تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-09-2019

کسی کو کیا پڑی ہے؟

چاہے جانے کی آرزو بھی کیا بلا ہے کہ قیامت پر قیامت ڈھاتی رہتی ہے۔ کم و بیش ہر انسان کی خواہش ہے کہ کوئی اُسے چاہے۔ بہت سوں کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اُنہیں چاہنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہونی چاہیے۔ بہت سے چاہنے والوں کو دیکھ کر انسان کے دل کو جو تسکین ملتی ہے‘ وہ کسی بھی طور کماحقہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ چاہے جانے کی خواہش ہے تو لاجواب‘ مگر یہ خواہش پیدا ہی کیوں ہوتی ہے کہ کوئی چاہے؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کا کاروبار کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر چلتا ہے۔ ہر معاشرے کی بنیادی روش یہ ہے کہ صرف اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے‘ جس سے کچھ فیض پہنچے۔ چاہے جانے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ قدر کی نگاہ سے صرف اُنہیں دیکھا جاتا ہے ‘جو کسی کام کے ہوں۔ جس سے کوئی فیض نہ پہنچتا ہو‘ اُس کی طرف دیکھنے والے کم ہوتے ہیں۔ 
کیوں؟ یہ بات حیرت انگیز لگ رہی ہے؟ اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ یہ دنیا اسی طور رہی ہے۔ ہر دور میں انسانوں کا یہی معاملہ رہا ہے کہ جو کام کا ہو‘ اُس کی قدر کرو‘ اُسے چاہو۔ جو کام کا نہ ہو‘ اُسے لوگ نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں۔ تھوڑی سی حقیقت پسندی سے کام لیجیے تو آپ بھی بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ دنیا حیرت انگیز ہے ‘نہ اس کا کوئی انداز۔ ہر معاملہ منطق کے اصولوں پر پورا اترتا ہے۔ پانی میں نمک ڈالیے تو وہ نمکین ہوجائے گا۔ شکر ملائیے تو میٹھا پانی پینے کو ملے گا۔ جو رنگ ملائیے پانی اُسی رنگ کا ہوجائے گا۔ دنیا کا ہر معاملہ پانی جیسا ہی تو ہے۔ جس معاملے میں جو کچھ ملاتے جائیے‘ وہ ویسا ہی ہوتا چلا جائے گا۔ بات جب اتنی سیدھی سی ہے اور بالکل سامنے کی ہے تو کسی بھی معاملے پر حیرت کیوں؟ 
اب آئیے دوبارہ‘ اس سوال کی طرف کہ ہم میں چاہے جانے کی آرزو ہوتی ہی کیوں ہے؟ جب کوئی ہمیں چاہتا ہے تو عجیب سی روحانی تسکین محسوس ہوتی ہے۔ دل مسرّت سے بھر جاتا ہے۔ پورا ماحول زندہ اور تازہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ چاہے جانے کی صورت میں انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کے وجود کو نئی معنویت عطا ہوگئی ہے۔ ہم سبھی چاہتے ہیں کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہو۔ یہ بھی تو ایک مقصد ہی ہے کہ کوئی ہمیں چاہے۔ کوئی چاہتا ہے تو ہم خود کو نیا نیا محسوس کرتے ہیں‘ جیسے بارش کے بعد زمین تازہ دم ہوگئی ہو۔ جہاں نفرتیں ہی نفرتیں ہوں‘ وہاں اگر کسی کی چاہت نصیب ہو جائے تو کیا کہنے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے تپتے ہوئے صحرا پر گھٹائیں برس پڑیں۔ ؎ 
کوئی مجھے چاہے یہ دُعا مانگ رہا ہوں 
تپتا ہوا صحرا ہوں‘ گھٹا مانگ رہا ہوں 
چاہے جانے کی آرزو بہت خوب سہی‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی بھر صرف اسی ایک خواہش کے سِحر میں گم رہتے ہیں۔ کسی کو چاہنے کی خواہش ہمارے دل میں کم کم ہی انگڑائیاں لیتی ہے۔ چاہت کے معاملے میں لوگ ون وے ٹریفک کے اصول پر کاربند رہتے ہیں۔ کوئی چاہے یہ آرزو توانا ہوتی رہتی ہے‘ مگر ہم اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ دوسروں کو بھی چاہے جانے کی آرزو ہوتی ہوگی۔ ایسے میں یہ بات حیرت انگیز کیوں محسوس ہو کہ جب دوسروں کی آرزو آسودہ نہیں رہ پاتی تو وہ مایوسی کا شکار ہوکر ترکِ تعلق کی منزل تک آجاتے ہیں؟ 
اب ایک اہم سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ہمیں چاہے؟ اس دنیا کا ہر معاملہ ذاتی مفاد سے شروع ہوکر ذاتی مفاد کی منزل پر ختم ہوتا ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی میں بہت کچھ ہو۔ بہت کچھ سے مراد یہ ہے کہ محض مادّی آسائشیں نہ ہوں ‘بلکہ روحانی تسکین بھی میسر رہے۔ قلبی سکون سے ہم کنار رہنے کی تمنا ‘جس طور آپ کے دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے‘ بالکل اُسی طور دوسروں کے دلوں میں انگڑائیاں لیتی ہے۔ یہ بہت سادہ سی حقیقت ہے ‘جسے سمجھنے کے لیے کسی کا آئزک نیوٹن یا البرٹ آئن سٹائن ہونا لازم نہیں۔ 
جب معاملہ اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ذات ہی پر ختم ہوتا ہے تو دوسروں کی طرف کیوں دیکھا جائے؟ یا زیادہ کیوں دیکھا جائے؟ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ چاہت کے معاملے میں ہم بہت حد تک خود غرضی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں چاہیں‘ مگر ہم دوسروں کو چاہنے کے معاملے میں گریزپا رہتے ہیں۔ ہم ون وے ٹریفک چلانا چاہتے ہیں‘ جبکہ چاہت ٹو وے ٹریفک ہے۔ کوئی آپ کو اُتنا ہی چاہے گا‘ جتنا آپ اُسے چاہیں گے۔ جب آپ اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کریں گے‘ معاملات میں دلچسپی لیںگے تو یہ خوش گوار تبدیلی آپ کی طرزِ فکر و عمل سے ظاہر ہوگی۔ جب آپ دوسروں میں کسی خاص غرض کے بغیر دلچسپی لیں گے‘ اُن کا بھلا چاہیں گے تو یہ بات محسوس کی جائے گی اور پھر ریسپانس بھی اُسی حساب سے آئے گا۔ 
اب آپ آئیے‘ اس بات کی طرف کہ کوئی آپ کو کب چاہتا ہے؟ دنیا کے ہر انسان کے لیے سب سے مقدم اُس کی اپنی ذات ہوتی ہے۔ وہ سب سے پہلے ذاتی مفاد پر نظر رکھتا ہے۔ باقی سب کچھ اِس کے بعد آتا ہے۔ اگر آپ اپنے وجود کو نظر انداز کرکے دوسروں سے یہ توقع رکھیں کہ وہ آپ کو چاہیں تو اسے محض خام خیالی قرار دیا جائے گا۔ لوگ غیر محسوس طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ آپ اپنی ذات میں کس حد تک حقیقی دلچسپی لیتے ہیں۔ اُن کا ریسپانس اس حقیقی دلچسپی کے تناسب سے ہوتا ہے۔ مفاد پرست ہونے اور اپنے وجود کو چاہنے میں بہت فرق ہے۔ خود غرضی کے مرض میں مبتلا افراد دوسروں کے مفاد کی پروا کیے بغیر صرف اپنا بھلا چاہتے ہیں۔ اپنے وجود سے خالص محبت کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اپنے وجود سے محبت نہ کرتا ہو‘ اپنے جائز مفادات کی نگہبانی نہ کرتا ہو‘ دوسروں کو پریشان کیے بغیر اپنی ذات کو پروان چڑھانے میں ناکام رہتا ہو تو کوئی اُسے کیوں چاہے گا؟ اگر کوئی شخص اپنے وجود میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لیتا ہو‘ اپنے آپ کو اپ گریڈ کرنے‘ اپنی ذات کو ویلیو ایڈیشن کی منزل تک لے جانے کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہو تو کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ جاسوسی ادب کے معروف مصنف ابن ِصفی ناول نگاری کے ساتھ ساتھ اسرارؔ ناروی کے نام سے شعر بھی کہتے تھے۔ اُنہی کا شعر ہے ؎ 
بالآخر تھک ہار کے یارو! ہم نے بھی تسلیم کیا 
اپنی ذات سے عشق ہے سَچّا‘ باقی سب افسانے ہیں! 
اب کہیں سے کوئی نہیں آئے گا۔ جسمانی اور روحانی آسودگی کے حوالے سے اپنی ذات کا گراف بلند کرنے کے خاطر جو کچھ بھی کرنا ہے‘ وہ آپ ہی کو کرنا ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا :ع
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن‘ اپنا تو بن!
کسی کا بننے کی کوشش کرتے رہنے یا یہ خواہش پروان چڑھانے سے کہ کوئی ہمارا ہو جائے‘ کہیں بڑھ کر یہ بات ہے کہ پہلے مرحلے میں ہمیں اپنی ذات کا ہو رہنا ہے۔ جب یہ معاملہ اچھی طرح طے پا جائے تو دو چار قدم آگے جاکر دوسروں کو بھی اپنانے میں کوئی قباحت نہیں۔ اگر آپ اپنے لیے سنجیدہ اور اپنے وجود کو نئے رنگ و آہنگ سے ہم کنار کرنے کے لیے کوشاں نہ ہوں تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ میں غیر معمولی دلچسپی لے اور آپ کے وجود کا گراف بلند کرے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved