تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     23-09-2019

میدان صاف یا صفایا

ڈینگی مچھر کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ادارے بے بس اور ڈینگی وبائی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے‘ جبکہ آنے والے دنوں میں اس بیماری کا مزید خطرہ بھی ہے۔ ملک بھر کے ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی کثیر تعداد بتا رہی ہے کہ انصاف سرکار نے انسداد ڈینگی کے لیے کام کرنے کے بجائے سارا سال ڈینگیں ہی ماری ہیں۔ سندھ کے علاقہ چوہڑ جمالی میں چار سالہ بچی کی میت تھرموپور کی شیٹ پر رکھ کر نہر پار کروائی گئی‘ حالانکہ اس صوبے میں ''بھٹو زندہ ہے‘‘ پروگرام زور و شور سے جاری ہے۔
سندھ کے حکمرانوں اور ان کے سر چڑھے رفقا و مصاحبین نے جو لوٹ مار کی ہے اگر اس لوٹ مار کی زکوٰۃ بھی مفادِ عامہ کے کاموں پر خرچ کی جاتی تو شاید صورتحال اتنی مایوس کن اور شرمناک نہ ہوتی۔ چند روز قبل گرفتار ہونے والے قائم خانی عوام کا خانہ خراب کرکے کس بے دردی سے قومی خزانہ لوٹتے رہے۔ اسی طرح خورشید شاہ کہاں سے چلے تھے‘ کہاں جا پہنچے۔ میٹر ریڈر سے قائد حزبِ اختلاف تک کا سفر یونہی نہیں کیا۔ جو پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا تھا‘ وہ ان سماج سیوک نیتائوں کی تجوریوں اور بینک اکائونٹوں سے برآمد ہورہا ہے جبکہ زرداروں اور زرداریوںکی ہر بات اور ہر واردات ہی نرالی ہے۔ اس کی تفصیل کے بارے میں عوام پہلے ہی بہت کچھ جانتے ہیں۔
'کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘ کے مصداق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو تبدیل کردیا ہے‘ گویا ان کا ٹینڈر منسوخ ہوگیا ہے۔ سال بھر میں ضلعی انتظامیہ نے گورننس اور میرٹ کے نام پر جو چار چاند لگائے‘ انہوں نے بزدار سرکار کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ حکمرانی اور گورننس کی ذمہ داری بے شک اللہ کی عطا ہوتی ہے‘ اس عطا میں خطا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ جو حکومت عوام میں آسانیاں تقسیم نہیں کرتی، درحقیقت وہ اپنے لیے مشکلات جمع کر رہی ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب حکمران انہی جمع کردہ مشکلات میں گوڈے گوڈے دھنس کر رہ جاتے ہیں۔ جیسے فیصلے زمین پر حکمران اپنے عوام کے لیے کرتے ہیں‘ ویسے ہی فیصلے آسمانوں پر ان حکمرانوں کے لیے قدرت کررہی ہوتی ہے۔ حکمران اچھے فیصلے کرتے ہیں تو آسمانوں سے ان کے لیے آسانیاں اور موافق حالات اترتے چلے جاتے ہیں اور جب حکمران عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتے اور ناموافق فیصلے کرتے ہیں تو آسمانوں سے بھی ان کے لیے نہ تو کوئی اچھی خبر آتی ہے اور نہ ہی فیصلے ان کے حق میں ہوتے ہیں۔ اور پھر منظرنامہ کچھ یوں نظر آتا ہے:
زمیں ناراض ہے کچھ ہم سے شاید
پڑا ہے پائوں جب الٹا پڑا ہے
جس ملک میں معصوم بچی کی لاش تھرموپور پر رکھ کر نہر پار کروائی جائے اور پاگل کتے کے کاٹنے پر بچہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی آغوش میں جا سوئے اور اس کی ذمہ داری اسی کے والدین پر ڈال دی جائے‘ اس ملک کے حکمرانوں کے اس ردعمل کو رعونت کہیں‘ ڈھٹائی کہیں‘ بے حسی کہیں‘ سفاکی کہیں‘ بے رحمی کہیں‘ بے شرمی کہیں‘ کیا کیا کہیں؟ ملک کے طول و عرض میں جا بجا، ہر سو، صبح و شام تواتر سے ایسے ایسے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جو حکمرانوں کی زبان و بیان سے لے کر طرزِ عمل تک اور نیت سے لے کر کردار تک سبھی کی قلعی کھول کر رکھ دیتے ہیں۔
دھرنوں اور انتخابی جلسوں جلوسوں میں جو بھاشن گلے پھاڑ پھاڑ کر دیئے جاتے تھے‘ عوام کے درد میں مرے جانے والے سماج سیوک رہنما نے کس شعلہ بیانی سے پولیس سٹیٹ سے لے کر ہسپتالوں کی حالت زار تک‘ اقربا پروری سے لے کر وسائل کی بندر بانٹ تک‘ گورننس سے لے کر میرٹ تک‘ پروٹوکول سے لے کر آنیوں جانیوں تک‘ سابق حکمرانوں کے طرز حکمرانی پر کب تنقید نہیں کی‘ کون سی تنقید نہیں کی؟ ان کے کون سے اقدام پر واویلا نہیں کیا؟ اپنا بل جمع کروا کے دھرنوں میں بجلی کے بل لہرا لہرا کر ادا نہ کرنے کی تلقین کون کیا کرتا تھا؟ دھرنوں اور انتخابی تحریکوں میں کیے جانے والے دعووں اور وعدوں کا چند فیصد بھی اگر سچ ہو جاتا تو بخدا صورتحال اتنی مایوس کن اور غیر یقینی ہرگز نہ ہوتی۔ انصاف سرکار عوام کو کس حال تک پہنچا چکی ہے‘ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
حکمران تو حکمران ان کے ذاتی رفقا اور مصاحبین ہی لٹیا ڈبونے کے لیے کافی ثابت ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی آسیب پھر گیا ہو جو حکمرانوں کو ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کر ڈالتا ہے‘ جو جگ ہنسائی سے لے کر پسپائی اور ندامت تک سے حکمرانوں کو دوچار کر دیتا ہے۔ مجال ہے جو کبھی کسی نے اس صورتحال سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ سبق حاصل کرنا تو درکنار‘ اگلا فیصلہ بھی ایسا کر ڈالتے ہیں جو سابقہ تمام فیصلوں سے ہونے والی سبکی، ندامت اور جگ ہنسائی کے ریکارڈ توڑتا نظر آتا ہے۔
وزیراعلیٰ اب جارہے ہیں‘ کب جارہے ہیں‘ بس جانے والے ہیں‘ یہ وہ باتیں ہیں جو عرصہ دراز سے چل رہی ہیں۔ اکثر یہ باتیں شدت اختیار کرجاتی ہیں۔ آج کل یہ بحث بھی عروج پر ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود گورننس اور ڈیلیور کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں‘ جبکہ دور کی کوڑی لانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ غیر منتخب مشیروں اور وزیراعظم کے سرچڑھے معاونین کے ہاتھوں مجبور ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ ڈیلیور نہیں کر پارہے۔ بزدار صاحب کو فری ہینڈ دینے کے لیے عون چوہدری اور شہباز گل کو فارغ کیا گیا ہے تاکہ وہ خود فیصلے کرسکیں۔ ڈپٹی کمشنر لاہور کی تبدیلی کے فیصلے میں ان کی خودمختاری کی جھلک نظرآرہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جناب بزدار وزیراعلیٰ تو بن گئے‘ لیکن صوبے کی انتظامی مشینری میں کس کا کیا کردار ہوگا‘ یہ معاملات کہیں اور طے ہو چکے تھے۔ اکثراہم تقرریوں اور تعیناتیوںکا معیار دیکھ کر صاف نظر آتا تھا کہ یہ تقرری نہیں بلکہ سیدھا سیدھا ٹینڈر ہے۔ اس کے پیچھے ہمیشہ وہی چیمپئنز سرگرم رہے جن کی رسائی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب سرکار کو مزید خودمختار اور مستحکم کرنے کے لیے ردِبلا کی غرض سے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ صوبائی کابینہ میں ان وزرا کو فارغ یا سائیڈ لائن کیا جاسکتا ہے جن سے وزیراعلیٰ ایڈجسٹ نہیں کرپائے‘ جبکہ کچھ ایسے نام بھی اس ''ردبلا پروگرام‘‘ کی زد میں آسکتے ہیں جن سے وزیراعلیٰ روزِ اول سے خائف رہے کہ ان کا نام متوقع وزیراعلیٰ کے طور پر بار بار سامنے آتا رہا ہے۔ یہ ساری کارروائی بزدار کو مستحکم کرنے اور معاملات چلانے کے لیے کیے جا سکتے ہیں۔ سیاسی پنڈت کبھی وزیراعلیٰ کے جانے کی بات کرتے ہیں تو کبھی انہیں مستحکم کرنے کے لیے میدان صاف اور موافق حالات فراہم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر انتیس سال پرانی سیاسی تاریخ یاد آرہی ہے کہ 1990میں نواز شریف پہلی مرتبہ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے وزیراعظم بنے تو انہیں پنجاب میں تمام فیصلوں اور اقدامات کی توثیق (جو انہوں نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کیے تھے) کے لیے کوئی کمزور اور یس مین ٹائپ آدمی درکار تھا۔ قرعہ غلام حیدر وائیں کے نام نکلا‘ جنہیں انہوں نے وزیراعلیٰ بنا ڈالا جبکہ اتحادیوں سمیت ان کی اپنی پارٹی میں شدید تنقید اور مخالفت کا بھی سامنا رہا‘ لیکن نواز شریف اپنی ترجیحات کے ہاتھوں مجبور تھے۔ انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور نہ صرف غلام حیدر وائیں کو وزیراعلیٰ بنایا بلکہ پنجاب کے تمام اہم معاملات بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ خود ہی چلاتے رہے۔ غلام حیدر وائیں کی کارکردگی اور گورننس دن بہ دن نواز شریف کے لیے سوالیہ نشان بنتی رہی اور حلیف اور حریف سبھی غلام حیدر وائیں کے خلاف متحد ہوگئے۔ نتیجہ عدم اعتماد کی صورت میں یہ نکلا کہ اختر بریو اور عارف نکئی نواز شریف کو خیرباد کہہ گئے۔ اس وقت کے سپیکر گیم پلے کے سرخیل نکلے‘ وزارت اعلیٰ پر ڈیل طے ہوئی اور غلام حیدر وائیں کو تبدیل نہ کرنے کی ضد اتنی مہنگی پڑی کہ نواز شریف کو تختِ پنجاب سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بہرحال یہ تاریخ ہے۔ جناب عثمان بزدار کے ردبلا کے لیے اگر پنجاب کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی گئی اور محض بزدار صاحب کو صاف میدان فراہم کرنے کے لیے میرٹ پر وزیر بننے والوں کو سائیڈ لائن کیا گیا تو پُرانے ماڈل والے چیمپئن پہلے ہی تیار بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہیں انہیں میدان صاف ملتا ہے یا صفایا ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved