کمرے میں گمبھیر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آخر قائدِ اعظم نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ''فاطی! مہمانوں کو میرے کمرے میں بھجوا دو‘‘۔ فاطمہ جناح نے تجویز دی کہ اب کافی دیر ہو چکی ہے‘ آپ کل صبح مہمانوں سے مل لیں۔ قائد اپنے مخصوص لہجے میں بولے ''میں ابھی مسٹر پرائم منسٹر سے ملنا چاہتا ہوں‘‘ فاطمہ جناح نے اقرار میں سر ہلایا۔ اس روز تقریباً آدھ گھنٹے تک وزیر اعظم لیاقت علی خان اور چودھری محمد علی قائدکے ساتھ رہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈاکٹرز کو یہ احساس پریشان کر رہا تھا کہ زیارت کا مقام بلندی پر واقع ہے جس کی وجہ سے قائدِ اعظم کو سانس کا مسئلہ زیادہ ہو رہا ہے۔ آخر قائد کو قائل کر لیا گیا کہ فوری طور پر کوئٹہ منتقل ہونا ان کی صحت کے لیے کتنا ضروری ہے۔ 13 اگست کو کوئٹہ جانے کا فیصلہ ہوا۔ قائد کو بستر سے سٹریچر اور سٹریچر سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر منتقل کیا گیا۔ سفر کے دوران قائد کی حالت ٹھیک رہی۔ اگلے روز 14 اگست تھا۔ پاکستان کی پہلی سالگرہ کا دن۔ وہ پاکستان جس کے لیے قائد نے چومکھی لڑائی لڑی تھی اور اپنی محنت، ذہانت‘ مستقل مزاجی اور بے مثال کردار سے پاکستان کا حصول ممکن بنایا تھا۔ قائدِاعظم نے اس موقع پر خاص پیغام لکھا‘ جس میں قائد نے لوگوں کو بتایا کہ پاکستان کے قیام کے واقعہ کی دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ زیارت سے کوئٹہ شفٹ ہونے کے بعد قائد کی صحت میں بہتری کے آثار پیدا ہونے لگے۔ زیارت میں وہ ایک جملہ بھی بولتے تو سانس اکھڑنے لگتی لیکن اب انھیں بولنے میں دقت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ زیارت کے دنوں سے وہ بستر تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ مسلسل بستر پر لیٹے رہنے کے اپنے مسائل تھے۔ ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا‘ اب قائد کو آہستہ چلنے کی پریکٹس کرائی جائے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ کل صبح آٹھ بجے آ جائیں۔ اس روز اتفاق سے ڈاکٹر الٰہی بخش کے چھوٹے بیٹے کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہ ساری رات جاگتے رہے۔ اگلے روز وہ آٹھ بج کر پینتیس منٹ پر ریزیڈنسی پہنچے اور قائد کے کمرے میں گئے تو قائد نے کہا کہ وہ تو آٹھ بجے سے تیار بیٹھے تھے‘ اب آپ کل آٹھ بجے آئیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کو قائد کا یہ اظہارِ ناراضگی بھی اچھا لگا۔ یہ بھی ایک مثبت اشارہ تھا کہ قائد اب صحت یاب ہو رہے ہیں۔ 23 اگست کو ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض شاہ کے ہمراہ قائد نے چھ قدم اٹھائے تو ان کی نبض کی رفتار 90 فی منٹ ہو گئی۔ قائد کو کرسی پر بٹھایا گیا۔ کچھ ہی دیر میں نبض کی رفتار 72 ہو گئی۔ چند دن تک یہ پریکٹس جاری رہی۔
اسی دوران ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد کا وزن کیا تو یہ دیکھ کر اس کا دل دھک سے رہ گیا کہ قائد کا وزن 80 پائونڈ ہے۔ یہ وزن ایک پانچ فٹ ساڑھے دس انچ شخص کے لیے یقینا کم تھا اور یہ بھی اس صورت میں کہ قائد کو کچھ دنوں سے صحت بخش خوراک تواتر سے دی جارہی تھی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کا خیال تھا کہ زیارت میں قائد کا وزن 70 پائونڈ کے لگ بھگ ہو گا۔ قائد اب کھانا رغبت سے کھا رہے تھے۔ ایک روز انھوں نے حلوہ پوری کھانے کی فرمائش کی۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کہا: حلوہ تھوڑی مقدار میں کھا لیں لیکن پوری کھانے سے پرہیز کریں۔ اگلے روز فاطمہ جناح نے بتایا کہ قائد نے حلوے کے ساتھ ایک پوری بڑے شوق سے کھائی۔ جب ڈاکٹر نے قائد سے اس کا ذکر کیا تو قائد نے مسکراتے ہوئے کہا: ڈاکٹر وہ پوری بہت ہلکی تھی‘ اس کے بنانے کی ترکیب مختلف تھی۔
اسی طرح ایک دن قائد نے سگریٹ پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے زیارت کے دنوں سے سگریٹ پینا چھوڑ دیا تھا لیکن اس سے پیشتر وہ ایک دن میں تقریباً 50 کے قریب سگریٹ پیتے تھے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کہا کہ اگر آپ دھواں اندر لے کر نہ جائیں تو دن میں ایک سگریٹ پی سکتے ہیں۔ قائد نے کہا: اگر دھواں اندر نہ لے کر جائیں تو زیادہ بھی پی سکتے ہیں؟ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کہا: ٹھیک ہے آپ پورے دن میں دو سگریٹ پی سکتے ہیں۔ قائد کا پسندیدہ سگریٹ برانڈ Craven A تھا جبکہ ڈاکٹر الٰہی بخش 555 State Express سگریٹ برانڈ استعمال کرتے تھے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کے گھر اتفاق سے Craven A سگریٹ کا ایک ٹن بھی موجود تھا‘ جو انھوں نے قائد کی خدمت میں پیش کیا۔ اگلے روز جب ڈاکٹر الٰہی بخش قائد سے ملاقات کے لیے آئے تو اچانک ان کی نظر ایش ٹرے پر پڑی جس میں سگریٹوں کے چار ٹکڑے پڑے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قائد نے دو کے بجائے چار سگریٹ پئے تھے۔ قائد ڈاکٹر الٰہی بخش کی دل کی بات بھانپ گئے اور مسکراتے ہوئے بولے: ڈاکٹر آپ نے خود ہی تو کہا تھا‘ اگر دھواں اندر نہ لے کر جائیں تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس روز قائد کے چہرے پر ایک معصوم بچے جیسی خوشی تھی۔ اگلے روز قائد نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے کہا کہ جو سگریٹ آپ نے مجھے دیے تھے کچھ پرانے سے لگتے ہیں‘ کیا میں خود لاہور سے یہ سگریٹ منگوا سکتا ہوں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے سوچا سگریٹ پرانے کیسے ہو گئے؟ پھر فوراً ان کے ذہن میں خیال آیا کہ قائد کی خوددار طبیعت احسان کے زیرِبارہونے پر تیار نہیں۔ کوئٹہ میں قائد کی حالت میں کچھ بہتری آ رہی تھی تاہم ڈاکٹروں کا خیال تھا کوئٹہ کی بلندی قائد کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں اور انھیں واپس کراچی منتقل کرنا ضروری ہے‘ لیکن قائد نے کوئٹہ سے کراچی جانے سے صاف انکار کر دیا۔ قائد نے کہا ''مجھے بیساکھیوں پر کراچی مت لے جائو۔ میں وہاں تب جانا چاہوں گا جب میں کار سے خود چل کر کمرے میں جا سکوں گا‘ تمھیں معلوم نہیں پورچ سے گزرتے ہوئے پہلے ADC اور پھر ملٹری سیکرٹری کے بعد میرا کمرہ آتا ہے۔ میں نہیں چاہوں گا کہ مجھے کار سے بستر پر ڈال کر اپنے کمرے میں لایا جائے‘‘۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد کے لہجے میں پہلی بار التجا کا رنگ دیکھا تھا۔
قائد کے کراچی جانے سے انکار کے بعد ڈاکٹروں اور محترمہ فاطمہ جناح نے فیصلہ کیا کہ قائد کو ملیر لے جایا جائے‘ جہاں نواب آف بہاولپور کا گھر ہے۔ قائد نواب صاحب سے کہیں گے تو کچھ عرصے کے لیے وہ گھر ان کی رہائش کے لیے دے دیں گے۔ جب قائد سے اس تجویز کا ذکر کیا گیا تو قائد نے کہا: یہ ناممکن ہے کہ میں نواب صاحب سے بات کروں۔ میں جس عہدے پر ہوں میرے لیے نواب صاحب سے بات کرنا مناسب نہیں۔ ڈاکٹر اور مس فاطمہ جناح قائد کی طبیعت کو جانتے تھے‘ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ قائد کو بتائے بغیر وہ خود کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔ ان دنوں نواب صاحب لندن گئے ہوئے تھے اور وہاں پر ان کا پتا کسی کو معلوم نہیں تھا۔ 28 اگست کو فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی ہائی کمیشن کو تار بھیجا جائے تاکہ وہ نواب صاحب سے رابطہ کریں‘ لیکن ڈاکٹر الٰہی بخش کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شام تک تار نہیں بھیجا گیا تھا۔ اسی طرح 29 اگست کا دن بھی گزر گیا۔ خدا خدا کرکے 30 اگست کو تار بھیجا گیا۔ معمول کے مطابق اس کا جواب 24 گھنٹوں میں آ جانا چاہیے تھا‘ لیکن جواب آنے میں تین دن لگ گئے۔ ادھر قائد کی حالت دن بدن انتہائی تشویش ناک ہو رہی تھی۔ یہ 29 اگست کی بات ہے‘ ڈاکٹر الٰہی بخش نے قائد کا معائنہ کیا اور انھیں تسلی تھی کہ وہ پاکستان کی تعمیر کے لیے طویل عرصہ زندہ رہیں گے‘ لیکن قائد کا جواب ڈاکٹر الٰہی بخش کیلئے غیر متوقع تھا۔ قائد نے اپنی نحیف آواز میں کہنا شروع کیا: ڈاکٹر جب تم شروع میں زیارت آئے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا‘ لیکن اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا‘ ویسے بھی اب میں زندہ رہوں یا مر جائوں کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کو یوں لگا جیسے وہ خلا میں زندہ ہیں اور ان کی سماعتوں سے کوئی اجنبی آواز ٹکرا رہی ہے۔ کیا یہ اس شخص کی آواز ہے جو آہنی اعصاب کا مالک تھا‘ جس نے تاریخ کی یادگار جنگ لڑی تھی اور اپنے سب دشمنوں کو شکستِ فاش دی تھی۔ وہ کیا حالات تھے جن سے بددل ہو کر قائدِاعظم کی زندگی میں دلچسپی باقی نہیں رہی تھی۔ وہ جس کی ڈکشنری میں شکست کا لفظ نہیں تھا‘ موت کے سامنے خود ہتھیار ڈال رہا تھا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش ایک بُت کی طرح قائدِاعظم کے سامنے بیٹھے تھے، بے حِس وحرکت۔ یوں لگتا تھا ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو گئی ہے۔ (جاری)