تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     19-09-2019

ٹائمنگ

بہت سے معاملات میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ بظاہر کام برا نہیں ہوتا‘ مگر اس کی غلط ٹائمنگ اسے خراب‘ بلکہ خراب تر کر دیتی ہے۔ اب‘ اس کی آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ یقین کریں یہ مثال میں کالم کا پیٹ بھرنے کی غرض سے یا اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی غرض سے زور قلم کی بنیاد پر نہیں لکھ رہا۔ یہ واقعہ سو فیصد سچا ہے اور اس میں رتی برابر مبالغہ یا رنگ آمیزی شامل نہیں۔ میرے ایک عزیز دوست کے بڑے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ نماز جنازہ جی پی او ملتان کے گرائونڈ میں تھی۔ ابھی امام صاحب نے چار تکبیر نماز جنازہ فرض کفایہ‘ ثناء واسطے اللہ تعالیٰ دے‘ درود واسطے رسول کریم ؐ دے تے دعا واسطے حاضر میت دے کہہ کر 'اللہ اکبر‘ ہی کہا تھا کہ میری صف سے اگلی والی صف کے کسی شخص کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے موبائل میں گانے کی رنگ ٹون لگا رکھی تھی۔ سو‘ وہی گانا چلنے لگ گیا اور نماز جنازہ کے دوران بلند آواز میں بجنے والی اس گانے کی رنگ ٹون نے بڑی عجیب سی صورتحال پیدا کر دی۔ اس شخص نے افراتفری میں جیب میں رکھے ہوئے فون کو نکالا اور کال کاٹ دی۔ دوسری طرف فون کرنے والے کو غیب کا علم تو تھا نہیں کہ جسے وہ فون کر رہا ہے‘ وہ اس وقت کہاں ہے اور کس کیفیت میں ہے۔ اس نے فون کے کاٹتے ہی دوبارہ 'ری ڈائل‘ کر دیا اور فون کی گھنٹی دوبارہ اسی زور و شور سے بجنا شروع ہو گئی۔ دوبارہ افراتفری اور شرمندگی کی کیفیت میں اس نے فون نکالا اور اسے سرے سے آف ہی کر دیا۔ اس نے اپنی نماز بھی خراب کی اور ارد گرد والوں کو بھی اپنے فون کی رنگ ٹون میں پھنسائے رکھا۔ اس کے فون میں رنگ ٹون لگی ہوئی تھی ''ہو مبارک! آج کا دن‘ رات آئی ہے سہانی‘ شادمانی ہو‘ شادمانی‘‘۔ یہ فون اگر کسی بارات کی آمد کے دوران بجتا تو نہ فون والے کو کوئی خجالت اٹھانا پڑتی اور نہ ہی شرمندگی محسوس کرنا پڑتی‘ لیکن اس فون کی رنگ ٹون کی وجہ سے ہونے والی شرمندگی اور خجالت صرف اور صرف اس کی ٹائمنگ کے باعث تھی۔ اگر یہ رنگ ٹون جنازے کے دوران نہ بجتی تو شاید کسی کو محسوس بھی نہ ہوتی۔ یہی حال اس وقت مختلف واقعات کا ہے‘ جو وقوع پذیر ہوئے ہیں یا ہونے جا رہے ہیں۔
مثلاً آپ سعودی عرب کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ملنے والے ''آرڈر آف عبدالعزیز السعود‘‘ کی ٹائمنگ دیکھ لیں‘ اگر نریندر مودی کو یہی ایوارڈ عام دنوں میں ملا ہوتا تو شاید کسی کو اس کا زیادہ احساس ہی نہ ہوتا۔ یہ ایوارڈ حالانکہ اپریل 2016ء کو دیا گیا تھا‘ لیکن جونہی پانچ اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ضامن بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کا اعلان کیا‘ اور کشمیر میں کرفیو اور تمام ذرائع مواصلات پر پابندی عائد کی‘ سوشل میڈیا نے اس ایوارڈ کا تذکرہ چھیڑ دیا اور اس پر ساری پاکستانی قوم نے شدید غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ ایسے لگا جیسے یہ ایوارڈ‘ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ جڑا ہوا ہے؛ حالانکہ ایسا نہیں تھا‘ تاہم پاکستانی عوام کو اس کے بارے میں آگاہی عین انہی دنوں میں ہوئی‘ جب کشمیر کا معاملہ گرم تھا‘ لہٰذا اس پر پاکستانی عوام کی ساری گرما گرمی اس کی آگاہی کی ٹائمنگ کے باعث تھی۔
ہمیں لگتا تھا کہ شاید مودی کو ملنے والا یہ ایوارڈ کوئی ایسی انوکھی چیز ہے‘ جو ہم پاکستانیوں کو کبھی نہیں دی گئی؛ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہی ایوارڈ‘ آرڈر آف عبدالعزیز السعود اس سے قبل 2009ء میں جنرل طارق مجید چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف پاکستان کو دیا گیا تھا۔ یہی ایوارڈ جنرل پرویز مشرف کو‘ جنرل راحیل شریف کو بھی دیا گیا۔ یہ والا سعودی اعلیٰ ترین سول ایوارڈ موجودہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل زبیر محمود حیات کو دیا گیا؛ حتیٰ کہ یہی ایوارڈ پاکستانی نیول چیف ایڈمرل محمد ذکااللہ اور پاکستانی فضائیہ کے سابق چیف ایئر مارشل سہیل امان کو بھی عطا کیا گیا۔
تاہم متحدہ عرب امارات کی جانب سے نریندر مودی کو ملنے والے ''آرڈر آف زید‘‘ کی ٹائمنگ بہت ہی خراب تھی۔ ادھر کشمیر میں کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ کرفیو لگے سترہ روز ہو چکے تھے۔ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں پر اس ابتلا کے دور پر غمزدہ تھی‘ افسردہ تھی اور بھارت کے خلاف غم و غصے سے بھری بیٹھی تھی۔ ایسے میں‘ جبکہ پاکستان کو عالمی سطح پر نہ سہی‘ مگر برادر اسلامی ممالک کی جانب سے اظہار یکجہتی کی ضرورت تھی‘ مسلم امہ کی جانب سے بھارت کی مذمت اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی امید تھی‘ متحدہ عرب امارات نے بھارتی وزیر اعظم کو اپنے ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دے کر اسلامی ممالک کے بارے میں خوش گمان پاکستانی قوم کو نہ صرف مایوس کیا‘ بلکہ میں سمجھتا ہوں زخموں پر نمک چھڑکا۔ یہی ایوارڈ متحدہ عرب امارات کے حکمران پاکستانی سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی دے چکے ہیں اور شاید کسی عام پاکستانی کو علم بھی نہیں کہ یہ ایوارڈ اس سے قبل کسی پاکستانی حکمران کو مل چکا ہے‘ لیکن ساری پاکستانی قوم کو یہ معلوم ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ ''گجرات کے قصاب‘‘ اور اب کشمیریوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے نریندر مودی کو دیا ہے۔ اگر کشمیریوں پر اس قدر مشکل اور ابتلا کا دور نہ ہوتا۔ ساری قوم یکجا نہ ہوتی تو اس ایوارڈ کے مودی کو ملنے پر اسی طرح بے خبر رہتی‘ جس طرح پرویز مشرف کو ملنے سے لا علم ہے‘ مگر وہی بات‘ مسئلہ سارا غلط ٹائمنگ کا ہے۔
اسی طرح جمعیت علمائے ہند کے ایک دھڑے کے رہنما مولانا ارشد مدنی کی بھارتی انتہا پسند تنظیم اور بھارت میں ہندوتوا کی داعی آر ایس ایس کے لیڈروں سے ملاقات اور اسی جماعت‘ یعنی جمعیت علمائے ہند کے دوسرے دھڑے کے سربراہ مولانا محمود مدنی کی جانب سے کشمیر کے بھارت کا اٹوٹ انگ ہونے کی قرارداد پاس کرنے سے جہاں بھارت کے مسلمانوں کو دکھ ملا‘ وہیں کشمیریوں کے دل پر چھری بھی چلائی گئی۔ اس کے علاوہ بہت سے لبرلز اور سیکولرز کو سکون پہنچایا گیا‘ اور انہیں یہ کہنے کا موقعہ دیا گیا کہ بھارت کے مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت کو تو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ صرف انہی لوگوں کا کھڑا کیا ہوا مسئلہ ہے‘ جنہیں پاکستان کی آشیرباد حاصل ہے۔
یہی حال اس وقت پاکستان میں جمعیت علمائے ہند کی کوکھ سے جنم لینے والی جمعیت علمائے اسلام کا ہے‘ بلکہ زیادہ آسان لفظوں میں مولانا فضل الرحمن کا ہے۔ قوم کو اس وقت یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت ہے اور مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد پر قبضے کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے۔ حکومتی نا اہلیاں اپنی جگہ‘ لیکن یہ وقت اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر یک آواز ہونے کا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے لیے تو کشمیر کے لیے کچھ کرنے کا وقت تھا کہ وہ کشمیر کے نام پر بننے والی ''کشمیر کمیٹی‘‘ کی سربراہی کے طفیل پورے دس سال مزے کرتے رہے اور وفاقی وزیر کے سٹیٹس کو انجوائے کرتے رہے۔ اب وقت تھا کہ وہ ایک عشرے تک لوٹے گئے مزے کا حق ادا کرتے‘ مگر انہیں کشمیر کی بجائے اقتدار کی فکر کھائے جا رہی ہے اور وہ اپنے اس شوقِ اقتدار کو اسلام کے غلاف میں لپیٹ کر اسے آزادی مارچ کا نام دے رہے ہیں‘ جبکہ اس کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ''تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
دھرنے کی سیاست پر گفتگو ایک علیحدہ کالم کی متقاضی ہے‘ لیکن فی الوقت دھرنے کی ٹائمنگ ہی غلط ہے اور یہ دھرنا فی الوقت پاکستان میں جمہوریت کی بقا سے زیادہ جمعیت علمائے ہند کے مؤقف کی تائید اور مولانا ارشد مدنی و مولانا محمود مدنی کی تشفی قلب کا باعث بنے گا۔ کم از کم ٹائمنگ تو یہی ثابت کر رہی ہے۔ باقی دلوں کے حال اللہ جانتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved