تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-05-2013

شوکت خانم ہسپتال میں

ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔ استحکام امن سے حاصل ہوتا ہے‘ مزید یہ ہے کہ جہاں انصاف نہ ہو‘ امن وہاں نہیں ہوتا۔ فی الحال تو شہباز شریف کا شور شرابہ ہے اور شعبدہ بازی‘ باقی 11 مئی کے بعد! عجیب بات ہے‘ میں نے سوچا: جس عمارت کے مکینوں سے آئے دن واسطہ رہتا ہے‘ اسی کی راہداریوں سے میں بے خبر ہوں‘ شوکت خانم ہسپتال۔ سفارش تو یہاں چلتی نہیں۔ مسرور لودھی کا خدا بھلا کرے۔ معلومات اور معالجوں سے رابطے میں ہمیشہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ خوش گفتاری اور مستعدی کا۔ ڈاکٹر خالد نواز کو ڈھونڈ رہا تھا کہ شاید ان کی مدد سے‘ کپتان کے کمرے تک پہنچوں۔ اب تک کی اطلاعات متضاد اور مختلف تھیں‘ حادثے کی نوعیت اور صحت‘ دونوں کے بارے میں۔ اچانک انہیں سامنے پایا۔ تلاش کرتے ہوئے وہ خود میرے پاس آ پہنچے تھے۔ طارق چودھری اور اعجاز چودھری ان کے دائیں بائیں۔ ڈاکٹر ایک شگفتہ مزاج آدمی ہے۔ میرا ہم سِن مگر وہی جوانی کے تیور‘ وہی سادگی‘ وہی بے ساختگی۔ گردوپیش کے گنوارپن سے بے نیاز‘ اپنے من کی دنیا میں زندگی کرنے والا بشّاش معالج۔ ’’اسی بہانے تم سے ملاقات ہو گئی‘‘۔ اس نے کہا۔ دل پر چوٹ لگی‘ اس کی بات نہیں‘ اس خیال سے کہ مجھے یہاں آتے رہنا چاہیے۔ مصروفیات اپنی جگہ‘ مگر یہ شفاخانہ؟ مگر ماں بیٹے کی محبت اور مجروح آدمیت کے لیے ایثار کی یہ عظیم الشان علامت؟ شاعر نے تاج محل کو دیکھا تو یہ کہا: یہ چمن زار‘ یہ جمنا کا کنارہ‘ یہ محل یہ منقش در و دیوار‘ یہ محراب‘ یہ طاق اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق تاج محل ایک کارنامہ ہے یا نہیں۔ غریبوں کی محبت کا مذاق اڑانے کا ارادہ بادشاہ نہ رکھتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بارہ بچوں کی ماں ممتاز محل دنیا سے اٹھی تو سلطان کئی دن کمرے میں بند رہا۔ باہر نکلا تو اس کے بال سفید تر تھے۔ مان لیجیے کہ محض حکایت ہے۔ اس لیے بھی مان لیجیے کہ احساس کمتری کے مارے دانشور‘ مسلمان بادشاہوں کے بارے میں کسی بھی حسنِ ظن کو گناہ سمجھتے ہیں مگر تاج محل؟ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے۔ داستان دلوں میں گداز بوتی رہے گی۔ شوکت خانم ہسپتال اس سے چھوٹا کارنامہ ہرگز نہیں۔ اس کے حریف عمران خان کو جب غیر سنجیدہ اور ناتجربہ کار کہتے ہیں تو کیا وہ سفید جھوٹ نہیں بولتے؟ اپنے والد کی سہسرام والی جاگیر کا نظم و نسق بہتر بنانے اور چند چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں شرکت کے سوا شیر شاہ سوری کا تجربہ کیا اور کتنا تھا؟ برصغیر کی تاریخ کے بہترین حکمران کا۔ منتظم یکسو‘ ضابطہ پسند اور اخلاقی جرأت کا حامل ہوتا ہے مفکر اور فلسفی نہیں۔ فرق کا ادراک کرنا ہو تو کھرب پتی شریف خاندان اور عمران خان کے ٹیکس گوشواروں کے علاوہ‘ اتفاق ہسپتال اور شوکت خانم ہسپتال کو دیکھیے۔ ان کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں کو دیکھیے۔ اتفاق گروپ کے سکول اور کالج میں خوش حال خاندانوں کے بیٹے بیٹیاں اور نمل یونیورسٹی میں افتادگانِ خاک کے فرزند تعلیم پاتے ہیں۔ ایک میں ہزاروں روپے ماہوار فیس‘ دوسرے میں کھانا‘ رہائش اور لباس بھی مفت۔ اعلیٰ کو ادنیٰ اور ادنیٰ کو اعلیٰ قرار دینے والے وقائع نگار۔ اقبالؔ نے کہا تھا: تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر آخری بار میں کب یہاں آیا تھا؟ پرویز مشرف کی پولیس عمران خان کو ڈھونڈ رہی تھی۔ پانچ برس‘ میرے خدا‘ پانچ برس بیت گئے۔ قرآن کریم کہتا ہے: آدمی سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں کتنے دن وہ رہا۔ جواب ہوگا: ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ۔ جن نادرِ روزگار ہستیوں سے سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے فیض پایا‘ ان میں سے ایک نے کہا تھا: یہ دنیا ایک دن کی ہے اور ہم نے اس کا روزہ رکھ لیا۔ اہلِ صفا کے امام نے اپنی کتاب ’’کشف المحجوب ‘‘میں ان کا یہ قول درج کیا ہے۔ ع مرقدِ او پیر سنجر را حرم خواجہ معین الدین چشتیؒ نے کہا تھا: جس کا کوئی مرشد نہیں‘ یہ کتاب اس کی رہنما ہے۔ اپنے زمانے میں ہم نے اس کی ایک عجیب کرامت دیکھی ہے۔ درویش کا کہنا یہ ہے کہ نگر نگر وہ ڈھونڈتے رہے مگر کوئی کامل نہ ملا۔ قرآن پڑھتے رہے‘ آٹھ برس تک۔ سیرت پڑھتے رہے‘ ایک زمانے تک‘ پھر اس کتاب میں جی لگایا (تو راہ سلوک کے چراغ ہو گئے)۔ پوچھا تھا: کتنی بار یہ کتاب آپ نے پڑھی ہے: ارشاد ہوا پڑھی نہیں‘ مجھ پر بیت گئی ہے۔ راوی کا پل پار کر رہا تھا‘ جب حادثے کی خبر ملی۔ بے بسی کا ایک عجیب احساس‘ کچھ حرف دعا کے‘ کچھ آنسو۔ کیا کر سکتا ہے‘ آدمی کیا کر سکتا ہے؟ حادثے سے ہفتہ بھر پہلے فوجی افسر سے میں نے کہا تھا: آپ جانتے ہیں کہ اسے خطرہ ہے (اور کچھ دوسرے لیڈروں کو) توجہ فرمایئے۔ نیک طینت‘ ضابطہ پسند آدمی۔ کہا: وزارتِ داخلہ سے انہیں رابطہ کرنا چاہیے۔ باقیوں کے لیے بھی اسی نے بندوبست کیا ہے۔ ڈاکٹر خالد نواز نے تفصیل بیان کی۔ ریڑھ کی ہڈی کے اوپر والے تین چار مہروں پر چوٹ ہے لیکن اعصاب (Nerves)محفوظ رہے۔ ذہنی اور نفسیاتی طور پر وہ پوری طرح ٹھیک ہے مگر آرام کرنا ہوگا۔ چوٹ کا علاج اسی طرح کیا جاتا ہے۔ حکیم رضوان صبح سے فون کر رہے ہیں کہ مالش کی ایک دوا بتایں۔ ڈاکٹر رفیق صاحب سے رابطہ کرنا چاہیے اور حکیم منصور العزیز سے بھی۔ ہومیوپیتھک دوا اندمال کی رفتار بڑھا سکتی ہے اور جڑی بوٹیاں بھی۔ ذہن اس کے بعد کام کرنے لگا۔ ایسی بھی کیا بے بسی؟ چارہ گر چاہے تو چارہ گری کے ہزار نسخے ہیں۔ ’’اگر اللہ نہ چاہے تو تم چاہ بھی نہیں سکتے‘‘ بے قرار اور بے تاب وہ آدمی بھاگا جا رہا تھا کہ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے اسے روکا۔ اس کا بھائی بہت بیمار تھا۔ فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بولا: یا علیؓ! ایسے میں بھی آپ کو مذاق سوجھا ہے۔ ارشاد کیا: اللہ سے دعا کرو ’’یا حلیم یا کریم اشفع فلاں بن فلاں‘‘۔ ظاہر ہے کہ سرکارؐ کا فرمان تھا۔ عمران خان کے لیے دعا یہ ہوگی۔ یا حلیم یا کریم اشفع عمران بن اکرام اللہ نیازی۔ خود اسے چالیس بار روزانہ آیت کریمہ پڑھنی چاہیے۔ آنجنابؐ کا ارشاد ہے کہ جو مریض پڑھے گا‘ جلد وہ صحت مند ہوگا‘ ورنہ یہی پڑھتا ہوا‘ جنت میں چلا جائے گا۔ ’’لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘۔ گولڈی نے کہا: تم لاہور میں ہو اور ہسپتال نہیں آئے۔ بتایا کہ ابھی لوٹ کر آیا ہوں۔ ڈاکٹر خالد نواز نے کہا: فوجی افسروں نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ ہسپتال کی اس منزل میں اب کوئی دوسرا مریض نہیں۔ متعلق معالجوں کے سوا اب کوئی دوسرا اس کمرے میں جا نہیں جا سکتا۔ ’’لو‘اس سے بات کرو‘‘۔ ایک ذرا سا وقفہ‘ رابطہ ٹوٹ گیا۔ اتنظار کرتا رہا‘ دوبارہ فون کیا بولا: شیو کی جا رہی ہے‘ اسے خطاب کرنا ہے۔ ہاں! لوگوں کے سامنے‘ وہ اپنے زخم لے کر نہیں جانا چاہتا۔ اپنے درد کی حکایت وہ کم ہی کہتا ہے۔ احساس کمتری اور خود ترحمی کے مارے معاشرے کا ایک آزاد انسان۔ ایک بار پھر فون کیا: اب وہ سو رہا تھا۔ نئی زندگی اسے ملی ہے مگر اطلاع یہ ہے کہ خطرہ برقرار ہے۔ دہشت گردی معاشرے کی رگوں میں رواں ہے۔ افسوس کہ بہت سے لوگوں کو سنگینی کا ادراک ہی نہیں۔ افغان مسلمانوں کا قتل عام کرنے اور پاکستان کو محتاج‘ مفلس اور منحصر بنانے پر تُلے انکل سام سے نفرت اپنی جگہ مگر دہشت گردی کا کیا جواز؟ بے گناہوں کے قتل کا؟ یہ خیال بھی آیا کہ قبائلی علاقوں میں اس کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے لیکن اس کے امیدوار انتخابی مہم بھی چلا نہیں سکتے‘ صرف مولانا فضل الرحمن کے۔ ہسپتال سے واپس آتے ہوئے اعجاز چودھری سے شہر کا حال پوچھا۔ بتایا کہ ضلع لاہور کی تیرہ میں سے آٹھ نشستوں پر تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔ برتری تو اب اس کی پنجاب اور سرحد کے اکثر اضلاع میں ہے مگر کیا وہ متشّکل ہوگی؟ یہ برابر کا میدان ہرگز نہیں۔ جس روز عمران خان کو حادثہ پیش آیا‘ شہباز شریف چنیوٹ گئے۔ شہر کو جانے والے راستے مسافروں کے لیے بند کر دیے گئے۔ پنجاب پہ اب بھی ان کی حکمرانی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر زرداری صاحب ہر ماہ 70 لاکھ خاندانوں‘ ساڑھے تین کروڑ افراد کو ایک ہزار روپے ماہوار رشوت دیتے رہے۔ پولیس ان کی‘ الیکشن کمیشن ان کا‘ پولنگ کے عملے میں رسوخ ان دونوں کا‘ دھاندلی کا تجربہ انہیں خوب ہے۔ تحریک انصاف 100 سیٹیں لے سکے تو دراصل یہ 200ہوں گی اور اگر 50تو 100 کے برابر۔ انکل سام اور عربوں کے بعد اب ایک پڑوسی ملک بھی شریف خاندان کی مدد کو آ پہنچا۔ وقائع نگار تحقیق فرمالیں۔ ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔ استحکام امن سے حاصل ہوتا ہے‘ مزید یہ ہے کہ جہاں انصاف نہ ہو‘ امن وہاں نہیں ہوتا۔ فی الحال تو شہباز شریف کا شور شرابہ ہے اور شعبدہ بازی‘ باقی 11 مئی کے بعد!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved