احتساب کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''احتساب کے بغیر ملک کا کوئی مستقبل نہیں‘‘ اور خاص طور پر میرا تو ہرگز کوئی مستقبل نہیں ‘کیونکہ اسی کے دم قدم سے میری حکومت چل رہی ہے؛اگرچہ اس میں اُن پانچ حضرات کا حصہ بھی بطورِ خاص قابل ذکر ہے‘ جو ہر وقت گھیرا ڈالے مجھے اپنی حفاظت میں رکھتے ہیں اور چونکہ وہ اپنے اپنے میدان کے خاص کاروباری ہیں اور پرلے درجے کے تجربہ کار بھی ہیں‘ اس لیے میں بھی ان کے تجربے سے فائدہ اٹھا رہا ہوں اور جنہیں کوئی نقصان پہنچانے کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا‘ اس لیے او جی ڈی سی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو درخواست دے رکھی ہے‘ اس میں ہارنے کا پورا پورا انتظام کر رکھا ہے‘ تاکہ بعض شرپسندوں نے اس پر آرڈیننس کے حوالے سے ہمیں جو خوف زدہ کر رکھا تھا‘ ان کے دانت کھٹے کیے جا سکیں اور اس طرح حق بہ بحق دار رسید ہو سکے اور مجھے ان مصاحبین سے خفت نہ اٹھانی پڑے ‘جو ہر وقت میری اور اپنی مدد پر آمادہ رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز طورخم بارڈر پر کراسنگ ٹرمینل کا افتتاح کر رہے تھے۔
میری گرفتاری سے حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے: خورشید شاہ
سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''میری گرفتاری سے حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے‘‘ کہ دراصل یہ پرلے درجے کی تنگ نظری اور حسد ہے‘ جو یہ حکومت کسی کو کھاتا پیتا نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی میری جدوجہد کا کچھ لحاظ ہے کہ میں کہاں کا کہاں پہنچ گیا اور اب حکومت نے میری چند کٹیائیں دیکھ کر پیٹ ہی پکڑ لیا ہے‘ جنہیں میں کوئی خاص اہمیت خود بھی نہیں دیتا اور اسی لیے میں نے خیرات کے طور پر انہیں مختلف ضرورتمندوں میں تقسیم کر رکھا ہے کہ دنیا چند روزہ ہے اور روپیہ پیسہ فساد کی جڑ ہے اور میں ایک امن پسند آدمی ہوں‘ اور سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ حکومت اتنا عرصہ میری فائلوں پر اس طرح بیٹھی رہی‘ جیسے مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے اور یہ انڈے بھی اس کے اپنے نہیں ‘بلکہ پرائے تھے۔ آپ اگلے روزاپنی گرفتاری کے موقعے پر میڈیا کے نمائندوںسے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمارا راستہ روکا گیا تو ملک جام کر دیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اگر ہمارا راستہ روکا گیا تو ملک جام کر دیں گے‘‘ اور جام سے یاد آیا کہ ٹوسٹ کے دونوں طرف سے جام لگا ہوا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ جبکہ ویسے بھی اللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں‘ جو اب عنقا ہو کر رہ گئی ہیں‘ تاہم عنقا اگر کوئی پرندہ تھا ہی نہیںتو اس کا نام کیوں رکھ دیا گیا؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری شرارت محاورہ بنانے کی خاطر کی گئی ہے اور یہ ہماری قومی زبان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے کہ اس کے نام پر اس طرح کی جعل سازیاں کی جائیں ‘اس لیے اب یہ ضروری ہو چکا کہ ہم اپنے دھرنے کے دوران اس پر بھی کھل کر احتجاج کریں‘ جبکہ ہم نے دیگر زبانوں کے ساتھ اس قسم کا کوئی مذاق روا نہیں رکھا اور ہماری طرح وہ بھی روزِ اول کی طرح خالص چلی آ رہی ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے ملک عزیز میں خالص چیزوں کا زبردست فقدان ہے‘ جن میں کھانے پینے کی اشیا سرفہرست ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ذرا بچ کے
تنازعہ کشمیر حل کرنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بار بار ثالثی کی پیشکش پر ہمارے وزیر خارجہ نا صرف پھولے نہیں سما رہے ہیں ‘بلکہ ان کا ارشاد یہ بھی ہے کہ یہ جھگڑا ثالثی ہی کے ذریعے حل ہو سکتا ہے‘ جس کا ایک مطلب اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف ‘بلکہ لاتعلقی ہے اور ماضی گواہ ہے کہ اس نازک مسئلے پر جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے‘ امریکہ پر ہرگز کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور ماضی اس کا گواہ بھی ہے ‘اس لیے اس پھندے میں پھنسنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ بھارت جو فی الحال ثالثی سے انکار کر رہا ہے‘ اس انتظار میں ہے کہ پاکستان اس ثالثی پر پکا ہو جائے تو وہ بھی اس پر رضامندی کا اظہار کر دے۔ اپنی ایٹمی صلاحیت کی وجہ سے پاکستان ‘امریکہ کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے‘ اس لیے اس سے ایسے انصاف کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی ‘جس میں بھارت کو کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔
اور اب آخر میں عامرؔ سہیل کی یہ خوبصورت نظم:
یہ دُنیا
خواب کی اک مملکت ہے
جس کے پیچھے حُسن کا
حُسن ِتدبر ہے
خدا افلاک سے آگے بہت آگے
کوئی جتنی بھی جلدی میں
کسی رفتار سے بھاگے
خدا افلاک سے آگے بہت آگے
طلوعِ عشق سے پہلے‘ شروعِ حُسن کے دھاگے
خدا افلاک سے آگے
سمندر دیوتا جاپان کا پہلا مچھیرا ہے
خدا کا شامیانہ دیوتاؤں سے گھنیرا ہے
خدا پھولوں سے پہلے بھی‘ خدا گجروں سے پہلے بھی
خدا اجروں سے پہلے بھی‘ خدا فجروں سے پہلے بھی
خدا ہر داستاں کے ریشمی ابواب لکھتا ہے
خدا نیندیں بناتا ہے‘ خدا ہر خواب لکھتا ہے
ہے کوئی آنکھ جو عامر ؔخدا کے ساتھ یوں جاگے
خدا ہر چاک سے آگے خدا افلاک سے آگے
کوئی جتنی بھی جلدی میں
کسی رفتار سے بھاگے!
آج کا مقطع
کہاں گیا ظفرؔ اس کے تازہ تر جسم کے جال سے نکل کر
سفید بیڈ شیٹ پر پڑا یہ بوسہ اسی بد حواس کا ہے