تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     20-09-2019

سیاسی موت …(2)

مسلم لیگ اور اس کے کئی دھڑے تو پہلے سے موجود تھے لیکن قیادت کے اعتبار سے بانجھ تھے۔ نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں سے خوب فائدہ اٹھایا اور مسلم لیگ کے سربراہ بن کر اس میں سیاسی روح پھونکی۔ وہ دائیں بازو کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر ان کی حکومت بھی دومرتبہ ختم ہوئی۔ لیکن ان کے سیاسی مقتدی ان سے جڑے رہے۔ نوازشریف اپنے آپ کو سسٹم سے بڑا سمجھ بیٹھے‘ صحیح اختیارات کا غلط موقع پر استعمال کیا اور معزول کردئیے گئے۔ جیل پہنچے‘ سزا ہوئی‘ مزاحمت کی اور پھر انتہائی رازداری سے پرویزمشرف کے ساتھ پورے خاندان سمیت ایک ڈیل کرکے پاکستان سے چلے گئے۔ عام تاثر تھا کہ نوازشریف کا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا ہے اور اب شاید ہی وہ واپس پاکستان لوٹیں۔ سیاسی پلوں کے نیچے سے پانی بہتا رہا۔ مسلم لیگ ق کی داغ بیل ڈالی گئی۔ مرکز اور تین صوبوں میں اس کی حکومت بنی لیکن پھر سیاست کے عالمی کھلاڑیوں نے پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان پاور شیئرنگ کا نیا فارمولا طے کروایا‘ جسے عرف عام میں این آر او کا نام دیا گیا۔ یہیں پر حالات نے پلٹا کھایا۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ہی نواز شریف واپس آئے اور پھر اقتدار حاصل کیا‘ لیکن ایک بار پھر معاملات نہ سنبھال سکے اور پانامہ کی نذر ہوگئے۔ قانونی جنگ کا پہلا راؤنڈ ہار چکے ہیں اور ان دنوں جیل میں ہیں۔ عدالتیں انھیں سزائیں دے چکی ہیں۔ قانونی جنگ جزوی طور پر ہارنے کے باوجود وہ سیاسی میدان میں موجود ہیں اور ان کے مخالفین انھیں سیاسی موت نہیں دے سکے۔ میاں نوازشریف کے سیاسی مقتدی اپنے سیاسی امام پر لگائے گئے کسی الزام پرکان دھرنے کوتیارنہیں ہیں کیونکہ وہ بہرحال اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو بھی کھانے پینے میں ایک معقول حصہ دے رہے تھے۔ میاں نوازشریف کو صدراسحاق خان، فاروق لغاری، چوہدری شجاعت حسین، جنرل پرویزمشرف جیسے بڑے بڑے سیاسی وغیرسیاسی گھائو بھی سیاسی طور پر ابدی نیند نہیں سلا سکے۔ ایسی ہی مثال غدارِ پاکستان شیخ مجیب الرحمان کی ہے جنھوں نے پرفریب نعرے سے بنگالی قوم کو اپنے سحرمیں جکڑلیا تھا۔ وزیراعظم بنے اورپھرقتل ہوئے لیکن ان کی سیاسی موت نہیں ہوئی کیونکہ شیخ مْجیب کے سیاسی مقتدی اسے اپنا سیاسی باپو سمجھتے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی نابالغ بیٹی بڑی ہوکر سیاسی غلبہ حاصل کرپائے گی۔ لیکن ایسا ہوا‘ ان کی بیٹی شیخ حسینہ آج بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں اور اپنے والد کے زمانے کے سیاسی مخالفین کوچْن چْن کر عدالتی قتل کے ذریعے راستے سے ہٹانے میں مصروف ہیں جبکہ ان کے سیاسی مخالفین تمام تر قوتوں کے باوجود اس کے سامنے سیاسی میدان میں بے بس ہیں۔ 
بھارت میں اندرا گاندھی کی مثال موجود ہے جو خود قتل ہوئیں۔ ان کے بیٹے وزیراعظم راجیو گاندھی کو دہشتگردی کے ذریعے قتل کیا گیا جبکہ سنجے گاندھی فضائی حادثے میں مارا گیا؛ تاہم کانگریس کوشکست اس وقت ہوئی جب انھوں نے بیڈ گورننس کی مثالیں قائم کیں۔ لیکن پھر اندرا کی بہو سونیا گاندھی، پوتے راہول گاندھی نے دوبارہ اس میں سیاسی روح پھونکی اور اقتدار حاصل کیا۔ اس کی قیادت کو الزامات سے سیاسی موت نہیں دی جا سکی۔ پاکستان میں جب دو جماعتی نظام مضبوط ہوچکا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے ہوتے ہوئے کوئی تیسری جماعت یا نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہوتے ہوئے کوئی تیسرا لیڈر بھی سیاست میں کامیاب ہوگا۔ عمران خان آہستہ آہستہ آگے بڑھتے گئے اور اپنے آپ کو تیسرے آپشن کے طور پر منوایا۔ پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں سیاست کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کی کرشمہ ساز قیادت نے تبدیلی کا پرکشش نعرہ لگایا اور عوام کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
پہلے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی اور اب وفاق، خیبر پختونخوا سمیت پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہیں۔ پنجاب‘ جسے فتح کرنے کی حسرت لیے محترمہ بے نظیر بھٹو دنیا سے رخصت ہوگئیں‘ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن سے چھین لیا۔ 
پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چْکا ہے۔ ان کے بڑے بڑے سیاسی مْخالفین کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں ہیں، مفرور ہیں، اور جو باقی بچے ہیں وہ جیل میں جانے والوں کی صف میں شامل ہیں۔ حکومت کو کسی قسم کا کوئی سیاسی خطرہ بظاہر نظر نہیں آرہا۔ طاقتور عدلیہ اپنا وجود منوا چْکی ہے اور بلا خوف و خطر فیصلے دے رہی ہے۔ نیب اپنا کام بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ بڑے بڑے نامور اَن ٹَچ ایبل سیاستدان‘ بزنس ٹائیکون جیلوں میں ہیں۔ ایسا منظر شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جنرل پرویز مْشرف کی طرح معاشی دہشتگردوں کے ساتھ کسی قسم کے مْک مْکا، ڈیل، ڈھیل یا این آر او کی کوئی خبر سْننے کو نہیں مل رہی‘ نہ ہی اداروں میں ایسی کوئی خواہش پائی جاتی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور تائید و حمایت عمران حکومت کے ساتھ ہے۔ سیاسی معاشی اور سکیورٹی کے داخلی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے عسکری قیادت عمران حکومت کے شانہ بشانہ ہے۔ اپنی ٹیم سلیکٹ کرنے میں آزاد ہیں۔ روزمرہ کے حکومتی امور چلانے میں حکومت کے کاموں میں مداخلت نہ ہونے کے برابر ہے۔ افواج پاکستان کے جرنیل انہیں سلیوٹ کرتے ہیں اور علی الاعلان انہیں چیف ایگزیکٹو مانتے، کہتے اور سمجھتے بھی ہیں۔ عمران خان اور عسکری قیادت سیم پیج پر ہونے کا برملا اعلان بھی کرتے ہیں۔ لیکن اس تمام تر مثالی صورت حال کے باوجود یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ گڈ گورننس کے جو خواب عوام کو دکھائے گئے تھے وہ پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ وزراء کی آپس کی لڑائیاں، دوستوں کی فوج ظفر موج، وزیر اعظم عمران خان کو کسی کروٹ سکون نہیں لینے دے رہیں۔ کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ غیر یقینی کی صورتحال ایسی ہے کہ لوگ کھربوں روپے بینکوں سے نکلوا کر حوالے اور ہنڈی کے ذریعے لین دین کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں۔ میڈیا انڈسٹری سمیت تمام انڈسٹریز میں کام بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ عام آدمی کی زندگی بھی پہلے سے زیادہ مشکل ہے۔ ایک سال کے بعد بھی کوئی ایک میگا ترقیاتی منصوبے کا اعلان نہیں ہوا۔ ریئل اسٹیٹ کاروباری سرگرمیوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہ بھی ٹھپ ہے۔ دانستہ یا نادانستہ اصلاحات کے نام پر اور ٹیکس زیادہ اکٹھا کرنے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کیلئے اتنا بوجھ پہلے ہی سال ڈال دیا گیا ہے جو اٹھانے کیلئے ان کے ہم خیال بھی تیار نہیں تھے۔ عمران خان پر تاحال براہ راست کرپشن کا کوئی الزام نہیں لیکن اقربا پروری موجود ہے۔ غلط اور نااہل لوگوں کو مختلف عہدوں پر لگایا گیا‘ جو عمران خان کیلئے درد سر بن چْکے ہیں لیکن یہی نااہل اور خوشامدی لوگ خان کو سب اچھا ہے کی خبر دے رہے ہیں۔ ان کی مخالفین ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ یہی حال بزدار حکومت کا ہے۔ عثمان بزدار کے بارے میں بھی یہی تاثر عام ہے کہ گورننس نام کی کوئی چیز پنجاب میں نہیں ہے۔ وزراء شتر بے مہار ہیں۔ بیوروکریسی عثمان بزدار کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں اور اب یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے بارے میں جلد کوئی فیصلہ نہ کیا تو صورتحال شاید ان کے کنٹرول میں نہ رہے۔ منظور وٹو کی صورت میں میاں نواز شریف کے زمانے میں ایک بغاوت کی مثال پہلے سے موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو پنجاب سمیت وفاق میں بھی ایک تازہ دم کابینہ کے ساتھ اترنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف‘ آصف علی زرداری سمیت بہت سی ناگزیر شخصیات کے مائنس ہونے کے باوجود نظام چل رہا ہے اور اب ایک اور مائنس کا خیال ذہنوں سے ہوتا ہوا میز پر آ چکا ہے۔ ٹیم اچھا نہ کھیلے تو اچھا کھیلنے والے کھلاڑی پھر بھی بچ جاتے ہیں اور اچھا کھیلنے والے کھلاڑیوں میں سے ہی کسی ایک کو نیا کپتان بنا دیا جاتا ہے‘ لیکن کپتان کو فوراً تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ اگر بیڈ گورننس کا یہ تاثر مزید چند ہفتے جاری رہا تو انھیں امریکہ سے واپسی پر نئے سیاسی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ سیاسی موت ہمیشہ بیڈ گورننس اور عوام میں احساس محرومی اور بیوفائی کے احساس سے ہی ہوتی ہے‘ کرپشن کے الزامات سے نہیں۔ اگر عمران خان کو سیاسی موت سے بچنا ہے تو پھر سیاست کے دائو پیچ سمجھنا ہوں گے۔ (ختم )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved