تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     10-05-2013

ووٹوں اور نشستوں کا فاصلہ

انتخابی مہم اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے، جب آپ یہ سطور پڑھیں گے، اس پر پابندی لگ چکی ہوگی۔ اب نہ کوئی جلسہ ہو سکتا ہے، نہ جلوس نکالا جا سکتا ہے۔ ایک دن بعد پاکستانی قوم ووٹ کا حق استعمال کرے گی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت کی جگہ دوسری منتخب حکومت یوں لے گی، جیسے کیلے کے چھلکوں میں سے کیلا برآمد ہو جاتا ہے۔ اگر پاکستان میں جمہوری عمل جاری رہتا تو ہم تیرہویں انتخابات کا مزہ چکھ چکے ہوتے۔ تعداد کے اعتبار سے تو اب بھی کوئی نقصان نہیں ہوا کہ 1970ء سے اب تک نو انتخابات کا لُطف اٹھایا جا چکاہے ۔ یہ پاکستانی کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہوئے تھے لیکن ان سے پہلے چار اسمبلیاں دیکھنے میں آچکی تھیں۔ ان کا حلقہ انتخاب البتہ مختلف تھا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی کو صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے منتخب کیا گیا۔ 1954ء میں اسے تحلیل کرنے کی جسارت کی گئی تو گورنر جنرل کو اس کا کوئی قانونی (یا اخلاقی) حق حاصل نہیں تھا۔ وہ خود کابینہ کی پیداوار تھا کہ اُسی کی سفارش پر ملکۂ برطانیہ نے اس کے تقرر کی منظوری دی تھی۔ اس کی حیثیت رسمی تھی۔ آزاد پاکستانی قوم کے جذبوں کی ترجمانی کا حق اُس کے ان نمائندوں کے پاس تھا جو پاکستان کے ’’فاؤنڈنگ فادرز‘‘ تھے‘ جنہیں قائداعظم کی قیادت میں براہ راست کام کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا اور جن کی ہمت اور کاوش ہی سے ایک نئے ملک کا قیام ممکن ہو سکا تھا… دنیا کی تاریخ کا یہ عجوبہ یہاں ظہور پذیر ہوا کہ گورنر جنرل نے مجلسِ دستور ساز کی تحلیل کا حکم جاری کر دیا۔ ملازم نے مالکان کو گھر سے نکال دیا کہ وہ اس کی دانست میں اپنے فرائض صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے تھے۔ اعلیٰ عدلیہ کو برطانوی تسلط کے دوران رٹ جاری کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ یہ حکومت کو روک سکتی تھی، نہ اسے کوئی کام کرنے کا حکم جاری کر سکتی تھی۔ آزاد ملک کی آزاد اسمبلی نے یہ حق عدلیہ کو عطا کیا تھا، اس کا استعمال بھی کیا جاتا رہا تھا، لیکن پاکستان کی فیڈرل کورٹ نے جس کی قیادت جسٹس محمد منیر کر رہے تھے، 1954ء میں اپنے اختیارات کی تجدید کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ دستور ساز اسمبلی نے اس کو‘ رِ ٹ جاری کرنے کا جو اختیار دیا تھا اس پر چونکہ گورنر جنرل کے توثیقی دستخط نہیں کرائے گئے تھے اس لئے یہ اختیار آئینی اور قانونی طور پر اسے تفویض ہی نہیں ہُوا۔ پس گورنر جنرل کے غیر آئینی اقدام کو ختم نہیں کیا جاسکتا… اس کے تحت دستوریہ تحلیل ہو چکی ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ دستور ساز اسمبلی چونکہ ’’ساورن‘‘،یعنی ’’مقتدر‘‘ ہوتی ہے، اس سے بالاتر کوئی ہوتا ہے نہ ہو سکتا ہے، اس لئے اس کے کسی فیصلے کو کسی شخص کے انگوٹھے کی ضرورت نہیں ہوتی۔گورنر جنرل تاج برطانیہ کا نمائندہ کہلاتا تھالیکن عملاًکابینہ کا ملازم تھا کہ تاجِ برطانیہ کابینہ کی مرضی کا پابند تھا۔دنیا کی تاریخ شاید ہی کوئی ایسی مثال پیش کر سکے جہاں عدلیہ نے اپنے اختیارات میں اضافہ قبول کرنے سے انکار کردیا ہو،خوئے غلامی اس کے اندر اتنی رچ بس گئی ہو کہ ایک غیر ملکی حکومت کے مصنوعی نمائندے کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو معراج سمجھ بیٹھی ہو…بہرحال ہماری تقدیر کو یونہی پھوٹنا تھا اور برطانوی حکومت کے ان کارندوں کے ہاتھوں پھوٹنا تھا،جو نظامِ عدل کے ذمہ دار قرار پائے تھے۔ پہلی اسمبلی تحلیل ہوئی تو دوسری اسمبلی کو پھر صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے چنا۔ ان کے انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہو چکے تھے، لیکن قومی اسمبلی کی فوری تشکیل کے لئے پرانا حلقہ انتخاب برقرار رکھنے کا حکم صادر کیا گیا…اس اسمبلی نے دستور بنایا، جس کے تحت عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا کہ مارشل لاء نے بساط پلٹ دی۔ فوجی سربراہ ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا فلسفہ پیش کیا۔مشرقی اور مغربی پاکستان سے بنیادی جمہوری(یعنی بلدیاتی) اداروں کو چلانے کے لئے چالیس چالیس ہزار افراد کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوا۔ان ارکان نے جنرل ایوب کو اعتماد کا ووٹ دے کر صدر بنا دیا، انہی نے اسمبلیوں کے ارکان غیر جماعتی بنیادوں پر منتخب کئے۔اس طرح دو بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب ممکن ہوا، تیسرے انتخابات کی آمد آمد تھی کہ احتجاجی تحریک نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کی راہ ہموار کردی۔ 56ء کے دستور نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے نام سے دو صوبے تشکیل دئیے تھے، دونوں صوبوں کے درمیان مساوی نیابت کا اصول بھی طے کیا تھا۔وفاقی سطح پر یک جماعتی مقننہ میں مشرقی اور مغربی پاکستان کو یکساں نمائندگی حاصل تھی۔ یحییٰ خان نے یہ دونوں اصول ختم کردیئے، ون یونٹ ٹوٹ گیا اور مساوی نیابت کے بجائے ’’ون مَین ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر نئی دستور ساز اسمبلی کی تشکیل کا اعلان کردیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے اہل سیاست اور اہل دانش کی بڑی تعداد نے یحییٰ کو سمجھانے کی کوشش کی ، قوم کو دستور سازی کی اُلجھن میں نہ ڈالے۔1956ء کے دستور کو بحال کرکے اس کے تحت انتخابات کرالے کہ ایوبی مارشل لاء نے اسی آئین کو غیر آئینی طور پر منسوخ کیا تھالیکن یہ بات یحییٰ خان اور اس کے ٹولے کی سمجھ میں نہ آئی۔ انتخابات اس طرح ہوئے کہ مشرقی پاکستان کی 162نشستوں میں سے 160عوامی لیگ نے جیت لیں، مغربی حصے میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے عددی برتری حاصل کرلی۔انتخابات نے ملک کو سیاسی طور پر تقسیم کردیا کہ مغربی حصے کی کسی جماعت کو مشرقی میں کوئی نمائندگی نہ ملی، نہ ہی یہاں کی نمائندہ عوامی لیگ کو مغربی حصے میں کوئی نشست حاصل ہو سکی۔جو جماعتیں دونوں حصوں میں وجود رکھتی تھیں، وہ دھڑام سے گر چکی تھیں۔یوں پہلے سیاسی تقسیم ہوئی اور بعد میں جغرافیائی علیحدگی کی نوبت آگئی۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے ڈالے گئے کل ووٹوں کا 75فیصد حاصل کیا تھا۔وہاں پولنگ کی شرح 56فیصد رہی تھی، گویا عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان کے کل ووٹوں کی قلیل تعداد کی نمائندگی حاصل تھی۔ اگر ہمارا انتخابی نظام متناسب نمائندگی کے تابع ہوتاتو عوامی لیگ کو زیادہ سے زیادہ 120نشستیں حاصل ہوتیں اس کے ہاتھ جوویٹو آ گیا تھا، وہ اس سے یکسر محروم رہتی۔ پیپلز پارٹی نے 18.6فیصد ووٹ حاصل کرکے 81نشستیں حاصل کرلی تھیں جبکہ کنونشن‘ کونسل اور قیوم مسلم لیگ کے مجموعی ووٹ 14 فیصد تھے اور ان کو اٹھارہ نشستیں مل پائی تھیں۔جمعیت العلمائے اسلام، جمعیت العلمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کے مجموعی ووٹ 14فیصد تھے، لیکن ان کے حصے میں بھی کل 18نشستیں آئی تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے الجھائو نے ملک کو تقسیم کردیا۔ اس کے بعد موجودہ پاکستان میں آٹھ انتخابات ہوچکے ہیں اور نواں سر پر ہے لیکن ہر انتخاب کے نتائج کا جائزہ لیں تو مختلف جماعتیں زیادہ ووٹ لے کر کم نشستیں اور کم ووٹ لے کر زیادہ نشستیں حاصل کرتی چلی آ رہی ہیں۔1977ء کے (متنازعہ) انتخابات میں پیپلزپارٹی 58.46 فیصد ووٹ لے کر 155جبکہ پی این اے 35.8فیصد ووٹ لے کر صرف 36نشستیں حاصل کر پائی تھی۔1988ء میں پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادی 39 فیصد ووٹ لے کر 94جبکہ مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی 30فیصد ووٹ لینے کے باوجود محض55نشستیں حاصل کر پائے۔1990ء میں پیپلزپارٹی کے اتحاد نے37فیصد ووٹ لے کر44 جبکہ مسلم لیگی اتحاد نے 37فیصد ووٹ لے کر104نشستیں حاصل کر لیں۔1993ء میں پیپلزپارٹی کے38فیصد ووٹ 88نشستوں پر قابض ہو گئے جبکہ پی ایم ایل این کو40فیصد ووٹ لینے کے باوجود73نشستیں مل سکیں۔ 1997ء میں پیپلزپارٹی کے22فیصد ووٹوں کو قومی اسمبلی میں15ارکان ملے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے41فیصد کے ساتھ 136 ارکان کو اسمبلی میں پہنچا دیا۔2008ء میں پیپلزپارٹی کے31فیصد ووٹ89نشستوں کے مالک بن گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے20فیصد نے اسے68نشستیں دے دیں جبکہ پی ایم ایل کیو کے23فیصد ووٹ صرف 42 نشستیں حاصل کر پائے۔ جو انتخاب اب سر پر کھڑا ہے اس کے حوالے سے بھی یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ووٹوں اور نشستوں کے درمیان بڑا فاصلہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ اس سوال پر اور اس کے اثرات پر بحث11مئی کے بعد ہو گی۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved