تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     21-09-2019

برطانیہ میں پانچ روز…(حصہ اوّل)

ادارۂ ''فیضانِ اسلام انٹرنیشنل‘‘ لندن/مانچسٹر کے بانی وسربراہ علامہ غلام ربانی افغانی کی دعوت پر پانچ روز کے لیے برطانیہ جانے کا موقع ملا ۔دورے کا مقصد 7ستمبر2019ء کو فیضانِ اسلام انٹرنیشنل لندن کی عالمی کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت تھی۔ اس کانفرنس کا موضوع ناموسِ رسالتﷺ ‘عالمی امن اور مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتِ حال تھی۔ کانفرنس کے دو سیشن تھے‘پہلا سیشن مقبوضہ کشمیر کے موضوع پر تھا‘ اس میں میرے ساتھ وزیر اعظم آزاد کشمیر جناب راجا فاروق حیدر‘ لارڈ نذیراحمد ‘ چند برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ‘ ملائیشیا‘ جمہوریہ کاسوووکے وفود‘ جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے عہدیداران اور برطانیہ کے سرکردہ علما شریک تھے۔یہ ایک بھرپور نمائندہ اجتماع تھا۔اس میں تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے سرپرستِ اعلیٰ علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب بھی شریک ہوئے ۔برطانیہ میں حضرت شاہ صاحب کا ایک مؤثر حلقہ ہے اور اُن سے شرفِ تلمُّذوارادت رکھنے والے کئی علما برطانیہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
میں نے اپنی گفتگو میں کہا: آپ اس پراپیگنڈے کا رد کیا کریں کہ پاکستان میں قادیانیوں کے لیے جینا دشوار کردیا گیا ہے ‘پاکستان میں ہندو ‘مسیحی ‘ سکھ ‘ پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ پرامن طریقے سے رہتے ہیں ‘محفوظ ومامون ہیں۔ غیر مسلموں کو ہمارا دین اور ہمارا آئین جان ومال اور آبرو کا تحفظ عطا کرتا ہے ‘ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ قادیانی بھی محفوظ ہیں ‘اُن سے اہلِ پاکستان کا یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ وہ دستورِ پاکستان میں طے کردہ اپنی حیثیت کو تسلیم کریں ۔ ہم ویزے پر برطانیہ اور مغربی ممالک میں آتے ہیںیا ہمارے وہ لوگ جویہاں کی شہریت حاصل کرچکے ہیں‘ ان پر یہاں کے آئین وقانون کی پابندی لازم ہوتی ہے‘ سو یہ مطالبہ عالمی معیارات کے مطابق ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں‘ مسیحیوں اورزیردست طبقات کے ساتھ جو ظالمانہ برتائو ہورہا ہے‘ وہ دنیا کے سامنے ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں موجودہ بحران 5اگست2019ء کو شروع ہوا‘ جب مودی سرکار نے بھارت کے دستور کے آرٹیکل 35A اور 370میں ریاستِ مقبوضہ جموں وکشمیر کودی گئی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا ‘لدّاخ کو ریاست کی عملداری سے خارج کر کے براہِ راست یونین کے کنٹرول میں دیدیا۔مذکورہ بالا دونوں آرٹیکلز کے تحت بھارتی دستور نے ریاستِ جموں وکشمیر کو جو خصوصی حیثیت دی تھی‘ اس کا خاتمہ کردیا۔ ان آرٹیکلز میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ آرٹیکل 238کے تحت پارلیمنٹ کی قانون سازی کا حق ریاست جموں وکشمیر پر لاگو نہیں ہوگا‘ریاست سے باہر کے لوگ ریاست میں جائداد خریدنے اور سرکاری عہدہ رکھنے کے مُجاز نہیں ہوں گے‘نیزریاستِ جموں وکشمیر کا قانونی شہری وہی ہوگا جو 14مئی1954ء کوریاست میںغیر منقولہ جائداد کا مالک تھا اور دس سال تک ریاست کا شہری رہاتھا۔اس کے معنی یہ ہیں کہ باہر سے ہندوئوں کی نقل مکانی کرکے آبادی کے تناسب کو بدلا نہیں جاسکے گا۔5اگست کویہ خصوصی حیثیت ختم کردی گئی ‘ اب بھارتی حکومت کو یہ موقع مل گیا ہے کہ باہر کے لوگوں کوجموں اور کشمیر میں آباد کر کے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردے‘اسے ڈیمو گرافی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ امر واضح رہے کہ جموں وکشمیر تنازع کے دو فریقوں‘ پاکستان اور تحریکِ حُرِّیت نے کبھی بھی آرٹیکل35Aاور370 تسلیم نہیں کیا‘کیونکہ 1948ء کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ آزادانہ استصوابِ رائے اورریفرنڈم کے ذریعے اپنے مستقل کا فیصلہ کریں کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں یا ایک آزاد خود مختار ریاست کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں‘ اصولی مطالبہ یہی ہے۔ بھارتی دستور کے مذکورہ بالا دو آرٹیکلز کو مِن وعَن تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اصل مطالبے سے تنزُّل کر کے بھارتی یونین میں امتیازی حیثیت سے رہنا قبول کیا جائے ‘تاہم وقتی طور پر اشک شوئی کے لیے یہ ایک عارضی تحفظ تھا جسے مودی سرکار نے 5اگست کو سلب کرلیا۔اسے صرف بھارت کے ہمنوا شیخ عبداللہ ‘ان کے فرزند فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ نے قبول کیا تھا‘اب وہ بھی تازہ اقدام کی وجہ سے بھارتی حکومت کے مخالف ہوچکے ہیں اور معتوب ہیں۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اگر کسی ممکنہ ثالثی یا دو طرفہ مذاکرات کے نتیجے میں بھارت اپنے 5اگست2019ء کے اقدام کو واپس بھی لیتا ہے ‘تو پاکستان اور تحریکِ حُرِّیت جموں وکشمیر کا اصولی مطالبہ باقی رہے گا اور وہ ہے :اقوامِ متحدہ کی 1948ء کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے‘ یعنی اہلِ کشمیر کو یہ حق دینا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی آزادانہ رائے سے کریں۔اس منزل کے حصول تک تقسیمِ ہند اور تشکیلِ پاکستان کا ایجنڈا نامکمل رہے گا۔
سرِدست صورتِ حال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کی حامل ریاستیں امریکا ‘برطانیہ‘ روس اور فرانس میں سے کسی نے بھی بھارت سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنی 5اگست کے اقدام کو واپس لے اورمقبوضہ جموں وکشمیر میں اس سے پہلے کی صورتِ حال بحال کرے‘چین نے ضرور احتجاج کیا ہے ‘لیکن لداخ کے حوالے سے وہ خود ایک متاثرہ فریق ہے ‘اس کا بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع ہے ‘ اس پر 1962ء میں سرحدی جنگ بھی ہوچکی ہے۔ عالمی سطح پر جو محدود حمایت ملی ہے ‘وہ حقوقِ انسانی‘تاریخ کے طویل ترین کرفیو اورمحاصرے ‘ بنیادی انسانی حقوق یعنی خوراک ‘علاج وادویہ کی فراہمی اور اطلاعات وروابط پر پابندی کے حوالے سے ہے۔ انٹرنیٹ پر جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے ادارے کے حوالے سے جو مشترکہ بیان جاری ہوا‘اس کا متن یہ ہے:
''اقوامِ متحدہ کے منشور ‘سیکورٹی کونسل کی قراردادوں ‘حقوقِ انسانی کے معیارات اور قانونِ بینَ الاقوام کے تحت عالمی برادری کوبھارت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے زیرِ انتظام جموں وکشمیر میں خاص طور پر زندگی ‘آزادی اور سلامتی کے حوالے سے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دے۔فوری طور پر طاقت کے استعمال بالخصوص چھرے دار بندوقوں کے استعمال کو روکے ‘طویل کرفیو اور اطلاعات کی فراہمی پر پابندی کو اٹھائے‘ حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوامِ متحدہ تحقیقاتی مشن قائم کرے ‘نیزہم یو این سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں وکشمیر کے پرامن حل کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔لیکن اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اورادارۂ حقوقِ انسانی اور دیگرذیلی اداروں کی قراردادوں کی حیثیت سفارشات کی سی ہے ‘اُن میں سے کسی کے پاس عمل درآمد کرانے کاکوئی اختیار نہیں ہے ۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل واحد ادارہ ہے ‘جسے تادیبی اور انضباطی فیصلے کرنے اور پابندیاں عائد کرنے کے اختیارات حاصل ہیں‘ جیساکہ افغانستان ‘عراق اور لیبیا وغیرہ کے حوالے سے ہوتا رہا ہے‘لیکن مقبوضہ جموں وکشمیر کے حوالے سے سلامتی کونسل بالکل غیر جانبدار ہے۔ 5اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کے بعد اس کا بند کمرے میں ایک اجلاس ہوا ‘لیکن اس کے حوالے سے کوئی قرارداد ‘فیصلہ یا مشترکہ بیان جاری نہیں ہوا‘ لہٰذا اس اجلاس کی حیثیت صرف علامتی ہے ۔
میں نے ''فیضانِ اسلام انٹرنیشنل‘‘ لندن کی کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک با اختیار فیکٹس فائنڈنگ مشن بھیجا جائے ‘جسے تحریکِ حُرِّیت جموں وکشمیر کے قائدین سمیت سب لوگوں سے رابطہ کرنے کی آزادی ہو ‘وہ یہ اعدادوشمار بھی جمع کرے کہ کتنے لوگ جیلوں میں ہیں ‘کتنے لوگ زخمی اور زیرِ علاج ہیں ‘ کتنے لوگ غائب کردیے گئے ہیںاورکتنے لوگ شہید ہوچکے ہیں‘نیز اُن کی فوری بنیادی انسانی ضروریات معلوم کر کے اُن کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے۔ عالمی امن کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا: امنِ عالَم انسانیت کی اجتماعی ضرورت ہے ‘ اس پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے ‘لیکن گزشتہ چند عشروں سے امن کے نام پر جو ظلم روا رکھا گیا ہے‘اس نے بے امنی اورفساد کو روکنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے اور اس کی بھاری قیمت وصول کی ہے ‘اس میں عورتوں ‘بچوں ‘بوڑھوں اور جوانوں سمیت لاکھوں بے قصور انسانوں کی اموات ‘ لاکھوں کی دربدری‘ لاکھوں کی دائمی معذور ی اور بسے بسائے تاریخی شہروں کی کھنڈرات میں تبدیلی ہے۔ 
یہ امر مسلّم ہے کہ ظلم کا بیج بوکر امن کی فصل نہیں کاٹی جاسکتی ‘اس سے بے امنی ‘فساد اور شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوگا اور ہورہا ہے ‘ اس کی بھاری قیمت امریکہ نے بھی ادا کی ہے اور پاکستان تو سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔آج افغانستان ‘شام ‘ لیبیا ‘ عراق اور یمن کی حالت ماضی سے بدتر ہے ۔مغربی ذرائع ابلاغ دکھارہے ہیں کہ داعش کے لوگوںکی ستر ہزار کی تعداد میں بیویاں‘ بیوائیں اور بچے انتہائی تکلیف دہ حالات میں رہ رہے ہیں اور ان کا انگ انگ ‘ رُواں رُواں ‘الغرض پورا وجود انتقام کی آگ میں جل رہا ہے‘واضح رہے کہ داعش دولتِ اسلامیہ عراق وشام کا مخفف ہے‘ انگریزی میں اسے ISISکہتے ہیںاور اب اس میں لیبیا کی شمولیت کے لیے Lکا اضافہ کردیا گیا ہے۔
میں نے کہا: زندگی ہر ایک کو عزیز ہے‘ ہر انسان اپنی زندگی فرحتوں اورراحتوں میں بسر کرنا چاہتا ہے‘ موت کو کوئی بھی خوشی سے گلے نہیں لگاتا‘ لیکن جب آپ سے جینے کا حق سلب کرلیں گے ‘ باعزت طور پر جینے کی آس کو ختم کردیں گے ‘تو اس کے پاس آخری چارۂ کار یہی رہ جاتا ہے کہ دو چار کو مار کر مرو۔اگرچہ یہ رویہ نہ کسی طور پر پسندیدہ ہے اورنہ اس کی حوصلہ افزائی اور تائید کی جاسکتی ہے‘لیکن ایسے جذبات کو خوبصورت الفاظ اور دلکش وعظ ونصیحت سے ختم نہیں کیا جاسکتا‘اس کے پیچھے آتشِ انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہوتے ہیں ‘ان کا مداوا ضروری ہے۔
میں نے کہا: ناموسِ رسالت مآب ﷺ کا تحفظ مسلمانوں کے عقیدے کی اساس ہے ‘اہلِ مغرب اور عالَم کفر کے لیے اس کی شدت کو سمجھنا دشوار ہے ‘کیونکہ برتر مادّی قوت ہونے کے سبب وہ پوری دنیا کو اپنے کلچر اور اپنی اقدار کے تابع دیکھنا چاہتے ہیں ‘ لہٰذا عقیدے کی نزاکتوں کے لیے ان کو قائل کرنا دشوار ہے‘ مگر انہیں باور کرانا چاہیے کہ اہانتِ رسول کا نتیجہ بے امنی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ‘ عام لوگوںکے لیے اپنے دینی جذبات پر قابو پانا دشوار ہوتا ہے ‘پس بہتر ہے کہ امنِ عالَم کے قیام کے لیے دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے پر پابندی لگائی جائے ‘ گزشتہ سال یورپین عدالت نے اسی بنیاد پر فیصلہ کیا جو قابلِ تحسین اقدام ہے۔(جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved