صورت میں اُس کی خامیوں سے آگاہ کرکے درستی کی صورت نکالی جاسکتی ہے ‘وہ بڑے ہوکر عملی زندگی معیاری انداز سے شروع کر پاتے ہیں۔
آج کا پاکستان انکار کو پسند کرنے اور اقرار سے گریز کرنے والی ذہنیت کے شکنجے میں کَسا ہوا ہے۔ جن باتوں سے کوئی خرابی پیدا ہوسکتی ہو اُسے مسترد کردینا تو سمجھ میں آتا ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے والی باتوں کو مسترد کرنا کس کھاتے میں ہے؟ قدم قدم پر انکار نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ جھوٹی انا یا بے بنیاد ضِد کے اسیر ذہن کام کی باتیں بھی یوں ٹھکراتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
وقت ہمیں بہت سے آپشن دیتا ہے۔ اِن میں بہترین ہے قبولیت۔ ہم جب قبولیت کی منزل میں ہوتے ہیں تب آگے بڑھتے ہیں۔ معیاری زندگی بسر کرنے کا بہترین طریق یہی ہے۔ پورے ماحول کو قبول کیجیے‘ آپ بھی خندہ پیشانی سے قبول کیے جائیں گے۔ ع
کیا خوب سَودا نقد ہے‘ اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے