2019ء کے انتخابات کے لیے ہندو ئوںکے نزدیک متبرک اتر پردیش کے شہرکاشی سے نریندر مودی نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کراتے وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا تھاکہ وہ 600 کروڑ روپے کی لاگت سے کاشی وشوا ناتھ مندر تعمیر کریں گے۔کاشی‘ جو دریائے گنگا کے کنارے پر واقع ہے‘ ہندوئوں کے نزدیک متبرک مقام سمجھا جاتاہے۔پینتالیس ہزار مربع فٹ کے اس علاقے پر شیو مندر کی تعمیر کے لیے یہاں پہلے سے موجود تمام آبادیوں‘ جن میں مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی اور دلت شامل ہیں‘ کی عبادت گاہیں‘ گھر اوردکانیں گرائی جا رہی ہیں۔یہ علاقہ جہاں شیو مندر تعمیر کیا جا رہا ہے‘ وزیر اعظم نریندر مودی کا انتخابی حلقہ ہونے کے علا وہ ان کی انتخابی تقاریر کا وعدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت بھر کے انتہا پسند ہندوئوں کے ہند ستھان کا نعرہ بھی ہے‘ اس لئے اتر پردیش کی راشٹریہ سیوک سنگھ سرکار کے لیے اس کی اہمیت سب سے مقدم ہو چکی ہے ۔ شیو مند رکی تعمیر کا بار بار وعدہ اور اعلا نات چونکہ مودی کی انتہا پسند سیا ست کا لازمی جزو ہے‘ اس کے لیے کوئی اور نہیں بلکہ یو پی کے انتہا پسند ہندو وزیر اعلیٰ ادتیا ناتھ یوگی ذاتی طور پر اس کی تعمیرات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ شیو مندر کی تعمیر کے لیے یو پی اتھارٹی اب تک300 گھروںکو مسمار کرکے چھ سو سے زائد خاندانوں کو بے گھر کر چکی ہے‘ جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے گھر بغیر کوئی نوٹس دیے زبردستی مسمار کردئیے گئے ہیں اور ان کے گھروں کا سامان تک اٹھا کر لے گئے ہیں۔ وہ شور مچاتے رہے‘ دہائیاں دیتے رہے لیکن کسی نے ان کی فریاد نہیں سنی۔
راشٹریہ سیوک سنگھ کے وزیر اعظم نریندر مودی المعروف ہٹلر کے انتخابی نعروں کی تکمیل کے لیے منتخب کئے گئے پینتالیس ہزار مربع فٹ کے اس علاقے میں مسلمانوں کا ایک قدیم اور وسیع قبرستان بھی واقع ہے‘ جس سے ملحقہ ایک خانقاہ اور صدیوں پرانی Gyanvapi مسجدبھی شامل ہے ۔اس تاریخی مسجد اور قبرستان پر کرینیں اور بلڈوزر چلانے کے لیے جب اتر پردیش اتھارٹی اورCRPF سمیت مسلح پولیس کے دستے بڑی بڑی مشینوں کے ساتھ آگے بڑھے تو ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مرد اور عورتیں ان بھاری مشینوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ پولیس نے ان پر بے تحاشا لاٹھی چارج بھی کیا‘ لیکن زخم کھانے کے با وجود یو پی سرکار کی کرینوں اور بلڈوزروں کو مسجد اور قبرستان اکھاڑنے کی اجا زت نہیں دی گئی۔ جب پولیس اور مظاہرین کے درمیان لڑائی شدت اختیار کر گئی تو شام کے وقت کرینوں کو واپس لا کر وقتی طور پر کام روک دیا گیا ۔ Gyanvapi مسجد پر ہندوئوں نے پاکستان بننے سے کوئی بارہ برس پہلے بھی کئی بار یہ کہہ کر زبردستی قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ ان کے بھگوان کے مندر پر تعمیر کی گئی ہے‘ جس پر مسلمانوں نے1936ء میں بنارس کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا کہ یہاں ہندوئوں کے کسی بھگوان کے مندر کا کوئی نشان نہیں ہے۔ یہ مقدمہ بنارس کی عدالت میں ایک سال تک چلتا رہا‘ جس میں ہندو ئوں کے بڑے پنڈت اور مسلم لیڈر پیش ہوتے رہے اور1937ء میں عدالت نے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے‘ انہیں اجا زت دے دی کہ یہاں اپنی عبادت کریں اور اس مسجد سے ملحق صوفی بزرگ کے سالانہ عرس کی تقریبات کو بھی اپنے طور پر منا سکتے ہیں۔1991ء میں نرسیما رائو حکومت نے The Places of Worship (Special Provisions) Actپاس کیا‘ کہ پندرہ اگست 1947 ء کے دن سے جس جس جگہ پر جن مذاہب کی عبادت گاہیں قائم تھیں اس جگہ تعمیر کی گئی عبا دت گاہ کو اسی طرح قائم رہنے دیا جائے گا ‘لیکن راشٹریہ سیوک سنگھ کے ایک عہدیدار سومناتھ ویاس نے بنارس ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرتے ہوئے درخواست کی کہ اس مسجد میں مسلمانوں کو عبادت کی اجا زت منسوخ کرتے ہوئے ‘اس جگہ کو کاشی وشوا ناتھ مندر کے نام کر دیا جائے ۔
شیومندر کوریڈور پر کام کی رفتار یو پی کے ادتیا ناتھ یوگی سرکار کی جانب سے تیز تر کی جا چکی ہے‘ لیکن مسلمانوں کی درخواست پر الٰہ آباد ہائیکورٹ نے حکم امتناہی جاری کر دیا ہے‘ مگر اس حکمِ امتناعی کے با وجود اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے ٹھیکیدار نے ہائیکورٹ کے حکم کی توہین کرتے ہوئے مسجد کے شمالی حصے کی جانب کا چبوترا مسمار کر دیا اور اسی رات ادتیا ناتھ یوگی کی ہدایات پر مکارراشٹریہ سیوک سنگھ نے بیل کے بت (Nandi)کو اس مسجد کے بالکل ساتھ بھاری مشینوں سے ایک گہرا گڑھا کھود کر اس میں دفنانا شروع کر دیا تاکہ با بری مسجد کی طرح صبح ہوتے ہی بھارت بھر میں یہ مشہور کر دیا جائے کہ جہاں شیوکا یہ مندر تعمیر کیا جا رہا ہے اس میں واقع مسلمانوں کی یہ مشہور مسجد Gyanvapiدر اصل مغلوں نے نندی کے مندر کو گرا کر اس پر تعمیر کی تھی اور پھر بابری مسجد کی طرح ہندوئوں اور پنڈتوں کے جتھے یہاں جمع ہو کر نندی بھگوان کی پوجا شروع کر دیں اور مشہور کر دیا جائے کہ یہ جگہ مسجد اور مسلمانوں کے قبرستان کی نہیں بلکہ یہاں نندی کا مندر تھا۔
اس موقع پر جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے بھارت بھر کے ہندو دانشوروں نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ ماضی کی کسی بھی تاریخ سے اتنا ہی سچ مانیں گے جتنا ہماری مرضی کے مطا بق ہو گا ‘ لیکن رات دو بجے کے قریب جب یہ شاطرانہ کھیل جاری تھا تو مسلمانوں کو اس کی خبر ہو تے ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان یہاں اکٹھے ہونا شروع ہو گئے اور شدید لڑائی کے بعد نندی کا بت یہاں سے نکال دیا گیا۔
اگست1990ء میں آر ایس ایس کے ایک جریدے میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے مضمون شائع کیا گیا کہ حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتی کا مقبرہ بنیادی طور پر ایک مندر تھا ‘جس پر بھارت بھر کے مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور انتہا پسند وں کا یہ شوشہ وہیں دم توڑ گیا۔ بابری مسجد کوشہید کرنے کے بعد آر ایس ایس کے لیڈر پریم ناگ اوک نے ایک کتاب لکھی جس کی تفصیلات اس نے اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیںاور اس انٹرویو کی کاپیاں بھارت میں جگہ جگہ تقسیم کی گئیں جس میں کہا گیا تھا کہ جس جگہ تاج محل تعمیر ہوا ہے اس جگہ پر ہندوئوں کا شیو مندر تھا اور اس کا اصل نام ''تیجو مہالیہ‘‘ ہے۔قطب مینار کوبھی وشنو دیوی کا مندر قرار دیاگیا‘اور حضرت خواجہ نظام الدینؒ اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کی قبروں کے بارے بھی ہندوئوں نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا کہ یہ مندروں پر تعمیر کی گئی ہیں۔
بابری مسجد کا واقعہ تو چونکہ مشہور ہو نے سے فلیش پوائنٹ بن گیا‘ لیکن مسجدوں اور خانقاہوں کو رام جنم بھومی بنانا نریندر مودی اور آر ایس ایس کا معمول ہے۔ہریانہ کے ضلع حصار سے کوئی25 کلومیٹر دور ہانسی نام کے قصبے میں ایک مسجد تعمیر تھی جس پر بھارت بھگتی ٹرسٹ نام کی تنظیم نے یہ کہتے ہوئے قبضہ کر لیا کہ صدیوں پہلے اس جگہ ہمارا مندر ہوا کرتا تھا ۔اتر پردیش کا انتہا پسند ہندو وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ اپنے جلسوں میں اعلان کرتا پھرتاہے کہ'' ہندوستان میں عزت صرف ہندو ھرم کی ہو گی‘ مسلمان لیڈروں تک یہ بات پہنچ جانی چاہئے کہ اگر انہوں نے ہرا پتہ کھیلنے کی کوشش کی تو پھر ہم بھی'' کیسری پتہ‘‘ کھیلیں گے‘‘۔