سوموار کی شام سے لے کر شب گیارہ بجے تک الیکٹرانک میڈیا کے ایک حصے پر وہ ہاہاکار مچی کہ خدا کی پناہ ... ''غضب خدا کا اب تین تین، چار چار سالہ بچیوں کو بھی گاؤن یا عبایا پہننا پڑے گا‘‘ ... ''معصوم بچیوں پر یہ بوجھ، توبہ توبہ‘‘... ''کسی کو کیا لباس پہننا ہے، یہ ہر فرد کا بنیادی حق ہے، حکومت اس میں مداخلت کرنے، کوئی حکم جاری کرنے والی کون ہوتی ہے‘‘؟ ... ''یہ پابندی آئین اور قانون کی بھی صریح خلاف ورزی ہے‘‘ ... '' کیا لباس ہی جنسی ہراسانی کا سبب ہے‘‘؟ ... '' زیادتی تو لڑکوں کے ساتھ بھی ہوتی ہے، تو کیا انہیں بھی کسی مخصوص ڈریس کوڈ کا پابند کیا جائے گا؟‘‘ کچھ دانشور ایسے بھی تھے، جن کے خیال میں یہ حکم، خود حکم جاری کرنے والوں کی اپنی بیمار ذہنیت اور ذہنی بے راہ روی کا شاخسانہ تھا۔ ایک ٹاک شو میں تو عبایا، گاؤن یا چادر کو ٹوپی والا برقع بنا دیا گیا تھا، جسے عرف عام میں شٹل کاک برقع بھی کہا جاتا تھا (اور جو ہماری دادی، نانی اماں پہنا کرتی تھیں) سکرین پر ''ونِڈو‘‘ میں سر تا پا اس برقع میں لپٹی ہوئی خواتین کی تصویر دکھائی جا رہی تھی اور اینکر صاحبہ کا سوال تھا: کیا تین، تین چار، چار سال کی بچیاں بھی اب برقع پہنیں گی؟ جس پر غیرت ایمانی سے سر شار، ایک شریکِ گفتگو نے اصلاح فرماتے ہوئے کہا: برقع کا نہیں، عبایا، گاؤن یا چادر اوڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قدرے بوکھلاہٹ کے ساتھ اینکر صاحبہ کا کہنا تھا: جی میرا بھی یہی مطلب تھا۔
الیکٹرانک میڈیا پر اس ''ہنگامے‘‘ کا سبب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (برائے خواتین) پشاور کا وہ سرکلر تھا، جس میں طالبات کو سکول کے اوقات کی پابندی اور سکول آتے جاتے، عبایا، گاؤن یا چادر اوڑھنے کی تلقین کی گئی تھی۔ یہ حکم صرف سرکاری سکولوں کے لیے تھا، پرائیویٹ سکول اس سے مستثنیٰ تھے اور یہ تلقین سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری کلاسز کی طالبات کے لیے تھی، تین تین‘ چار چار سال کی معصوم بچیوں کے لیے نہیں۔ اس سے پہلے ہری پور کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی طرف سے بھی اسی مضمون کا سرکلر جاری کیا جا چکا تھا۔ کے پی کے حکومت کا یہ فیصلہ صوبے کے تمام سرکاری گرلز سکولوں کے لیے تھا، ہری پور اور پشاور سے جس کا (مرحلہ وار) آغاز ہو رہا تھا۔
ٹاک شو کا اہتمام کرنے والوں کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ اس ''ظالمانہ‘‘ حکم پر خود ''سٹیک ہولڈرز‘‘ کی رائے لینے کا اہتمام بھی کرتے۔ گلیوں اور بازاروں میں جا کر والدین سے بات کرتے۔ سکولوں میں جا کر طالبات اور ان کی اساتذہ کی رائے معلوم کرتے لیکن وہاں تو دانشور حضرات اور خواتین تھے جو اس ''سنگدلانہ‘‘ حکم پر سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر الگ قیامت برپا تھی۔ اُدھر وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ضیاء اللہ بنگش ایک کے بعد دوسرے ''کٹہرے‘‘ میں تھے۔ اپنی صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے حق میں، وضاحتوں اور صفائیوں کے ساتھ، وہ مضبوط دلائل اور ٹھوس استدلال بھی رکھتے تھے۔ وہ اسے اسلامی اقدار اور پشتون کلچر کے علاوہ والدین کی خواہشات کا تقاضا بھی قرار دے رہے تھے اور اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کہ یہ سرکلر، محض ایک طرح کا ہدایت نامہ ہے جس کی خلاف ورزی پر کوئی سزا، کوئی جرمانہ نہیں۔
رات گیارہ بجے کے لگ بھگ یہ ہنگامہ، کے پی کے حکومت کے سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ارشد خان کے اس بیان کے بعد ختم ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ حکومت کا فیصلہ نہیں تھا‘ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز نے یہ سرکلر اپنے طور پر جاری کئے تھے‘ جنہیں منگل کی صبح واپس لے لیا جائے گا۔ (بے چارے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کی کوئی نیکی کام آ گئی تھی ورنہ ان کی معطلی اور اس ''شر پسندانہ‘‘ حرکت کی انکوائری کا حکم بھی جاری ہو سکتا تھا)
ظاہر ہے، میڈیا (اور سوشل میڈیا) پر ''کرپٹ مافیا‘‘ اور '' ایک میڈیا سیل کے تنخواہ دار‘‘ اسے ایک اور یو ٹرن قرار دیں گے‘ لیکن پی ٹی آئی بلکہ خود خان صاحب کے لیے بھی یو ٹرن اب کوئی طعنہ نہیں رہا۔ گزشتہ روز بھی ایک غیر ملکی ٹی وی سے انٹرویو میں اپنے لیے ''پرائم منسٹر یو ٹرنز‘‘ کا خطاب استعمال کرتے ہوئے خان صاحب نے اس دلیل کو دہرایا کہ صرف بیوقوف (idiots) ہیں جو یو ٹرن نہیں لیتے۔
سوموار کے روز ایک چونکا دینے والی خبر، کوٹ لکھپت جیل میں قید میاں محمد نواز شریف سے ہونے والی ایک غیر معمولی ملاقات تھی۔ ان سے ملاقات کے لیے جمعرات کا دن مخصوص ہے۔ اڈیالہ جیل میں بھی میاں صاحب سے ملاقات کے لیے جمعرات ہی کا دن مخصوص تھا۔ تب ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں سزا یافتہ مریم نواز بھی وہیں تھیں۔ باپ بیٹی (دونوں) سے ملاقات کے لیے ایک ہی دن مقرر تھا۔ ملاقات بھی ایک ہی کمرے میں ہوتی۔ العزیزیہ کیس میں صرف میاں صاحب تھے۔ گزشتہ دسمبر میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی اور اس بار مہربانی یہ کی کہ انہیں اڈیالہ کی بجائے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا۔ یہاں بھی جمعرات ہی ملاقات کا دن ہے۔ اڈیالہ کی طرح یہاں بھی جیل کے باہر عشاق کا ہجوم ہوتا۔ جیل کے اندر ملاقات کرنے والوں میں فیملی ممبرز کے علاوہ مسلم لیگ کے قائدین بھی ہوتے، واپسی پر ان کی گفتگو میڈیا کی بریکنگ نیوز بن جاتی۔ جون میں ''جیل کے قواعد و ضوابط‘‘ پر سختی سے عمل درآمد کرانے کا فیصلہ ہوا۔ اب جمعرات کے روز صرف اہل خانہ ہی (اور وہ بھی صرف 5 کی تعداد میں) ملاقات کر سکتے تھے۔ عیدالفطر پر مریم نواز کو اس لیے ملاقات کی اجازت نہ ملی کہ اس کے لیے صرف جمعرات کا دن مخصوص تھا۔ سرکاری قواعد و ضوابط کی پابندی کا معاملہ بھی ''دلچسپ‘‘ ہے۔ حکومت اس پر تُل جائے تو ٹیلی فون پر، جیل سے باہر گفتگو کے مقررہ وقت میں ایک منٹ کا اضافہ بھی نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ سال گیارہ ستمبر کو میاں نواز شریف کو لندن میں بیگم صاحبہ کی تشویش ناک حالت کی اطلاع ملی تو وہ افسرِ مجاز سے صرف ایک منٹ گفتگو کرانے کی درخواست کرتے رہے اور جواب میں بے بسی کا اظہار کہ اس ہفتے کے 22 منٹ پورے ہو چکے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جمعرات کو شیڈول کے مطابق کوٹ لکھپت جیل میں قیدی سے اہل خانہ کی ملاقات ہو چکی تھی۔ ان میں شہباز شریف بھی تھے (پارلیمنٹ سے صدر کے خطاب میں شرکت کے لیے وہ یہیں سے براستہ سڑک روانہ ہوئے تھے کہ اس وقت کوئی پرواز دستیاب نہ تھی) اب سوموار کو شہباز شریف، احسن اقبال اور خواجہ آصف کی میاں نواز شریف سے خصوصی ملاقات اپنی جگہ چونکا دینے والی بات تھی (کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بزدار حکومت کی یہ فیاضی دراصل ''اوپر‘‘ سے آنے والے حکم کے باعث تھی)۔ مسلم لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ کی اپنے قائد سے تین گھنٹے سے زائد کی ملاقات (جو ہفتہ وار شیڈول سے ہٹ کر تھی) پہلے سے موجود افواہوں اور قیاس آرائیوں میں اضافے کا باعث بن گئی۔ ڈیل کی باتیں، بعض با خبروں کے مطابق جس کی خواہش اِدھر سے نہیں ہوئی، یہ پیشکش اُدھر سے آئی۔ اسی روز بابر اعوان سے ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ''نو ڈیل، نو کمپرومائز‘‘ کے عزم کا اعادہ۔ اور ادھر کوٹ لکھپت جیل سے میاں نواز شریف کی طرف سے ایک بار پھر یہ واشگاف اعلان کہ ڈیل ہو گی، نہ ڈھیل چاہیے۔
پس نوشت: الیکشن کمیشن سے مسلم لیگ (ن) کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا، مریم نواز کی نائب صدارت کے خلاف پی ٹی آئی کی پٹیشن مسترد۔