پروفیسر نوشابہ صدیقی کی یہ کتاب خاکوں پر مشتمل ہے۔ مشاق احمد یوسفی کا یہ قول بھی شروع میں درج کیا گیا ہے کہ ''اگر کوئی شخص ایک بار پروفیسر ہو جائے تب وہ ساری عمر پروفیسر ہی رہتا ہے خواہ بعد میں وہ سمجھداری کی باتیں کیوں نہ کرنے لگے‘‘ اسے اکادمی بازیافت کراچی نے عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ چھاپا ہے۔ انتساب ابّا اور امّاں کے نام ہے۔ اندرون سرورق کی تحریر نثار اختر کے قلم سے ہے۔ جن مشاہیر کا خاکہ لکھا گیا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں: جمیل جالبی، حسن مثنیٰ ندوی، انجم اعظمی، ابراہیم جلیس، شفیع عقیل،جوش ملیح آبادی، حسنین کاظمی، مشتاق احمد یوسفی، عصمت چغتائی، سر سلطان آغا خاں، مختار مسعود، انور شعور، نجم الحسن رضوی اور دیگران۔ان میں سب سے دلچسپ مضمون/ انٹرویو مشتاق احمد یوسفی کا ہے جس میں سے چند اقتباسات پیش ہیں: اس سوال پر کہ بینک کا پہلا دن یاد ہے؟ فرمایا: ''جی ہاں روزِ اوّل کی طرح آج بھی حفظ ہے۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا۔ واسکٹ کی جیب میں نہایت قیمتی سونے کی گھڑی تھی جو ہماری پرسنیلٹی کے پس ماندہ حصوں سے جو سوٹ سے باہر نکلے تھے، قطعی لگا نہیں کھاتی تھی‘‘۔
''اسی دوران ہم نے صرف تین دن کی رخصت مانگی کہ میرے والد اخبار پڑھتے پڑھتے زمین پر لیٹ گئے۔ زمین نے اپنی امانت واپس لے لی تھی۔ تدفین میں شرکت کیلئے یہ تین دن کی چھٹی تین دن کی تنخواہ کی کٹوتی کے ساتھ ملی۔ یہ ہمارے محترم یعسوب الحسن غوری صاحب تھے جن کے بس میں کاٹنا لکھا تھا، مگر ایک تھے بیچارے اینڈرسن جنہوں نے اس وارننگ کے ساتھ یہ پیسے ہمیں واپس دلوا دیئے کہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں دہرایا جائے گا‘‘۔پیر الٰہی بخش کالونی کے چھوٹے سے کوارٹر میں ان کی فیملی دیا سلائی کی طرح ایک طرف سر کیے پڑی رہتی ، اور پھر بارش ایسی کہ یوسفی صاحب نے گھر کا حال یوں لکھا کہ ''جدھر دیکھو پانی ہی پانی۔ کمرے کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کیلئے چھتری درکار تھی۔ سوائے اپنی بیگم کی آنکھ کے کوئی چیز خشک نظر نہیں آئی۔جوتوں کا صرف ایک ہی جوڑا تھا جو دفتر سے واپسی پر بھیگ کر مخمل کی طرح ملائم ہو گیا تھا اور اسے مزید مخملیں ہونے سے بچانے کیلئے ہم نے اسے ٹوکری میں رکھ لیا تھا۔ پانی میں لُطف آیا بلکہ اس کی انگلی پکڑے بچپن بھی لوٹ آیا‘‘۔
''اکثر ہمارے گھر تین تین دن پانی نہیں آتا تھا۔ ہر طرف خشکی ہی نظر آتی۔ ایسے میں میری بیگم کی آنکھوں کے سوا کہیں پانی نظر نہ آتا۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا کہ پینے کے لیے بھی ہمیں تیمم ہی کرنا پڑتا‘‘۔ 1964ء میں میری خوشحالی کی زندگی کا جو آغاز ہوا، اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ جس انگریز جنرل منیجر نے 1950ء میں میرا انٹرویو لے کر مجھے بینک میں ملازم رکھا وہ اس وقت نشے میں دُھت تھا‘‘۔
اب نثار اختر صاحب کی تحریر ملاحظہ ہو:
''حیرت یہ ہے کہ خود معاشیات کی استاد ہونے کے باوجود آمدنی میں دلچسپی رکھنے کی بجائے خرچ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ بچت کی تھیوری پر قطعی یقین نہیں۔ ان کا اپنا نظریہ یہ ہے کہ روپیہ اپنی حیثیت میں کاغذ یا دھات کا حقیر سا ٹکڑا ہے۔ اسے اشیا کی شکل میں فوراً تبدیل ہو جانا چاہئے اور وہ اشیا کیا ہوں، کپڑے، کتابیں اور کراکری۔پروفیسر صاحب نے صحافت سے آغاز کیا تھا۔ تدریس میں زندگی گزاری اور اب اخیر میں پھر صحافت کی جانب آ گئی ہیں۔ سر سید احمد خاں کا رسالہ ''تہذیب الاخلاق‘‘ جو علی گڑھ سے سفر کرتا ہوا کراچی آ گیا ہے ''تہذیب‘‘ کے نام سے ہر ماہ نکلتا ہے، اس کی مدیر ہیں۔ شاعر کی بہن ، شاعر کی بیٹی، شاعر کی پوتی، شاعر کی پڑپوتی۔ آگے تک شجرۂ نسب کھنگالیے تو شاعری سے جان نہیں چھوٹے گی‘ لہٰذا شاعری زیادہ پڑھتی ہیں، مگر خود کو نثر کا پابند کیا ہوا ہے۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد ''کالج کی تدریس کے چالیس سال‘‘ میں گُم ہو جانے کا ارادہ ہے۔ اپنی کتاب پر کسی سے مقدمہ لکھوانا پسند نہیں اور تعارفی تقریب سے بھی گریز کرتی ہیں کہ دو گھنٹے چار پانچ مقررین کی تعریف سے بھر پور باتیں، بغیر منہ چھپائے سننا مشکل ترین کام ہے۔ یوں تو پروفیسر صاحبہ پر میں خود بھی ایک ضخیم کتاب لکھ سکتا ہوں، مگر یہ کام تو جان کی امان پانے کے بعد ہی ممکن ہے‘‘۔
پسِ سرورق مصنفہ کی تصویر ہے اور دیگر تصنیفات‘ جن میں صلیب کے زخم (ناول)، افکارِ حسن (مُرتبہ والد کی شاعری)، سرشام( خاکے، مضامین)، زندگی بھر کی بات (ناول) کلامِ اشرف، کمالِ حُسن (ترتیب و تدوین) دلِ شوریدہ (مُرتب) چشمِ نم (سفر نامہ) شامل ہیں۔ آخر میں ''چشمِ نم‘‘ پر ریاض الرحمن شیروانی کا تبصرہ شامل ہے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
تُو نہیں، تیری جگہ دیتے ہیں طعنہ تیرا
یاد ہے آج بھی لوگوں کو فسانہ تیرا
اب یہ بیگانگی اُس پر اثر انداز ہو کیا
جس نے دیکھا ہو محبّت کا زمانہ تیرا
بیٹھتے ہم بھی تھے کچھ خاص نمایاں ہو کر
اور خالی نہیں جاتا تھا نشانہ تیرا
ڈھونڈنے کا بھی تردّد نہیں کرنا پڑتا
ٹھور ہے اب بھی وہی اور ٹھکانہ تیرا
کوئی تعویذ ِتسّلی ،نہ ہمیں لکھ بھیجا
برگزیدہ ہے بہت یوں تو گھرانہ تیرا
دل پہ قائم تھی کبھی تیری حکومت، اور ہم
گاتے رہتے تھے شب و روز ترانہ تیرا
ہم کسی دن ترے مہمان کہاں جا ہوتے
ہمیں معلوم تھا خالی نہیں خانہ تیرا
دُھوم تھی جس کی سراسر تری نسبت سے یہاں
خوار اب پھرتا ہے شاعر وہ یگانہ تیرا
اُٹھ گیا جھاڑ کے دامن ہی شرافت سے ظفرؔ
اور کھُلا چھوڑ دیا اُس نے خزانہ تیرا
آج کامطلع:
عجب خرابہ ہے، دن ہے یہاں نہ رات ہماری
کہیں کہیں پہ جھلکتی ہیں باقیات ہماری