تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     20-09-2019

دوسری زندگی: اسلام اور سائنس کی روشنی میں!

کشمیر کے مظلوموں پر جس ظالمانہ انداز میں مودی سرکار ظلم کر رہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان اس پر پوری دنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ دو ایٹمی ممالک مذکورہ مسئلے پر آخری حد تک گئے تو دنیا خوفناک تباہی سے بچ نہ پائے گی۔ اس پر وہ اپنے عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہمیں موت کا کوئی ڈر نہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی پاک فوج کی جانب سے ایسے ہی عقیدے کا بار بار اظہار کر چکے۔ یہ عقیدہ اگلے جہان کی زندگی ہے۔ آج کے کالم میں اس عقیدے پر حضرت محمد کریمؐ کی حدیث لاؤں گا اور پھر جدید سائنسی طبی انکشاف لاؤںگا۔ امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ اپنی صحیح بخاری کے مرکزی عنوانات کے لئے کتاب کا لفظ استعمال فرماتے ہیں‘ پھر ہر کتاب میں متعدد ابواب لاتے ہیں۔
قارئین کرام! کتاب کا نام ''بدء الخلق‘‘ ہے‘ یعنی مخلوق کا آغاز۔ امام بخاری اس کتاب کے آغاز میں پہلے باب کی جو پہلی حدیث لائے ہیں ‘وہ حضرات عمران بن حصینؓ سے مروی ہے۔ کہتے ہیں؛ میں اللہ کے رسولؐ کی مجلس میں حاضر تھا۔ اونٹنی کو میں نے (مسجد نبوی) کے دروازے پر بھی باندھ دیا تھا۔ اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں بنو تمیم کے کچھ لوگ حاضر ہوئے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا: اے تمیم قبیلے والو! خوش خبری قبول کرو۔ قبیلے والوں نے جواب میں کہا: آپؐ نے ہمیں خوشخبری دی ہے۔ اب ہمیں مال و دولت بھی عنایت فرمائیں۔ اس دوران یمن سے بھی کچھ لوگ حاضر ہو گئے۔ آپؐ نے ان سے بھی یہی فرمایا: یمن والو! خوش خبری قبول کرو۔ تمیم والوں نے تو قبول نہیں کی۔ یمن والے عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسولؐ! ہم نے آپؐ کی بشارت کو قبول کیا۔ ہم حاضر اس لئے ہوئے ہیں ‘تاکہ کائنات کی پیدائش کے بارے میں پوچھیں؟ آپؐ نے فرمایا: اوّل‘ اللہ تعالیٰ کی ذات تھی۔ اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس کا عرش پانی پر تھا۔ لوحِ محفوظ میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز لکھ دی تھی۔ آسمانوں اور زمین کو اسی نے پیدا فرمایا۔ آپؐ بیان فرما رہے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے عمران! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی ہے۔ میں اٹھ کر اونٹنی کے پیچھے بھاگا۔ وہ تو بہت دور جا چکی تھی۔ کاش! میں یہاں سے نہ اٹھتا۔ اونٹنی کو جانے دیتا‘ (کائنات کی پیدائش بارے حضورؐ کی عملی گفتگو سے محروم نہ ہوتا)‘‘(بخاری:3190-91)
قارئین کرام! حضورؐ نے بنو تمیم کو قبول اسلام کی وجہ سے اگلے جہان کی زندگی کی کامیابی کے بارے خوشخبری سنائی تھی‘ مگر وہ دنیا کا مال سمجھ بیٹھے۔ حضورؐ اس پر غمناک ہوئے۔ اہل یمن سمجھدار تھے۔ وہ اگلی زندگی پر نا صرف خوش ہوئے ‘بلکہ علم حاصل کرنے لگ گئے۔ کیا خوش قسمت لوگ تھے۔ حضرت عمران بھی عملی مجلس سے اپنی محرومی پر افسوس کرتے ہیں کہ میں نے اونٹنی کی خاطر علم سے اپنے آپ کو محروم کر لیا۔ قارئین! آئیے! اب مزید علم کی بات کرتے ہیں۔ اگلے جہان کی زندگی کا علم۔ 
حضورؐ نے فرمایا: ''قبر‘میں آدمؑ کے بیٹے (کے جسم کو) مکمل طور پر مٹی کھا جائے گی۔ صرف ''عجب الذنب‘‘ بچے گا‘ اسی سے انسان پیدا کیا گیا‘ اسی سے اسے جوڑا جائے گا‘‘ (مسلم:7415)۔ فرمایا: '' انسان میں یہ ایک ایسی ہڈی ہے‘ جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی‘‘ (مسلم: 7416)۔ مزید فرمایا:'' انسان کے وجود کی ہر شئے بوسیدہ ہو جائیگی۔ عجب الذنب کی ہڈی بوسیدہ نہیں ہوگی‘اسی سے قیامت کے دن مخلوق کی ترکیب مکمل ہوگی‘‘ (مسلم:7414)۔ مزید فرمایا: ''عجب الذنب کے علاوہ انسان کے وجود کی ہر شئے بوسیدہ ہو جائے گی‘ اسی میں مخلوق کی ترکیب ہوگی‘‘ بخاری (4813-4935)۔
قارئین! اب دیکھتے ہیں ''عجب الذنب‘‘ کیا چیز ہے؟ امام جمال الدین ابن منظور اپنی شہرہ آفاق ''لسان العرب‘‘ میں اللہ کے رسولؐ کی مذکورہ حدیث کا ذکر کر کے کہتے ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے کو ''عجب‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے مراد ایسی عجیب ترین شئے ہے کہ جس تک ذہنی رسائی ناممکن حد تک ہو‘ اسی لحر ''ذنب‘‘ دمچی کے آخری حصے کو کہتے ہیں۔ قارئین کرام! ہمارا موجودہ دور سائنس کا دورہ ہے؛ چونکہ زندگی کے ہر شعبے میںسائنس نے بہت ترقی کی ہے اور یہ تیز رفتاری سے جاری ہے۔ یہ ساری ترقی مسلمانوں کے علاوہ دوسری غیر مسلم اقوام نے کی ہے۔ میں نے قرآن میں اکثر جگہ اللہ تعالیٰ کا ایک انداز ملاحظہ کیا ہے کہ جب بھی جدید علمی تحقیق کے کسی نعمت کا اظہار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے منکرین کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زمانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل واضح کر دیا تھا کہ یہ ترقیاں غیر مسلم کریں گے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیسے یمن کے لوگ اپنے رسول کریمؐ سے کائنات کی پیدائش بارے سوال کر رہے ہیں۔ کیسا ان کا ذہن علم کی طلب میں سائنسی تھا اور حضورؐ بھی ان سے راضی ہو رہے ہیں کہ ان کا مزاج علمی اور سائنسی ہے‘ جبکہ آج اسی یمن میں مسلمان برسرپیکار ہیں اور عالم ِ اسلام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ روس کا صدر ولادی میر پیوٹن انقرہ میں صدر رجب طیب اردوان اور صدر روحانی کی موجودگی میں قرآن کی آیت سنا کر نصیحت کر رہا ہے کہ قرآن پر عمل کرو۔ آپس میں نہ لڑو‘ مگر مسلمان ہیں کہ اپنے اربوں ڈالر کے وسائل کو باہمی جنگوں میں پچھلے تیس برسوں سے جھونکتے چلے آ رہے ہیں۔ کاش! یہ وسائل علمی اور سائنسی ترقی پر خرچ ہوتے۔ بہرحال! اللہ تعالیٰ میرے پیارے رسولؐ کی امت پر رحم فرمائیں۔ ہم تو فی الحال اپنے آپ پر رحم کرنے سے رہے۔ قارئین کرام! غیر مسلموں کے علمی اور سائنسی انکشافات جب سامنے آتے ہیں تو نو مسلم اسلامی سکالرز بول اٹھتے ہیں کہ یہ تحقیق جو آج سامنے آئی ہے۔ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ عرب سکالرز بھی اس میدان میں بہت آگے ہیں۔ کینیڈا کے یوسف ایٹس اور برطانیہ کی خاتون رویسٹر فوریسٹر ہیں۔ انڈیا کے مایا ناز محقق ڈاکٹر ذاکر نائیک ہیں۔ پاکستان سے پروفیسر رفیق اختر ہیں۔ عرب دنیا سے کمال کے محقق انجینئر عبدالدائم ہیں۔ ان کا تعلق دمشق سے ہے۔ عبدالعزیز فوزان ہیں۔ محمد راتب نابلسی ہیں۔ محمود محمد زخلول نجار ہیں۔ ترکی کے ہارون یحییٰ ہیں۔ میں ان شخصیات اور دیگر سکالرز سے اردو‘ انگریزی اور عربی زبانوں میں مستفید ہوتا ہوں۔ پروفیسر رفیق اختر کے شاگرد بلال رشید کا کالم بھی دیکھتا ہوں۔ ایسے لوگوں کی کاوشوں سے غیر مسلم مسلمان ہوتے ہیں ‘توکمزور عقیدہ کے مسلمانوں کے عقیدے اللہ کریم کی توحید اور آخری زندگی پر مضبوط ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور توفیق دے۔ (آمین) 
ڈاکٹر محمد بن علی البار بھی ایسے ہی ایک عرب سکالر ہیں۔ انہوں نے دبئی میں ساتویں عالمی کانفرنس میں جس کا موضوع ہر سال قرآن و سنت میں علمی (سائنسی) اعجاز ہوتا ہے‘ اس پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فرانس میں ''عجب الذنب‘‘ پر تحقیق سامنے آئی ہے‘ اسی طرح زغلول نجار نے نوبل انعام یافتہ ہاسپین میلن کی تحقیق کا انکشاف کیا ہے۔ کویت میں ایسی ہی ایک آٹھویں علمی کانفرنس میں شیخ محمد حسان نے انکشاف کیا۔ امریکہ‘ کینیڈا اور برطانیہ میں ہونے والی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ہاسپین میلن جو ایک یہودی سائنسدان ہے‘ اس نے بتایا کہ ریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے میں اسے ایک ایسا خلیہ دکھائی دیا کہ باقی سارے خلیات مخصوص کیمیکلز میں ختم ہو گئے‘ مگر یہ ختم نہیں ہوا۔ اس کو لیبارٹری میں ایٹمی حرارت دی گئی‘ اس سے بھی فنا نہیں ہوا۔ ہاسپین میلن کوجب بتلایا گیا کہ اس پر تو محمد عربیؐ کی حدیث ہے تو وہ حیران رہ گیا۔ الغرض! تمام ایسے میڈیکل سائنسدانوں نے کہا کہ یہ ایسا خلیہ ہے کہ جس میں دوسری بار نئے سرے سے پیدائش کی استطاعت موجود ہے۔ سبحان اللہ!
حضرت محمد کریمؐ ‘اللہ کے سچے اور آخری رسولؐ ہیں۔ آپؐ کا ہر فرمان اللہ تعالیٰ کی وحی ہے اور آخری سچائی ہے۔ اصل اور مستند علم یہی ہے۔ ماں کے شکم میں یہی وہ ذرہ اور خلیہ کی شکل اختیار کرنے والا ہے‘ جو انسان کی آنکھ خوردبین کے بغیر دیکھ نہیں سکتی‘ مگر اس میں ایک مکمل انسان موجود ہوتا ہے۔ انسان کا جسم مٹی میں مٹی ہو جائے گا‘ مگر مذکورہ ذرہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایکٹیویٹ ہوگا۔ حضورؐ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک مخصوص پانی برسائے گا لوگ اس طرح اگنا شروع ہو جائیں گے‘ جس طرح سبزہ اگتا ہے‘‘ (بخاری: 4935مسلم: 2955)
جی ہاں! انسان زمین پر اگیں گے ‘ساتھ ہی آسمان سے روحیں آئیں گی ‘اپنے اپنے اگنے والے وجودوں میں داخل ہو جائیں گی اور ہم سب اپنے رب کریم کے سامنے ہوں گے۔ اس دن سے پہلے برزخ کے علیین میں ہماری روحیں اپنے نیک رشتہ داروں اور مومنوں کے ساتھ انتہائی اعلیٰ ترین نورانی مقامات میں خوش ہوں گی‘ لہٰذا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟
موت تو اپنے اللہ سے ملاقات کا نام ہے۔ آخر پر مسلمانوں اور حکمرانوں سے گزارش ہے کہ آپس میں نہ لڑیں۔ دنیا بھر میں دین ِ اسلام کو فخر سے پیش کریں۔ کشمیر کے مظلوموں جیسے مظلوموں کے حق میں کھڑے ہوں۔ ذہن نشین رہے کہ اگر یہاں مارے بھی گئے تو جسم مٹی میں اور اصل مومن بندہ روح کی صورت میں فردوس بریں میں ہوگا۔ ڈر ہے‘ پھر کس بات کا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved