تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     19-09-2019

سیاسی موت …(1)

سیاست ایک طویل دورانیے کا کھیل ہے۔ اس کے دائو پیچ سمجھنے میں اکثر عمریں بیت جاتی ہیں۔ لیکن کھیل کے رموز و اوقاف پھر بھی سمجھ نہیں آتے اور اگر کُچھ سمجھ بُوجھ حاصل ہو بھی جائے تو آپ اپنے مدِ مقابل کو مات نہیں دے پاتے کیونکہ سیاست کے کھیل میں آپ کا مقابلہ صرف ان کھلاڑیوں سے نہیں ہوتا جو بظاہر آپ کو سیاسی میدان میں نظر آ رہے ہوتے ہیں اور اس کھیل میں اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے آپ کا محض عوام میں مقبول، پڑھا لکھا دولت مند اور شاطر ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ عوامی پذیرائی کے ساتھ ساتھ ریاست کے تگڑے ستونوں کی حمایت اور خود کار نظام کے نادیدہ سٹیک ہولڈرز کی لازمی آشیرباد کی بھی ضرورت ہوتی ہے‘ کیونکہ اگر ان سب کی حمایت حاصل نہ ہو تو پھر آپ کی یہی ساری خوبیاں آپ کے لئے وبال جان بن جاتی ہیں اور آپ کی خامیاں شمار ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ سیاست کے خود کار نظام کو ضرورت اور اپنی اوقات سے زیادہ اپنے کنٹرول میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہی سسٹم آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے۔ سیاست کے اس کھیل میں سب کُچھ جاننے کے باوجود بعض اوقات اپنے آپ کو کم عقل اور بیوقوف ظاہر کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔ ضد‘ ہٹ دھرمی اور انا پرستی ایسی خاصیتیں تو ایک سیاسی کھلاڑی کے لیے زہر قاتل تصور کی جاتی ہیں۔ اسی لئے بڑے بڑے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی گلی بند گلی نہیں ہوتی اور جو کھلاڑی اپنے آپ کو کسی بند گلی میں پھنسا لے اور نکل نہ پائے تو عرف عام میں وہ اعلیٰ پائے کا سیاستدان نہیں کہلاتا کیونکہ سیاست کی بند گلیوں کو کھولنے والے بھی اسی سسٹم میں موجود ہوتے ہیں‘ اور اگر کھلاڑی اچھی بارگین کرنا جانتا ہو تو ہر مُشکل گھڑی میں کُچھ دے دلا کر اور کم نُقصان برداشت کر کے ایک نئی لائف لائن حاصل کر لیتا ہے اور اپنی سیاسی موت سے محفوظ رہتا ہے۔ اس لئے سیاسی میدانوں میں کئی برسوں کی ریاضت کے بعد بھی چند خوش نصیبوں کو ہی سیاست کی معراج یعنی اقتدار نصیب ہوتا ہے‘ ورنہ تو سیاست کے بے رحم کھیل میں لا تعداد کھلاڑی سیاسی فہم و فراست حاصل ہونے کے باوجود کامیاب نہیں ہو پاتے اور ان کی باری کبھی نہیں آتی یہاں تک کہ حصول اقتدار کی حسرت لیے وہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں یا پھر مایوس ہو کر گمنامی کی زندگی میں چلے جاتے ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم، نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم اور ڈاکٹر طاہرالقادری اس کی مثالیں ہیں۔ اردو ادب کے عالی مرتبت شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے بقول:
سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
اس طرح سیاسی جماعتوں کی تشکیل بھی ایک ارتقائی عمل کا نام ہے۔ ایک حقیقی سیاسی جماعت ارتقائی عمل سے ہی وجود میں آتی ہے، مضبوط ہوتی اور اقتدار کی راہ داریوں میں داخل ہوتی ہے۔ چند لوگ بیٹھ کر چائے کی میز پر ایک سیاسی جماعت کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ چند سو روپے کے عوض اسے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ بھی کروا سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے روزانہ لا تعداد بچوں کے نام نادرا میں رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں‘ لیکن ان میں نامور چند بچے ہی ہوتے ہیں‘ جو بڑے ہو کر اپنا اور ملک و قوم کا نام روشن کرتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت مذہب اور دولت کی بنیاد پر بڑے بڑے جلسے کر لیتی ہے‘ اسے عوام میں قبولیت عام حاصل کرنے میں کئی کئی برس بیت جاتے ہیں‘ لیکن مقبولیت کی اعلیٰ معراج پر پہنچنے کیلئے اسے ایک کرشمہ ساز قیادت کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو لوگوں کو اپنی طرف راغب کر سکے اور اپنے سحر میں جکڑ سکے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتیں مضبوط اور ان کا منشور ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ راہنما تبدیل ہونے سے ان جماعتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکہ اور برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں‘ لیکن اس کے برعکس ترقی پذیر اور بالخصوص بر صغیر پاک و ہند میں سیاسی جماعتیں اشخاص اور خاندانوں کے شکنجے میں ہیں۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں پر ماسوائے جماعت اسلامی کے‘ موروثی سیاست کا قبضہ ہے۔ بر صغیر پاک و ہند کے زیادہ تر عوام کرشمہ ساز قائدین کو ہی پسند کرتے ہیں۔ جو پُر کشش نعرے لگاتے ہیں۔ پُر فریب منشور دیتے ہیں اور عوام کو اپنے سحر میں جکڑتے جاتے ہیں۔ یہ کرشمہ ساز قیادتیں اپنے وعدے سو فیصد پورے نہ کریں تب بھی عوام ان سے جُڑے رہتے ہیں اور اپنے راہنماؤں کے خلاف کوئی الزام سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ان کی حکومتوں کو برطرف کر دیا جائے، عدالتیں ان کو سزا سنا دیں لیکن عوام اپنے ان سیاسی اماموں کو نہیں چھوڑتے تا وقتیکہ یہ راہنما اپنے عوام سے بے وفائی کر کے ان سے دور نہ ہو جائیں‘ یا عوام کی نظر میں بیڈ گورننس کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پہلے سیاستدان تھے‘ جنہوں نے عوام کو اپنی طرف کھینچا۔ بھٹو مرحوم نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور عام آدمی کو اس کے سیاسی حق کا احساس دلایا۔ گو کہ وہ ایک جاگیردار تھے اور غربت کو کبھی انھوں نے قریب سے بھی نہیں دیکھا تھا‘ لیکن انھوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ سیاسی قیادت کے بُعد سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ روایتی سیاست سے ہٹ کر سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکالا اور عوامی سیاست کو متعارف کروایا۔ یہ سب کُچھ انہوں نے اپنے سیاسی ڈیڈی جنرل ایوب خان کی سیاسی آغوش سے سیکھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی‘ اپنے پہلے سیاسی معرکے میں ہی بڑے بڑے سیاسی برج اُلٹا دئیے‘ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور اپنے عروج پر تھے‘ لیکن عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لالچ میں دھاندلی کا راستہ اپنایا اور لا محدود اقتدار حاصل کرنے کے خمار نے انہیں جیل پہنچا دیا۔ ان کو شکست دینے کے لیے طاقتور سیاسی و مذہبی نو جماعتی پاکستان قومی اتحاد میدان میں اترا‘ لیکن وہ بھی عوام کو بھٹو کے سحر سے آزاد نہ کر سکا۔ بالآخر ایک انتہائی کمزور مقدمۂ قتل میں قانونی جنگ کی نذر ہو گئے اور پھانسی پر لٹکا دیئے گئے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے گیارہ سال بھٹو کی سیاسی قوت ختم کرنے کی کوشش کی۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے۔ سندھ سے وزیر اعظم کیلئے محمد خان جونیجو کا انتخاب کیا۔ سندھ اور پنجاب کے بڑے بڑے نام پیپلز پارٹی چھوڑ گئے‘ لیکن بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو جنرل ضیاالحق کی زندگی میں ہی وطن واپس لوٹیں اور پھر دو بار ملک کی وزیر اعظم بنیں۔ عورت کے وزیر اعظم بننے پر بڑے بڑے فتوے بھی ان کا راستہ نہ روک سکے کیونکہ وہ دونوں بار طاقتور ستونوں سے معاملات طے کر کے وزیر اعظم بنیں۔ دونوں بار ہی کرپشن کے الزام میں انہیں ہٹا دیا گیا‘ وطن چھوڑنا پڑا‘ عدم موجودگی میں سزا ہوئی‘ لیکن ان کے ووٹرز نے تمام الزامات کے باوجود محترمہ کو اپنا لیڈر مانا۔ تیسری بار جنرل پرویز مشرف سے این آر او کیا لیکن انتخابات سے قبل ہی دہشت گردی کا شکار ہو گئیں۔
شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو قتل ہو گئے مگر پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت برقرار رہی۔ پیپلز پارٹی کو کئی بار توڑا گیا۔ یہاں تک کہ نام بھی بدلنا پڑا اور پی پی پی پارلیمنٹیرینز کے نام سے پیپلز پارٹی نے اپنا سیاسی سفر اور سیاسی جنگ جاری رکھی۔ جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف، صدر اسحاق خان، صدر فاروق لغاری، غلام مصطفی جتوئی، غلام مصطفی کھر کے گہرے گھائو بھی پیپلز پارٹی کو سیاسی موت نہیں دے سکے۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں آ گئی اور پانچ سال کی بیڈ گورننس اور پارٹی کے جیالوں سے بے وفائی کے تاثر نے پیپلز پارٹی کو سیاسی موت سلا دیا اور آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان، کے پی کے، وفاقی حکومت‘ سب جگہوں سے فارغ ہو گئی اور بمشکل سندھ حکومت بچا سکی اور اپنی آخری سیاسی لائف لائن پر ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کیلئے کئی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد کو میدان میں اتارا گیا لیکن پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک برقرار رہا؛ تاہم آئی جے آئی کی کوکھ سے میاں نواز شریف، جو پہلے فوجی حکومت کے وزیر تھے‘ نے ایک سیاستدان کے طور پر جنم لیا‘ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مقبول لیڈر بن گئے اور دائیں بازو کے عوام کو ایک پلیٹ فارم دیا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved