بدھ، 18 ستمبر سیاسی خبروں کے لحاظ سے ایک اور گرماگرم دن تھا۔ وزیر اعظم عمران خان پشاور سے 55 کلومیٹر دور طورخم کی سرحد پر تھے جہاں پاک افغان تعلقات کا ایک نیا ورق رقم ہو رہا تھا۔ یہ پاک افغان بارڈر پر نئے ٹرانزٹ ٹریڈ مینجمنٹ سسٹم کے افتتاح کی تقریب تھی‘ جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان روزانہ چوبیس گھنٹے امیگریشن اور ٹریڈ کی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ افغان صوبے ننگرہار کے گورنر حیات اللہ حیات بھی پاکستان کی دعوت پر چلے آئے تھے۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے کشمیر کے حوالے سے ایک بار پھر مودی اور اس کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںکشمیر کا مقدمہ اس بھرپور انداز میں پیش کریں گے کہ اس سے پہلے کسی (پاکستانی لیڈر) نے پیش نہ کیا ہو گا۔ کشمیر میں، مودی حکومت کے وحشیانہ اقدامات نے وزیر اعظم پاکستان کے ''کشمیر مقدمے‘‘ کو تاریخی بنانے کے لیے ضروری مواد وافر مقدار میں مہیا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ان کے ''پیشرو‘‘ وزیر اعظم (نواز شریف) کا ریکارڈ بھی اس حوالے سے شاندار رہا ہے۔ تفصیل میں جانے کا محل نہیں، چند حوالے پیش خدمت ہیں: ستمبر 2013 میں (تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد) جنرل اسمبلی سے ان کے پہلے خطاب پر عالمی میڈیا کا تبصرہ تھا کہ برسوں بعد کسی پاکستانی لیڈر نے کشمیر پر اس طرح کا زوردار خطاب کیا‘ جس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا بطور خاص حوالہ دیا گیا۔ انڈین چینلز نے بھی یہ تقریر لائیو ٹیلی کاسٹ کی تھی‘ جس کے بعد ہاہاکار مچ گئی تھی۔ کسی نے کہا، وزیر اعظم پاکستان کی تقریر کا 80 فیصد حصہ کشمیر پر مرکوز تھا، کسی کے بقول پورا خطاب کشمیر پر تھا۔ تب من موہن سنگھ بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ وہ اپنے پاکستانی ہم منصب کی تقریر سے اتنے بدمزہ ہوئے کہ صدر اوباما سے شکایت کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس پر نوازشریف نے بھارتی صحافی برکھا دت سے گفتگو میں من موہن سنگھ پر ''لگائی بجھائی کرنے والی عورت‘‘ کی پھبتی کسی (پنجابی میں اسے ''پھپھے کٹنی‘‘ کہتے ہیں) ایک پاکستانی چینل نے اسے بریکنگ نیوز بنا دیا‘ جس سے من موہن سنگھ کی بدمزگی اور بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ اگلے روز دونوں وزرائے اعظم کی ناشتے پر ہونے والی ملاقات منسوخ ہوتے ہوتے رہ گئی (البتہ یہاں بھی تنائو کی کیفیت موجود رہی) اتوار 29 ستمبر (2013) کی شب، ایک پاکستانی نیوز چینل اور اے بی پی نیوز انڈیا کے اشتراک سے ہونے والے ''پاک بھارت ٹاکرا‘‘ میں ایک اینکر کے سوال پر لال حویلی والے شیخ رشید بھی یہ کہے بغیر نہ رہے کہ یہ بلا شبہ ایک مدبر کا خطاب تھا۔
اگلے سال مودی بھارت کا وزیر اعظم تھا۔ نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کشمیر کو پھر زیادہ شدت کے ساتھ موضوع بنایا۔ انہوں نے بھارتی فوجیوں کا نشانہ بننے والی کشمیری خواتین کا بطور خاص ذکر کیا تھا۔
طورخم میں ایک اخبار نویس کے سوال پر وزیر اعظم عمران خان کا جواب، پاکستان کی سرکاری پالیسی کے حوالے سے بہت اہم تھا۔ اس سوال پر کہ کیا پاکستان ان نوجوانوں کو اجازت دے گا جو کشمیر جا کر اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ بھارتی فوجیوں سے لڑنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم کا کسی لاگ لپٹ کے بغیر جواب تھا: یہ کشمیریوں کے ساتھ سخت ناانصافی ہوگی۔ اس سے ان کے منصفانہ کاز کو نقصان پہنچے گا۔ کشمیر میں 9 لاکھ فوج رکھنے والا بھارت، پاکستان کو مقبوضہ علاقے میں عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے داخل ہونے کا مطلب پاکستان پر کراس بارڈر ٹیررازم کے الزام کے لیے بھارت کو ایک اور بہانہ مہیا کرنا ہوگا اور یہ پاکستان ہی نہیں، کشمیریوں کے ساتھ بھی دشمنی ہوگی۔ وزیر اعظم پاکستان نے افغانستان میں امن کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس سے وسطی ایشیا سمیت سارے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ وزیر اعظم پاکستان کی یہ گفتگو بلا شبہ چشم کشا اور فکر انگیز تھی لیکن کیا اس موقع پر ایک بار پھر اپنی اپوزیشن کو نشانہ بنانا اور ''کچھ بھی ہو جائے، کسی کو این آر او نہیں ملے گا‘‘ کے عزم کا اعادہ بھی ضروری تھا؟
اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں، چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی کی زیر صدارت ''قومی پارلیمانی کانفرنس‘‘ کشمیر پر قومی یکجہتی کا ایک اور شاندار مظاہرہ تھا۔ صدر مملکت عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام، وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور اور مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال سمیت، سبھی نے موضوع کا حق ادا کیا، لیکن ''مشاعرہ‘‘ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار فاروق حیدر نے لوٹ لیا۔ وہ خود روئے اور سامعین کو بھی رلایا۔ ان کا کہنا تھا: جموں وکشمیر والے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ آنسو تھے کہ کشمیری لیڈر کی پلکوں پر امنڈ آئے تھے، آواز تھی کہ بیٹھی جارہی تھی اور کشمیری لیڈر کہہ رہا تھا ''پاکستانی قوم سے مجھے کوئی گلہ نہیں، لیکن ارباب اختیار سے ضرور یہ کہنا چاہوں گا کہ قیامت کے دن خدا کو کیا جواب دو گے؟ کیا آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کررہے ہو؟‘‘
اندرون و بیرون ملک لاکھوں کان اور آنکھیں، صبح ہی سے ٹی وی سکرینوں پر لگ گئی تھیں۔ جناب جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ میں نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم نوازشریف کی اپیل زیر سماعت تھی۔ العزیزیہ کیس میں سات سال قید کی یہ سزا ویڈیو فیم جج ارشد ملک نے سنائی تھی (24 دسمبر 2018)۔ سپریم کورٹ کی طرف سے علاج کے لیے ضمانت پر رہائی کے 6 ہفتے نکال دیئے جائیں تو میاں صاحب اسیری کے ساڑھے سات ماہ مکمل کر چکے۔ جولائی میں مریم نواز صاحبہ نے ایک پریس کانفرنس میںجج ارشد ملک کی دھماکہ خیز ویڈیو جاری کی، جس میں جج صاحب یہ اعتراف کررہے تھے کہ یہ سزا انہوں نے دبائو کے تحت دی تھی۔ جج صاحب نے اس کی تردید میں پریس ریلیز کے علاوہ بیان حلفی بھی دیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو جناب چیف جسٹس کی زیر صدارت بنچ نے اس حوالے سے اہم قانونی نکات اٹھائے اور ویڈیو کی حقیقت جاننے کے لیے کچھ معیارات کا تعین کر دیا۔ ویڈیو بنانے والے ناصر بٹ، لندن کی دو فرموں سے ویڈیو کی آڈٹ/فرانزک کا سرٹیفکیٹ لے کر، تصدیق کے لیے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن پہنچ گئے۔ بدھ کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت تھی۔ میاں صاحب کے متوالے اچھی خبر کے منتظر تھے۔ عدالت میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی لیکن معاملہ ایک نیا موڑ مڑگیا۔ میاں صاحب کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ انہیں جج ارشد ملک کی پریس ریلیز اور بیان حلفی درکار ہے‘ جس کے بعد ہی وہ دلائل کا آغاز کرسکیں گے۔ جسٹس کیانی نے یاد دلایا کہ اپیل داخل ہوئے مہینوں گزر گئے لیکن وکیل صفائی کی طرف سے ابھی دلائل کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ خواجہ صاحب کا کہنا تھا کہ دلائل شروع کرنے کیلئے انہیں دو ہفتے درکار ہیں، جنہیں وہ تین مہینوں میں مکمل کرسکیں گے۔ عدالت نے 7 اکتوبر تک سماعت ملتوی کردی۔ ملزم اور اس کے وکلا تو فوری فیصلے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن یہاں خود ان کی طرف سے کم وبیش ساڑھے تین چار ماہ کی بات کی جارہی تھی۔ دودن قبل خواجہ حارث کی زیر قیادت وکلاء کی ٹیم کوٹ لکھپت میں میاں صاحب سے ملاقات کر چکی تھی (شہبازشریف ، احسن اقبال اور خواجہ آصف بھی شریکِ مشاورت تھے) ظاہر ہے، یہ حکمت عملی وہیں طے پائی ہوگی، لیکن اس میں مصلحت کیا ہے؟ خواجہ آصف کے بقول، میاں صاحب کو رہائی کی کوئی جلدی نہیں (مانوس صیاد سے ہوگئے)۔ اس سے کسی ڈیل یا ڈھیل کی تردید بھی مطلوب ہے لیکن دور کی کوڑی لانے والوںکے مطابق اس دوران چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ بھی ہوچکی ہوگی۔
ادھر لاہور میں نیب عدالت کے روبرو مریم نواز کا کہنا تھا کہ میرے جسمانی ریمانڈ کو 42 روز گزر گئے لیکن نیب کی انکوائری کے دوران ''سیاسی گپ شپ‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ وہ پوچھتے ہیں کہ دادا نے اتنی جائیداد میرے نام کیوں کردی؟ میں پوچھتی ہوں کہ اپنے ورثاء کی بجائے جائیداد کیا پڑوسیوں کو سونپ دی جاتی ہے؟ کچھ دستاویزات کے لیے، نیب کی درخواست پر مریم (اور یوسف عباس) کے جسمانی ریمانڈ میں سات روز کی توسیع کردی گئی۔
اور بدھ کے روز کی ایک اور گرما گرم خبر، خورشید شاہ کی گرفتاری تھی، آمدن سے زائد اثاثوں کا وہی الزام۔