دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد سے‘ تین بنیادی مفادات نے امریکہ کی شرقِ اوسط کی پالیسی تشکیل دی :خطے میںتوانائی کے وسائل کے آزادانہ بہاؤ کو یقینی بنانا‘ اسرائیلی سلامتی کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی ریاست یا ریاستوں کا گروپ امریکی طاقت کو چیلنج نہ کر سکے۔ اگر کہا جائے کہ امریکہ اسرائیل تعلقات کی حکمت عملی‘ تاریخی‘ اخلاقی اور سیاسی وجوہ کو چھوڑ کر تیل ہی شرقِ اوسط میں قطعی طور پر رہنے کی وجہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اسی لئے یہ لمحہ سعودی عرب کے خام تیل کی سب سے اہم پروسیسنگ سہولیات پر حملے کے بعداہم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے جوابات سے کیااشارے مل رہے ہیں ‘ یہ ہر ذی شعور سمجھ رہا ہے۔کیا امریکی اشرافیہ ابھی بھی توانائی کے وسائل کو بنیادی قومی مفاد سمجھتے ہیں ؟ کیا امریکہ واقعی شرقِ اوسط سے مکمل طور پر نکلنے کی راہ پر گامزن ہیں؟‘ جیسا کہ اس خطے میں بہت سے لوگوں کو شبہ ہے۔ایسے کئی سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔
جب یہ کہانی ہفتہ کی صبح سامنے آئی کہ سعودی عرب کے ابقیق اور خریص میں پروسیسنگ سہولیات پر حملہ ہوا ہے اور ممکنہ طور پر مجرم حوثی باغی تھے ۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین میں یہ بحث چھڑ گئی کہ یمن میں‘ سعودی عرب کے ملزم کن حالات میں ہیں ۔کئی سوالات نے جنم لیا کہ کیا واقعی انہیں ایران مدد کر رہاہے ؟ یہ سوالات تب شدت اختیار کرگئے جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے خاص طور پر ایران پر الزام لگایا۔پومپیو نے براہ راست ایرانیوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ یہ ایک غیر معقول پوزیشن نہیں ہے‘ ایران کی خطے میں رقم‘ٹیکنالوجی‘ اور اسلحہ کی فراہمی کے حق میں اوربراہ راست محاذ آرائی سے گریز کرنے کی طویل تاریخ ہے۔ دوسروں نے پومپیو سے اتفاق کیا کہ ایرانی کردار واضح تھا‘ جب یہ خبریں منظر عام پر آئیں کہ حملوں میں کروز میزائل استعمال کیے گئے ‘ یقینا یہ اہم ثبوت تھا۔
1945 ء کے اوائل میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ کا سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کے ساتھ مقابلہ اور پھرواپس پلٹ جانا‘امریکہ کی جانب سے شرقِ اوسط سے تیل کی برآمدات کو روکنے کے لئے پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا تھا۔ 1991 میں آپریشن ڈیزرٹ سٹارم بیک وقت تیل کوروکنے کے لیے جنگ نہیں تھی‘ بلکہ تیل کی آزادانہ بہاؤ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے لڑی جانے والی جنگ تھی۔ بطور امریکی صدر‘ جارج ایچ ڈبلیو بش نے اس وقت واضح کیا کہ امریکیوں کو سعودی عرب میں تعینات کرنے اور پھر عراقی صدر صدام حسین کو کویت سے دھکیلنے کیلئے طاقت کا استعمال کرنے کے فیصلے میں کچھ اصول شامل تھے‘خاص طور پر یہ کہ ایک ملک کو نگلنے کے بین الاقوامی اصولوں کی یہ انتہائی خلاف ورزی تھی۔ ایک اور نظیر جو صدام کے خلاف قائم کی گئی وہ بہت ہی خطرناک تھی۔
امریکہ کا ایک مناسب جواز ضرور بنتا تھا‘ لیکن بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی نے بنیادی امریکی مفادات کو بھی خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اگر امریکی اس مشن سے علیحدگی اختیار کرلیتے تو‘ ممکن ہے کہ صدام اسرائیل کو دھمکیاں دینے کے لیے‘ سعودی عرب اور دوسروں کے لئے خطرات پیدا کر سکتے تھے ‘ اس عمل میں امریکی تسلط کو چیلنج کرنے کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ 1990ء کے موسم گرما میں کویت سٹی پر عراقی ٹینکوں کے پھرنے کے صرف تین دن بعد بش نے اعلان کیا کہ یہ کویت کے خلاف جارحیت ثابت نہیں ہو گا۔صرف بحران کے لمحوں میں ہی نہیں‘امریکہ نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ تیل کا ذخیرہ اس کے لیے کھلا رہے۔ اس خطے تک اس کا انداز ہی جداگانہ ہے ‘ ڈپلومیسی کے تحت معمول کے کاروبار سے لے کر اعلیٰ داؤ پیچ ‘ دیگرمعاملات جیسے ''دُہری پابندیوں‘‘ کو برقرار رکھنا اور یہاں تک کہ مشترکہ جامع منصوبے بنانا‘ آلودگی سے تنگ آکر ٹینکروں کو آبنائے ہرمز سے گزارنااور انہیںمحفوظ بنانا امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔
واشنگٹن میںپالیسی ساز طویل عرصے سے اپنے ملک کے سٹریٹجک تعلقات سے جرنیلوں‘ بادشاہوں‘ اور صدور کے ساتھ صلح کرنے کے پابند رہے ہیں‘ امریکی اقدار کا مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔اور یہی لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکہ ان کی سلامتی کو یقینی بنائے۔ فرانس کے شہر بیارٹز میں جی۔سیون7 اجلاس میں‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر کے رہنما‘ عبد الفتاح السیسی کو اپنا ''پسندیدہ ڈکٹیٹر‘‘کہا۔ مصر اور سویز کینال امریکہ کی زیرقیادت علاقائی نظم و نسق کا اہم حصہ ہیں‘ جو امریکہ کو اپنے مفادات خصوصاً توانائی کے وسائل کے آزادانہ بہاؤ کی پیروی میں مدد کرتا ہے۔متبادل توانائی‘ برقی گاڑیاں‘ بیٹری سٹوریج کو بہتر اور سستا بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی ‘امریکہ کو تیل کی اہمیت سے دور کرکے‘ پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرسکتی ہے ۔ اس دوران مشرقِ وسطیٰ کے توانائی کے وسائل بنیادی دلچسپی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
مسائل جنگوں سے نہیں باہمی افہام و تفہیم سے حل ہوتے ہیں‘جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی‘امید ہے دونوں ممالک پیچیدگیوں کو سمجھیں گے اور جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے‘دونوں ممالک‘ سعودی اور ایران کو مل کر جامع پالیسی ترتیب دینا چاہیے ‘تاکہ کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔