تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-09-2019

جو بھی نکلا سو پریشاں نکلا

علامہ طاہرالقادری صاحب نے عملی سیاست سے مکمل علیحدگی کا اعلان ملے جلے جذبات کے ساتھ کیا ہے۔ کچھ اپنے نیک نامۂ اعمال میں سے کارناموں کا تذکرہ کیا، لیکن زیادہ تر قلق، ملال اور آرزوئوں کی کہانی بیان فرمائی۔ اشارہ شریف خاندان کی طرف تھا کہ جن پر کوئی ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ آج وہ پسِ زندان ہیں۔ محترم قادری صاحب پریس کانفرنس کریں یا سیاسی بیان دیں، اور شریف خاندان کا ذکر نہ ہو، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس پر کبھی بھول چوک نہیں ہوئی۔ معلوم نہیں اُنہیں شریف خاندان سے کیا پرخاش ہے؟ کچھ سمجھ نہیں پایا، گو میں نے کوشش ضرور کی۔ قادری صاحب نے افسوس کا اظہار کیا کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونے والوں کو ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ اب وہ اُن کے لیے مزید یک سو ہو کر کوشش کریں گے۔
سیاست اور سیاست بازی کے حوالے سے اُنھوں نے چند باتیں کیں۔ اس پر تفصیل سے تبصرہ درکار ہے۔ اس سے پہلے کہ میں مزید کچھ لکھوں، قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے طاہرالقادری صاحب کا کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اور یہ کہ ہم پنجاب یونیورسٹی کے 9 نمبر ہاسٹل میں ہمسائے ہونے کے علاوہ اسی جامعہ میں رفیق کار بھی رہے۔ 
اُنھوں نے بجا فرمایا کہ اراکین اسمبلی صرف اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں، اُنہیں عوام کی فلاح کا کوئی خیال نہیں۔ پارلیمان غیر فعال ادارہ ہے، جو طاقتور لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے۔ یہ باتیں تو ہر آدمی جانتا ہے، بلکہ ہمارے معاشرے کے ہر چوپال، اور بیٹھک میں گفتگو کی ابتدا اور اختتام اسی قسم کی روایتی شکایتوں، حسرتوں اور ناکامیوں کے قصوں سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب قادری صاحب بات کرتے ہیں تو وہ سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ اُن کی سیاسی زندگی اختتام کو پہنچی ہے۔ یہ اُن کے تجربے کا نچوڑ ہے۔ 
میں سیاست کے ان طالب علموں میں سے ہوں جو سیاست اور اہل سیاست کے بارے میں پیش گوئیوں سے گریز کرتے ہیں۔ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ایک سیاسی رہنما کا سیاسی ارادہ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ میں اس امکان کو رد نہیں کر سکتا کہ اگر پاکستان میں سیاسی حالات بہت ہی غلط ڈگر پر ہوں اور قوم اور وطن کو قادری صاحب کی قیادت کی ضرورت پڑے تو وہ جذبے سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ سکتے ہیں اور کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عوام کو روایتی جوش خطابت سے متحرک کر سکتے ہیں۔ فن تقریر میں ان کا کوئی ثانی نہیں، وہ یکتا ہیں۔ یہ ایسا ملکہ ہے جو کم لوگوں کے نصیب میں آتا ہے۔ اس لیے ان کے مرید اورمقلدین، اور ان کے پارٹی کے وہ اراکین جو فطری طور پر مایوس ہوں گے، انہیں امید کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ ویسے تو ان کا الوادعی ترکِ سیاست بیان فہم و ادراک کا سر چشمہ دکھائی دیتا ہے مگر ایک بات انہوں نے بہت پتے کی کہی کہ پاکستان کی سیاست میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ آمریت ہو یا جمہوریت، غریب کے لئے تو غربت مقدر ٹھہری ہے، ہاں اگر ترکی، ملائیشیا اور چین کی قیادت ہو‘ وژن، عمل پیہم اور دیانت داری کی اعلیٰ قدریں ہوں تو اس نظام میں غریب کو غربت کی چکی میں پسنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ سب راستے غریب کے لئے کھل جاتے ہیں جونہی کسی کو خیال آ جائے کہ اس کے بچوں کو اسی معیار تعلیم سے آراستہ کرنا سماجی انصاف کا بنیادی اصول ہے‘ جو متوسط اور امیر گھرانوں کے بچوں کے لئے ہے۔ لیکن غریب ہو یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا قابل، اہل، اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاسی اقدار کی آرزو کسی کو دل سے کرنا ہی نہیں چاہیے‘ اور اگر کرے گا تو طاقتور طبقات‘ سیاسی خاندانوں اور با اثر سیاستدانوں کا دم چھلا بن کر رہ جائے گا۔ انتخابی امیدوار، جماعتی لیبل اور کامیابی سب کسی اور کی مرہون منت ہو گی۔ ایک اور صورت بھی ہے جس کا فیصلہ طاہرالقادری صاحب نے اپنی جوانی کے زمانے میں کیا تھا‘ اور وہ راستے طے کرنے کے بعد ایک مقام، پہچان اور شہرت حاصل کر لی‘ مگر اقتدار کی پری ابھی ان کے لیے کوہ قاف کی تنگ وادیوں سے باہر نہیں آ سکی۔ وہ راستہ علم، تصنیف، تالیف اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کا تھا۔ قادری صاحب نے اس سلسلے میں بہت ریاضت کی ہے، عمر گزاری ہے۔ وہ اسلامی علوم کے میدان میں اپنے ہم عصروں میں بلند قد و قامت رکھتے ہیں۔
زندگی تو نام ہی مسلسل سیکھنے کا ہے، نہ غلطیوں کا سلسلہ ٹوٹتا ہے نہ راستہ بدلنے کا عمل اختتام پذیر ہو گا۔ کامیاب شخص وہ ہے جو اپنے مخصوص دائرے میں ہی رہے اور اسی میں کمال حاصل کرنے کی جستجو کرتا رہے۔ بہت سے کاموں کو چھوڑنے والے اپنی صلاحیتیں، وقت اور توانائیاں بکھیر دیتے ہیں۔ پھر کسی کام میں اعلیٰ منزلیں طے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ قادری صاحب نے سیاست میں قدم رکھا اور ضرورت سے زیادہ ٹکے رہے جس کا میرے نزدیک جواز نہیں بنتا۔ لیکن وہ اپنے عملی ذوق اور تحقیق و تالیف سے کبھی غافل نہ ہوئے۔ سینکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ دور حاضر کے کچھ انتہائی اہم مگر پیچیدہ مسائل پر منفرد اور جرأت مندانہ موقف اختیار کیا ہے، خصوصاً دہشت گردی اور جہاد کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے لکھا ہے‘ وہ روایتی تشریح سے مختلف ہے۔ وہ اب اپنے وقت کو دینی کاموں کے لیے وقف کریں گے۔
پنجاب یونیورسٹی کے زمانے میں قادری صاحب سے مذہب، سیاست اور سیاسی نظریات پر کبھی کبھار تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ شروع سے ہی وہ انتہائی دین دار شخص تھے، پابندِ شریعت اور اسلامی نظام اور ریاست کے حامی۔ میری نظریاتی شناخت ان سے مختلف تھی۔ طالب علمی اور بعد میں بھی میرا تعلق ترقی پسند گروہوں کے ساتھ رہا‘ مگر سرگرم کارکن یا صف اول کا نظریاتی بننے کی خواہش کبھی نہ تھی۔ لیکچرار ہوا، تو تعلق صرف فلسفے کی حد تک رہ گیا۔ قادری صاحب نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنی سیاسی جماعت کا ذکر چھیڑا۔ میرا ان کو مشورہ تھا کہ وہ کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں، انہیں علیحدہ سیاسی جماعت بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ ان کی خواہش اور کاوش علیحدہ مقام پیدا کرنے کی تھی۔ وہ کسی دوسرے کے سائے یا جھنڈے تلے رہ کر اپنے لیے بڑے کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ میں نے سیاست میں قدم رکھنے کے بارے میں بھی سوال اٹھائے کیونکہ جس طبقے سے ہم تعلق رکھتے ہیں‘ سیاست میں صرف جھنڈے لہرا کر اپنے اپنے دلعزیز سیاسی راہنمائوں کے حق میں نعرے ہی لگا سکتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کو اپنی مخلص اور دیرینہ خدمات کا صلہ اسمبلی کا رکن یا وزیر بن جانے سے بھی مل سکتا ہے‘ مگر ضمیر، دیانت اور آزادی کا سودا کرنے کے بعد۔ میرے نزدیک یہ گھاٹے کا سودا ہے جو کبھی نہیں کرنا چاہیے۔
امریکہ میں تعلیم ختم ہونے کو آئی اور ڈگری کے حصول میں جب ایک سال رہ گیا تو میرے دل میں بھی رگِ انقلاب پھڑک اٹھی کہ فوجی آمریت کے خلاف وطن واپس جا کر جمہوریت کی بحالی کے لئے کام کیا جائے۔ اپنے ایک محترم استاد کے ساتھ بات کرتے ہی یہ سیاسی بخار جو کہ موسمی نوعیت کا تھا‘ اتر گیا۔ پروفیسر سٹینلے اینڈرسن نے دو باتیں جو آج سے چالیس سال پہلے کہی تھیں وہ ہمیشہ میری زندگی میں ترتیب لانے اور اپنی سمت درست کرنے میں کام آئیں۔ ہر شخص کو وہی کام کرنا چاہیے جس کے لیے اس نے اپنے آپ کو تیار کیا ہے۔ استاد کو استاد ہی رہنا چاہیے۔ بہتر استاد بننا جدوجہد سے خالی نہیں، اسی سمت میں ہی سفر جاری رہنا چاہیے۔ صرف یکسوئی کے ساتھ ہی اپنے پیشے اور فن میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسرے ملک، وطن اور انسانیت کی خدمت سیاست سمیت ہر شعبے میں ممکن ہے، بشرطیکہ عوامی فلاح کا جذبہ اور وسائل، اور حلقۂ اثر موجود ہو۔ 
طاہرالقادری صاحب کو اپنی ابتدائی تشکیل میں شریف خاندان کا سہارا لینا پڑا۔ میری معلومات کے مطابق یہ خاندان اُنہیں اپنا پیر تصور کرتا تھا۔ عزت و احترام اور اعتماد عنایت کیا‘ وسائل بھی فراہم کیے‘ عملاً کندھوں پر بھی اٹھایا اور اُڑان بھرنے کا موقعہ فراہم کیا‘ مگر پھر حضرت صاحب کی سیاسی توپوں کا رخ شریف خاندان کی طرف ہو گیا۔ آج احساس ہوتا ہے کہ علامہ صاحب کو سیاست کے کھیل میں قدم نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ جوش، جذبہ، ولولہ، آرزوئوں کا طوفان اپنی جگہ، لیکن اس سیاسی ڈھانچے میں اُن کے لیے کوئی جگہ کبھی بھی نہیں تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved