ایک ایسے معاشرے میں جہاں کتابیں پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہو‘ جہاں کتابیں وزن کے حساب سے بکتی ہوں، مواد کے حساب سے نہیں، جہاں بک سٹور اور کتاب گھر ویڈیو سٹور اور کباب گھروں میں تبدیل ہو رہے ہوں‘ نیوز سٹینڈ برگر سٹینڈ بن گئے ہوں، ایسے معاشرے میں کسی نئی کتاب کا شائع ہونا نہایت خوش آئند ہے۔ پاکستان پر اکثر کتابیں دوسرے ممالک کے مصنفین کی ہوتی ہیں؛ چنانچہ اگر نئی کتاب پاکستان ہی کی کسی معروف شخصیت کی تحریر کردہ ہو اور اس کا موضع بھی پاکستان کی تاریخ ہو تو اس کا ہمارے ہاں شائع ہونا معجزے سے کم نہیں۔ گزشتہ ہفتے لاہور میں ملک کی نہایت ہی قابل احترام‘ نامور شخصیت ایس ایم ظفر کی کتاب:Histroy of Pakistan Reinterpreted کی رونمائی ہوئی۔ پاکستان کے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر ہم سب کو اس کتاب کی رونمائی کے حوالے سے مصنف کی اس سوچ اور تجربے کو acknowledge کرنے کا موقع ملا جس کے ساتھ انہوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔
ایس ایم ظفر صاحب کی 'تاریخ پاکستان نئی تعبیر کے ساتھ‘ یقیناً ایک منفرد کتاب ہے۔ اپنی کتاب کے ابتدائیے میں وہ تاریخ کو سچ کے سفر سے مشابہت دیتے ہیں اور یہ سفر کبھی ختم نہ ہونے والا سفر ہے۔ کتاب کا آغاز جمہوریت کے تاریخی مناظر کے ساتھ کیا گیا‘ اور پھر تفصیل سے پاکستان کی آئینی، سیاسی اور سماجی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے۔ کتاب پڑھتے وقت ایک حقیقت سامنے آتی ہے۔ یہ کہ ایس ایم ظفر پاکستان کی تاریخ کا خود ایک اہم ستون رہے ہیں اور مختلف ادوار میں بڑے بڑے فیصلوں کا حصہ نہیں تو چشم دید گواہ رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی لکھی ہوئی ہر چیز مستند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پا کستان کی تاریخ کے حوالے سے بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ استدلالی سطح پر بھی اور جذباتی لیول پر بھی۔ تاریخ کا تعلق محض ماضی کے دھندلکوں کیساتھ نہیں ہوتا‘ جن کو ہم اکثر اپنی یا اپنے بزرگوں کی غلطیاں سمجھ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ تاریخ بنیادی طور پر اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنے حال اور اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ہمارے آنے والے دنوں کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی سمت کا تعین کرنے میں رہنمائی دیتی ہے۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میں پاکستان کی مدوجزر سے بھرپور بحرانی تاریخ کے آئینی، سیاسی، معاشی، معاشرتی پہلوؤں کو اپنی وسعت نظر اور روشن فکری سے کھنگالنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ باقی سب ہم پر چھوڑ دیا ہے کہ ہم کس حد تک ان کی سوچ اور تحقیق سے مستفید ہوتے ہیں۔
تاریخ کی بات کرتے ہوئے میں ذاتی طور پر یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں اور ایس ایم ظفر پاکستان کی تقریباً ایک ہی جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ مجھ سے کچھ سال آگے تھے‘ تقریباً دس، گیارہ سال۔ جب یہ کالج میں تھے تو میں سکول میں تھا۔ ایس ایم ظفر تحریک پاکستان کا حصہ رہے۔ میں تحریک پاکستان سے پیدا ہونے والی Upheaval کا حصہ تھا۔ اُن کروڑوں پاکستانیوں کی طرح جنہوں نے قائد اعظم کے پاکستان کی خاطر اپنی ہزاروں سال پرانی تاریخ، شناخت، مٹی غرضیکہ سب کچھ چھوڑ کر ایک نئی قومیت اور نئی شناخت کا انتخاب کیا۔ ایک ایسے وطن کے لئے جو ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے عزت، عافیت، خوشحالی اور ترقی کا حصار ہونا تھا۔ ہم دونوں نے پاکستان بنتے ہوئے دیکھا، ٹوٹتے ہوئے دیکھا اور پھر حالیہ سالوں میں بکھرتے ہوئے بھی دیکھتے رہے ہیں۔ ایس ایم ظفر کی تمام تر روشن نظری کے باوجود ان کی کتاب میں یہ حقیقت بخوبی عیاں ہوتی ہے۔ میں ذاتی طور پر آج بھی اُسی پاکستان کی تلاش میں ہوں جس کی خاطر میں نے اور کروڑوں دوسرے پاکستانیوں نے اپنی ہزاروں سال پرانی شناخت چھوڑی تھی۔
ہمیں قائد اعظم کا وہ پاکستان اب تک نظر نہیں آیا‘ جس کے تصور کے ساتھ علامہ اقبال نے بر صغیر کے مسلمانوں میں ایک آزاد اور خوددار قومیت کا شعور پیدا کیا‘ اور جس کے تصور کے ساتھ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے پاکستان کی شکل میں ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔ قائد اعظم نے پاکستان کی صورت میں جس آزاد اور خود مختار مملکت کا تصور اپنے سامنے رکھا تھا وہ کوئی خیالی یا قیاسی وجود نہیں تھا۔ اس کا باقاعدہ ایک تاریخی Rationale تھا۔ ایک سیاسی جواز تھا۔ اخلاقی، ثقافتی اور تہذیبی حد بندی تھی۔ معاشی اور معاشرتی خدوخال تھے۔ مساوات، آئین اور قانون کی بالادستی پر مبنی ایک ترقی یافتہ جدید معاشرے کی باقاعدہ جہت تھی۔ مذہبی رواداری، معتدلی، رشوت اور کرپشن سے پاک معاشرہ اور حق اور انصاف پر مبنی فلاح و بہبود اس کے بنیادی اہداف تھے۔
آج بدقسمتی سے ہم ان سب اہداف سے محروم ہی نہیں بلکہ دنیا میں جاہلیت، انتہا پسندی، تشدد، دہشت گردی، لاقانونیت اور کرپشن کی مثال بن گئے ہیں۔ وہ جمہوریت جس کا خواب ہمیں اپنے Founding Father سے ملا، وہ اب تک خواب ہی ہے۔ پاکستان نام کی قومیت کہیں نظر نہیں آتی۔ خود کو ہم نے لسانی، نسلی اور مسلکی اکائیوں میں تقسیم کر لیا۔ بغیر کسی قومیت کے جذبے کے۔ اپنی قومی پہچان سے اتنے عاری ہوئے کہ اپنی قومی زبان تک استعمال نہ کر پائے۔ آج تک نظریہ پاکستان کو بھی طرح طرح کی Interpretations میں الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ آج تک ہمیں یہ بھی ادراک نہ ہو سکا کہ پاکستان کسی پنجابی، سندھی، مہاجر، بلوچی، پختون یا کسی ایک مسلک کی سوچ نے نہیں بنایا۔ پاکستان مسلم قومیت کی بنیاد وجود میں آیا۔ اور یہ واحد ریاست ہے جس کا نظریہ پہلے تخلیق ہوا اور جغرافیہ بعد میں۔
سات دہائیاں ہو گئی ہیں ہمیں آزاد ہوئے۔ آج بھی اپنی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دشمن نے آج تک ہمیں ذہنی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ دولخت کر دیا اور ابھی بھی کوئی موقع نہیں گنواتا۔ ہندوستان کی جارحیت ہمارے وجود کیلئے مسلسل خطرہ ہے۔ آج بھی کشمیر سمیت، سیاچن اور کارگل کے علاقوں پر‘ جو قانونی طور پر ہماری ملکیت ہیں‘ اس نے قبضہ کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے دشمن دروازے پر دستک نہیں دے رہا‘ دشمن ہمارے درمیان موجود ہے‘ اس گمراہ ذہنیت کی صورت میں جس نے پاکستان کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ اور یہ سوچ ہمیں زندگی کے مختلف شعبوں میں دکھائی دیتی ہے۔ بعض مقتدر شخصیات بھی پاکستان کو ابھی تک تاریخ کا ایک حادثہ قرار دیتی ہیں۔ لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری فوج‘ پاکستان کی فوج ملک کی آزادی، سلامتی اور سالمیت کی حفاظت کر رہی ہے۔ لیکن ملک کی آزادی، سلامتی، سالمیت اُس وقت تک بے معنی ہو گی جب تک ملک کی معیشت میں بہتری اور عوامی سطح پر خوشحالی نہ آئے۔ اس مقصد کے لئے حکومتوں کو اپنے بنیادی فرائض نبھانے ہوں گے۔ اچھے فیصلے کر کے، اچھی پالیسیاں بنا کر۔ حکمرانی کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ قائد اعظمؒ کے پاکستان کو امن چاہئے۔ انصاف چاہئے۔ صحت اور تعلیم کا نظام چاہئے۔ غربت اور پسماندگی سے نجات چاہئے۔ بدحالی سے چھٹکارا چاہئے ؎
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ سے پسپا نہیں ہوئے
ایک اور شعر ہے کہ ؎
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا
تمام منفی تاثرات کے باوجود ہمیں اپنی آزادی پر فخر ہونا چاہئے۔ آج ہم تمام بحرانوں اور چیلنجز کے باوجود دنیا کی چھٹی نیوکلیئر طاقت ہیں۔ عالمی سطح پر منفی Perception کے باوجود ہم Global فورم میں ایک کلیدی کردار کے حامل ہیں۔ اپنی جیوپولیٹیکل لوکیشن کی وجہ سے علاقائی اور عالمی سطح پر امن اور سلامتی کا اہم ستون ہیں۔ اپنی لوکیشن کی وجہ سے پاکستان آج دنیا میں ایک پل کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسروں کی جنگیں لڑنا بند کر دیں۔ اپنے ملک کی ترقی اور سلامتی کی طرف توجہ دیں۔ سیاسی اور اقتصادی استحکام کی طرف توجہ دیں۔ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے ہمیں اپنی تقدیر خود بنانا ہوگی۔ جس طرح جاپان، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، اور اب حالیہ سالوں میں افریقہ کے پسماندہ ملک روانڈا نے جنگوں کی تباہ کاریوں سے نکل کر اپنی تقدیر خود بنائی۔ اپنا مستقبل خود سنوارا۔
نیا پاکستان ہم نے خود بنانا ہے۔ چین، امریکہ یا کسی عرب ملک نے نہیں۔ پاکستان ہمارا اپنا وطن ہے۔ اس کے اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی استحکام کو بھی ہمیں سرانجام دینا ہوگا۔ اگر ہم اس میں کوتاہی کرتے رہے تو حصولِ پاکستان کے لئے دی گئی عظیم قربانیاں رائیگاں جائیں گی۔ وطن عزیز یقینا حکمرانی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے‘ لیکن زندہ قومیں مشکلات سے خائف نہیں ہوتیں بلکہ نئی ہمت اور نیا حوصلہ اکٹھا کرتی ہیں، اپنی منزل کی طرف بڑھتی ہیں۔ یہی پیغام ہے ایس ایم ظفر صاحب کا اپنی کتاب میں۔