تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-09-2019

سرخیاں‘ متن ‘درستی اور رفعت ناہید

حکومت 15فیصد مجھے دے کر باقی خود رکھ لے: خورشید شاہ
سابق قائد حزب اختلاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''حکومت 500ارب میں سے 15فیصد مجھے دے دے اور باقی خود رکھ لے‘‘ کیونکہ یہ بھی اتنا ہوگا کہ عمر بھر کے لیے کافی ہے‘ ورنہ بصورت ِدیگر تو سارے پر ہی قبضہ جما لے گی۔ اس لیے اس محاورے کے مطابق کہ سارا دھن جاتا دیکھیے‘ آدھا دیجیے بانٹ‘ بلکہ میں تو آدھے سے بھی کم پر راضی ہو رہا ہوں اور اس طرح ایک اور محاورے کے مطابق ‘وہ اپنی بھی جان چھڑا لے اور میری بھی چھوڑ دے‘ جبکہ میرے فرنٹ مینوں کو بھی یہی تناسب سازگار رہے گا اور چونکہ انہوں نے ضمانتیں بھی کروا لی ہیں‘ اس لیے یہ افہام و تفہیم ان کے لیے اور بھی آسان رہے گی اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ گرفتاری سے پہلے میں ہٹا کٹا تھا‘ لیکن گرفتار ہوتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو گئیں اور دیگر اعضا بھی بیمار ہو گئے‘ یہ انسانی جسم بھی اللہ نے خوب بنایا ہے ‘جس کی مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی۔ آپ اگلے روز سکھر جاتے ہوئے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
فضل الرحمن وزرا کالونی کے گھر کیلئے لاک ڈاؤن نہ کریں: فردوس عاشق
وفاقی مشیر برائے صحت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''فضل الرحمن وزرا کالونی کے گھر کیلئے لاک ڈاؤن نہ کریں‘‘ بلکہ اس کے لئے درخواست دے دیں اور کوئی چھوٹی موٹی سفارش بھی کروا لیں تو یہ گھر انہیں آسانی سے مل سکتا ہے‘ بس ہمارے پانچ بندوں میں سے کسی ایک کی سفارش کافی ہوگی‘ جنہیں مخالفین پانچ گینگ کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ کیونکہ ان کے ایک اشارے پر بڑے سے بڑا رول بھی ری ٹیک کروایا جا سکتا ہے‘ جبکہ سارا ملک انہی کے سبب سے چل رہا ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا‘ بلکہ اگر سچ پوچھیں تو حکومت کا سارا بوجھ بھی انہی کے مضبوط کندھوں پر ہے‘ جبکہ ہمارے وزیراعظم صرف این آر او نہ دینے کے اعلانات میں مصروف رہتے ہیں اور حیرت ہے کہ انہوں نے سعودیہ کے دورے کے دوران یہ بات کیوں نہیں کی؟ شاید ان کی یادداشت میں کوئی مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
جلد پی ٹی آئی کا فارورڈ بلاک سامنے آنے والا ہے: حسن مرتضیٰ 
پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا فاورڈ بلاک سامنے آنے والا ہے‘‘ اور ہم جو اپنی پارٹی میں فارورڈ بلاک کی آمد سے پریشان تھے‘ اب کافی مطمئن ہو گئے ہیں‘ کیونکہ ان کا کیا اُن کے آگے آ گیا ہے اور محاورے کے مطابق‘ جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا ہے ‘خود اسی میں گرتا ہے‘ جبکہ ہمیں تو گڑھوں میں گرنے کی عادت ہی پڑی ہوئی ہے‘ کیونکہ کراچی کی زیادہ تر سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور ان کیلئے جو فنڈز مختص تھے‘ وہ دیگر ضروریات پر خرچ ہو چکے ہیں اور اسی پاداش میں حکومت یکے بعد دیگر ‘ان کیخلاف انتقامی کارروائی بھی کر رہی ہے‘ جبکہ قائم خانی صاحب کے گھر سے جو نوادرات برآمد ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر تو سب کی آنکھیں خیرہ ہو گئی ہیں ۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
مجاہد بریلوی صاحب نے اپنے گزشتہ روزوالے کالم میں معروف شاعر جناب منیر نیازی کا ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے: ؎
شباب ختم ہوا اور حساب ختم ہوا
کتاب زیست کا ایک اور باب ختم ہوا
جبکہ پہلا مصرعہ اس طرح سے ہے : ع
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ دوسرے مصرعے میں ''کتاب زیست‘‘ کی بجائے ''کتاب عمر‘‘ ہے‘ جبکہ اصل شعر یوں ہے:
کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
ایم ابراہیم خان نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح کیا ہے: ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ ایں و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں
پہلے مصرعے میں ''ایں و آں‘‘ کی بجائے ''این و آں‘‘ ہے‘ کیونکہ فارسی زبان میں جس نون غنہ کے بعد کا لفظ الف سے شروع ہوتا ہے وہاں ''ن‘‘ کا اعلان لازمی ہو جاتا ہے‘ مثلاً ''ایں است‘‘ کو ''این است‘‘ اور ''آں است‘‘ کو ''آن است‘‘ پڑھا اور لکھا جائے گا‘ جبکہ آخر میں ''ہ‘‘ بھی لگا سکتے ہیں‘ مثلاً ''آںہست‘‘ اور ''ایں ہست‘‘ ۔
اور اب آخر میں رفعت ناہید کی یہ غزل:
ساونوں کے دن نہیں تھے بارشیں مگر ہوئیں
کہیں ذرا ذرا ہوئیں کہیں پہ ٹوٹ کر ہوئیں
گھٹا اٹھی تو دیر تک مکان بھیگتا رہا
جھاڑیاں گلاب کی مہک سے تر بتر رہیں
پو پھٹی تو صحن میں ہر ایک سمت پھول تھے
شبوں کی گل نگاریاں یہیں پہ تا سحر ہوئیں
ڈاکیہ پڑوس میں تمہارا خط گرا گیا
ندامتیں تمہیں خبر نہیں کہ کس قدر ہوئیں
شکایتیں جو تم کو ہیں وہ ہم سے ہیں‘ زہے نصیب
مگر یہ کج ادائیاں اُدھر نہیں اِدھر ہوئیں
چاندنی میں کھڑکیوں کے سارے راز کھل گئے
سازشیں ہواؤں کی ہمارے بام پر ہوئیں
خنا کی‘ پھول ساڑھیوں کی‘ چوڑیوں کی محفلیں
کبھی تو باغ میں‘ کبھی سہیلیوں کے گھر ہوئیں
آج کا مطلع
ہمارے ساتھ وہ مجبور سے لگے ہوئے تھے
قریب سے نہ سہی‘ دُور سے لگے ہوئے تھے

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved