دو ماہ قبل جب دو بچے لاپتہ ہوئے ‘تو ان کے والدین اپنے ہاتھوں میں درخواستیں لیے تھانہ چونیاں میں آئے روز دھکے کھاتے رہے‘ لیکن کسی نے ان کی شنوائی نہ کی۔ تھک ہار کر وہ بیٹھ گئے‘ لیکن اسی محلے کے امام مسجد کا جب تیسرا بچہ غائب ہوا تو پھر محلے کے لوگوں نے مل کر چونیاں تھانے کا گھیرائو کر لیا اور شہر کے دوسرے لوگ بھی ان سے مل گئے اور جیسے ہی سڑکیں بند ہوئیں تو یہ خبر میڈیا کی شہ سرخی بننے سے وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ اور آئی جی تک ‘سب کو ہوش آیا‘ لیکن انہیں کسی نے یہ خبر نہ جانے کیوں نہیں دی کہ چونیاں کے علا وہ اسی ضلع قصور کے کھڈیاں تھانہ کی حدود ٹبہ نینواں کا دس سالہ عبد الرحمن جنسی زیا دتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا جا چکا۔ جھگیاں کلاں کا صابر اختر‘ باغ سنگھ والا کا دس سالہ محمد عدیل‘ بستی غوث صابری کھڈیاں کا حافظ قرآن محمد بلال‘ ساندہ چستانہ کا احمد شان دو ماہ سے غائب ہیں۔ کیا ان بچوں کیلئے وزیر اعلیٰ ہائوس کا گھیرائو کیا جائے یا آئی جی کے دفتر کے باہر دھرنے دیئے جائیں یا پھر ان پر مختلف ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگرامز ہوں گے‘ تو کچھ سوچا جائے گا۔آپ نے کبھی سوچا کہ ان دس بچوں کے ماں باپ نہ تو جی سکتے اور نہ ہی مر سکتے ہیں۔ قصور کی بستی چراغ شاہ سے لانس نائیک کا پانچ سالہ بیٹا محمد فائق کئی ماہ سے لاپتہ ہے۔ کوئی اس کی تلاش کی جانب دھیان ہی نہیں دے رہا؟
غلہ منڈی ‘ کرم آباد محلہ اور دربار شیخ علم دین اور رانا ٹائون چونیاں سے ایک ایک بچہ‘ جبکہ محلہ غوثیہ آباد چونیاں سے تین بچے اغوا ہو چکے ہیں اور ان میں سے کسی اک ایک بھی سراغ نہیں مل رہا۔ ایک بات تو طے ہے کہ چونیاں کے بچوں کا وحشی قاتل ان بچوں کو دن کی روشنی میں مٹی کے ان ٹیلوں کی طرف زندہ یا مردہ حالت میں لے کر نہیں آیا ہو گا‘ کیونکہ ادھر آتے ہوئے اسے ایک نہیں‘ کئی دیکھنے والے مل سکتے تھے‘ اس لئے فرض کر لیتے ہیں کہ اندھیرا ہونے کے بعدقاتل ان بچوں کو زندہ یا مردہ حالت میں یہاں لایا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو اس شخص کی عمر کسی صورت بھی پچیس سال سے کم نہیں۔ اگر قاتل اس سے کم عمر کا ہے تو اس کی جسمانی ساخت مضبوط ہو گی۔ چونیاں شہر سے حجرہ شاہ مقیم کی طرف جانے والا راستہ دن کے وقت بہت مصروف رہتا ہے‘ کیونکہ حجرہ شاہ مقیم کی طرف اور چونیاں سے حجرہ روڈ کے ارد گرد کے دیہات کی طرف آنے جانے والی تمام ٹریفک یہاں سے گزرتی رہتی ہے۔
غائب ہونے والے آٹھ بچون میں تین بچوں کا تعلق بستی غوثیہ آباد سے بتایا جاتا ہے ۔ان کا محلہ ایک‘ لیکن گلیاں مختلف بتائی جاتی ہیں ۔چونیاں کوئی بہت بڑا شہر نہیں‘ اس لیے ہر محلے اور گلی کے لوگ ایک دوسرے کو جاننے کی وجہ سے چلتے پھرتے اور آتے جاتے ہوئے کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔ مقامی پولیس کو چاہیے تھا کہ پہلا بچہ لاپتہ ہونے پر اس کے لواحقین کی درخواست ملتے ہی اس کے سکول‘ گلی اور محلے کے لڑکوں اور بچوں سے جو ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے‘ پوچھ گچھ شروع کر دی جاتی اور ساتھ ہی اس کی برادری کے اس سے زیادہ عمر کے لڑکوں‘ جن کے گھروں میں اس کا آنا جانا یا باہر جا کر کھیلناتھا‘ ان سے بھی پوچھا جاتا اور اس میں تو کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ بچے اپنے قاتل کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے‘ کیونکہ قاتل نے ان ٹیلوں میں بچوں کو پھینکنے یا دفن کرنے کے بعد مختلف اوقات میں ایک نہیں‘ بلکہ متعدد مرتبہ اس جگہ کے چکر لگائے ہوں گے‘ اس لیے اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے پولیس کو کوشش کرنی چاہیے تھی کہ رات کو ویران ہو جانے والی اس جگہ کے ارد گرد اپنے مخبروں کو تعینات کیا جاتا اور مشکوک حالت میں یہاںگھومنے اور دیکھے جانے والے شخص کی شکل و صورت‘ قد کاٹھ اور عمر کا بہت آسانی سے پتا چلایا جا سکتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بد نصیب پھولوں جیسے بچے‘ قاتل کے ہاتھ اچانک آئے یا وہ پہلے سے ہی ان کے قریب رہ رہا تھا؟ اگر ایسا ہے تو کسی نہ کسی نے ان بچوں سے اسے بات چیت کرتے ضرور دیکھا ہو گا۔ گھر کے قریب گلی محلے یا ان کے کھیلنے کی جگہ کے قریب کی چھوٹی بڑی دکانیں ‘جہاں سے والدین فوری طور پر ضرورت کی اشیاء منگوانے کیلئے بھیجا کرتے تھے یا یہ بچے خود ایسی دکانوں سے گولیاں ‘ٹافیاں وغیرہ خریدتے تھے‘ ان پر پولیس کو نظر رکھنی چاہیے تھی۔ ان کھوکھوں اور دکانداروں کے کردار کو جانچنا چاہیے تھا۔ ان بچوں کی گمشدگی کی باری باری اطلاع ملنے پر ایسے اشخاص ‘جو بچوں کے والدین اور بھائیوں سے بڑھ چڑھ کر دلچسپی اور بے حد ہمدردی کرتے دیکھے جاتے‘انہیں مشکوک افراد کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
پولیس کوایک پہلو یہ بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ ممکن ہے ‘قتل کسی اور جگہ کیا گیا ہو اور یہ جگہ چونیاں شہر یا اسی قبرستان والی آبادی کے اندر یاا س سے کچھ دُورواقع کوئی گھر بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر یہ بچے کسی سکول میں پڑھ رہے تھے‘ تو پولیس کو چاہیے کہ کچھ ایسے بڑی کلاسوں کے دیہاتی یا شہری لڑکوں کی تلاش کی جاتی‘ جن سے یہ لڑکے سکول یا کھیل کے کسی میدان سے ان کو اپنے ساتھ رکھتے یا لے جاتے دیکھے گئے ہوں۔ ایسے لڑکوں کے کردار پر نظر رکھی جاتی۔ یہ خارج از امکان نہیں کہ قاتل ایک سے زیا دہ ہوں۔ پولیس کو سب سے زیا دہ اس پہلو کو سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ گمشدہ ان بچوں میں سے کتنے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور اپنی پڑھائی میں کتنی دلچسپی لیتے تھے؟کیا یہ سکول سے والدین کو بتائے بغیر اکثر غیر حاضر رہتے تھے؟ یا سکول اوقات کے دوران یہ بچے اپنی کلاس سے غائب ہو جاتے تھے؟ ان بچوں کی سب سے زیا دہ دلچسپی کن لوگوں اور کن کھیلوں میں رہتی تھی؟بعض اوقات بہت ہی معمولی سا سراغ قاتلوں تک پہنچنے میں مدد کر دیتا ہے۔ اس لیے کسی معمولی سے معمولی نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ کیا ان بچوں کے پاس ان کی مالی حیثیت سے زیا دہ پیسے دیکھے جاتے تھے ۔
ممکن ہے کہ قاتل پولیس کے خلاف ہونے والے ہنگاموں میں بھی شریک رہا ہو‘ جیسا کہ قصور والے زینب کیس میں ہوااور یہ امکان بھی ہے کہ میڈیا کی بریکنگ نیوز بننے اور ڈی پی او سمیت چونیاں کے پولیس افسران کی معطلی اور ٹرانسفر کی خبریں سننے کے بعد قاتل کہیں غائب ہو گیا ہو۔ کوئی تین ماہ قبل قصور کا ہی ایک واقعہ سب کے سامنے ہے کہ جب قصور سٹی تھانے میں اطلاع آئی کہ فلاں شخص کا بچہ غائب ہے‘ اس وقت قصور میںڈاکٹر آصف ڈی پی اوتھے۔ انہوں نے تمام ایس ایچ اوز کو سختی سے ہدایت کر دی کہ کسی بھی بچے اور بچی کی گمشدگی کی‘ اس کے لواحقین کی جانب سے اطلاع ملتے ہی فوراً انہیںرپورٹ کرنا ہو گی۔ اس لیے اطلاع ملتے ہی انہوں نے کسی قسم کا وقت ضائع کئے بغیر اس بچے کی رہائش گاہ سے ملحقہ‘ گلیاں‘ بازار ‘دکانیں‘ مساجد اور درباروں کے علا وہ ٹیوشن سینٹرز اور اکیڈمیز‘ سنوکر اور ویڈیوگیمز سینٹرز کا کونا کونا چھاننے کے علا وہ قصور تو ایک طرف اس ضلع کی حدود سے بھی باہر جانے والے ہر راستے اور ہر قسم کی ٹریفک کو بھی چیک کیا گیا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند دن میںمغوی بچے کو پولیس تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
چونیاںمیں بھی اگر پے د رپے ہونے والے واقعات میں پولیس نے اپنی روایتی تساہل سے کام نہ لیتی‘ جیسا کہ کھڈیاں تھانے میں لیا جا رہا ہے‘ تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا اور شاید اس طرف وزیر اعلیٰ اور آئی جی( پنجاب) کا دھیان اس وقت جائے گا‘ جب ان بچوں کے بارے میں بھی ٹی وی چینلز پر اچانک بریکنگ نیوز چلناشروع ہوں گی۔