ہال طلبہ، طالبات اور اساتذہ کی بڑی تعداد کے سامنے چھوٹا پڑ رہا تھا۔ جنہیں نشستوں پر جگہ نہیں مل سکی تھی، وہ دیواروں کے ساتھ لگے کھڑے تھے۔ اپیل کی گئی کہ وہ فرش پر ''مسند نشیں‘‘ ہو جائیں تو بہت سوں نے بلا تکلف شفاف فرش پر چوکڑی جما لی۔ سابق اساتذہ اور بوڑھے لڑکے (اولڈ بوائز) بھی اپنے وجود کا احساس دِلا رہے تھے۔ کئی چہرے پہچان رہا تھا، لیکن کئی حافظے کی گرفت میں نہیں رہے تھے۔ ان کے چہرے پر اپنا پن اگرچہ صاف پڑھا جا سکتا تھا۔ ساہیوال کے بابائے صحافت فضل محمد بھی سٹک ٹیکتے ہوئے نظر آئے، مفتی نذیر کو تو مَیں نے بصد مشکل پہچانا۔ برسوں شہر میں جماعت اسلامی کے مدارالمہام رہے۔ جوانِ رعنا سر اکبر کی جگہ اب ایک بزرگ نے لے لی تھی، لیکن ماضی سے تعلق یکسر ختم نہیں ہوا تھا۔ سر قمر الزمان بھی موجود تھے۔ تقریریں شروع ہوئیں تو جوش و خروش بڑھ گیا... سٹیج پر میرے بائیں چوکس اور بیدار مغز پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد تشریف فرما تھے، تو دائیں قومی زبان تحریک کی جان فاطمہ قمر تھیں۔ شعبہ اُردو کے استاد ڈاکٹر ندیم اشرف نے سٹیج سنبھال لی تھی۔ ان کی نظامت نے ان اساتذہ کی یاد دِلا دی، جن کی باتوں میں گلوں کی خوشبو ہوا کرتی تھی۔ نپے تلے الفاظ میں وہ اپنے مہمانوں کو طلب کرتے چلے جا رہے تھے۔ قومی زبان تحریک اب ایک ملک گیر تنظیم بن چکی ہے، جگہ جگہ اس کی شاخیں قائم ہیں، اور اردو کو سرکاری زبان بنانے کے مطالبے میں تازہ جان پڑتی چلی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر سراج ساہیوال شاخ کے سرپرست ہیں، اور انہی کا اصرار مجھے یہاں کھینچ لایا تھا۔ انہوں نے سماں باندھا، مقامی صدر پروفیسر ریٹائرڈ ریاض حسین زیدی نے فصاحت کے دریا بہائے۔ پاک پتن سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ پروفیسر اکرم ناصر نے یہ شعر پڑھ کر ماحول کو گدگدا دیا؎
فصاحت کے بلاغت کے جو موتی رول سکتا ہو
میرا محبوب ایسا ہو جو اردو بول سکتا ہو
سابق رکن قومی اسمبلی انوارالحق رامے کہ جن کے بغیر ساہیوال کی سیاست کا ذکر ادھورا رہتا ہے، نے بھی اردو کے پلڑے میں پورا وزن ڈالا۔ فاطمہ قمر نے اپنے مخصوص دبنگ لہجے میں تقریر کی، اردو زبان کی اہمیت تاریخی حوالوں سے واضح کرتے ہوئے پُر زور مطالبہ کیا کہ عدالتی فیصلہ نافذ کیا جائے۔ اردو کے حوالے سے ستمبر کا مہینہ یوں اہم ہے کہ اسی مہینے کے دوران، چار سال پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے زیر قیادت سہ رکنی فل بنچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم جاری کیا تھا کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر اختیار کریں۔ عدالت نے لکھا تھا کہ دستور کی دفعہ251 کے تحت پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ 1973ء میں (مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے زیر قیادت) منظور ہونے والے دستور کے تحت15 سال کے اندر اندر اسے سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جانا تھا۔ 1988ء میں جب پندرہ سال پورے ہوئے تو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے اس معاملے میں مہلت یوں حاصل کر لی کہ مارشل لاء کا دورانیہ اس میں شمار نہ کیا جائے۔ 1988ء کو اب اکتیس سال گزر چکے، یعنی پندرہ سال کا وقفہ دو بار، دہرایا جا چکا۔ ہماری حکومتوں کی بے عملی (یا بد عملی) دیکھئے کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا معاملہ ہنوز معلق ہے۔ نہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم کو نظر انداز کرنے کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے، نہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کانوں پر جوں رینگی ہے۔
سٹیج سیکرٹری نے پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد کا نام پورے اعزاز و اہتمام سے پکارا، تو انہوں نے مختصر گوئی کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ چند الفاظ کے کوزے میں اپنے خیالات کو بند کر کے، میرے لیے راستہ چھوڑ گئے۔ غالب کا شعر ایسے خوب صورت تصرف کے ساتھ پڑھا کہ ہال تالیوں سے گونج اٹھا ؎
وہ آئیں گھر میں ''اپنے‘‘ خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی ''اُن کے‘‘ گھر کو دیکھتے ہیں
کم و بیش 55 سال بعد مَیں ایک بار پھر اس سٹیج پر کھڑا تھا، جہاں صدر انجمن طلبہ کے طور پر ایک سال تک میرا حق فائق سمجھا جاتا رہا تھا۔ زیر بحث موضوع پر میری بات مختصر تھی، عرض کیا کہ اب اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حق میں دلائل دینے یا قومی زبان کی اہمیت واضح کرنے کے لیے دُنیا بھر سے مثالیں اور حوالے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بات اس سے آگے بڑھ چکی ہے۔ ہمارے دستور سازوں نے یہ بات طے کر دی تھی کہ اردو اس ملک کی سرکاری زبان ہو گی۔ اس کے بارے میں دو آرا ہو سکتی ہیں، نہ ہمیں سننی چاہئیں۔ یہ ایک طے شدہ معاملہ ہے، سپریم کورٹ اس حوالے سے باقاعدہ حکم بھی جاری کر چکی ہے۔ اب تو نفاذ کا چیلنج ہے،جو بہر صورت قبول کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران بار بار یہ بات کہتے رہے ہیں کہ قومی زبان کو ہر سطح پر اختیار کرنا ہو گا۔ ان کا یہ استدلال رہا ہے کہ اپنی زبان اپنائے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ برائون صاحبان سے نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ اب جبکہ عنانِ اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے، انہیں عمل کر کے دکھانا ہے۔ اپنے دانشوروں، استادوں اور سیاست کاروں سے میری گزارش یہی تھی کہ قومی زبان کی افادیت اور اہمیت پر گفتگو کرنے کے بجائے اس کے نفاذ پر ساری توجہ مرکوز کر دی جائے۔ پورا زور لگا دیا جائے اور اس کو منوا کر دم لیا جائے۔
55 سال پہلے کے مناظر بھی میری نگاہوں کے سامنے تیر رہے تھے۔ جب اسی عظیم الشان درس گاہ... گورنمنٹ (پوسٹ گریجوایٹ) کالج ساہیوال... کے اسی سٹیج پر مَیں نے فی البدیہہ تقریروں کا مقابلہ جیت کر صدارت کا انتخاب لڑنے کے لئے اہلیت کا پروانہ حاصل کیا تھا۔ اس کالج میں ''پوسٹ گریجوایٹ‘‘ کا اضافہ بہت بعد کا ہے، لیکن اس وقت بھی وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور ایمرسن کالج ملتان کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت ممتاز رکھتا تھا۔ اب تو تعداد بہت بڑھ چکی اور طالبات پر بھی اس کے دروازے کھل چکے، لیکن اپنی شاندار عمارت اور وسیع سبزہ زاروں نے ابتدا ہی میں اسے یونیورسٹی کی سی آن بان عطا کر رکھی تھی۔ برسوں پہلے، یہاں انجمن طلبہ کے انتخابات ہر سال باقاعدہ ہوتے تھے، صدارت اور جنرل سیکرٹری شپ کے امیدوار کو تقریری مقابلے سے گزرنا پڑتا تھا۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں الگ الگ تقریر کی جاتی۔ کسی ایک زبان میں مطلوبہ نمبر حاصل نہ کرنے والا انتخاب میں حصہ نہ لے پاتا۔ جب دوستوں نے مجھے امیدوار بنایا تو تقریری مقابلے میں بڑے بڑے جغادری آئوٹ ہو گئے۔ صدارت کے لئے میرے علاوہ ایک اور طالب علم میدان میں رہ گئے۔ وہ بڑے خوبصورت شعر کہتے تھے۔ ان کی شناخت اسی حوالے سے تھی، ان کے انداز و اطوار بھی شاعرانہ تھے، ان کے مقابلے میں ووٹ مجھے پڑ گئے۔ مختصر سی انتخابی مہم نے صدر بنا دیا۔ یہ سال فیلڈ مارشل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی معرکے کا سال تھا۔ طلبہ کے درمیان بھی تقسیم تھی، برادران سجاد میر اور کرنل (ریٹائرڈ) قسور نصیر کے ساتھ مل کر محترمہ کے حق میں بھرپور مہم چلائی گئی، لیکن اس کی تفصیلات پھر کبھی۔ پچپن سال بعد سٹیج پر کھڑے میں ماضی کو اپنے سامنے تیرتے ہوئے دیکھ رہا تھا، سب کچھ وہیں تھا، لیکن سب کچھ وہ نہیں تھا۔ پرنسپل، اساتذہ، طلبہ، سب نئے تھے لیکن عمارت، سبزہ زار، خوشبو دار ہوا وہیںکے وہیں تھے ؎
اٹھے بادہ کش ہزاروں ہوا مے کدہ نہ خالی
وہی رنگ بزم کے ہیں، وہی روز جام چھلکے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)