عوام کی خدمت نہ کرنیوالے افسر عہدوں پر نہیں رہیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت نہ کرنیوالے افسر عہدوں پر نہیں رہیں گے‘‘ دراصل یہ افسر ہماری ریس کرنے کی کوشش میں کام نہیں کرتے‘ ان سے کوئی پوچھے‘ ہم تو حکومت کرنے کیلئے آئے ہیں‘ عوام کی خدمت کے لیے نہیں‘ اسی لیے میں نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے‘ ان سے کوئی پوچھے کہ عوام ڈینگی سے مر رہے ہیں اور آپ دفتر میں بیٹھی ہوئی ہیں‘ جبکہ آپ کو باہر نکل کر مچھر مارنے چاہئیں تھے اور اپنے عہدے کے حساب سے آپ کو روزانہ کم از کم پانچ سو مچھر مارنے چاہئیں تھے‘ لیکن آپ کے کریڈٹ پر پانچ مچھر بھی نہیں‘ بلکہ آج ہی ایک مچھر میرے ہاتھ پر بھی آ کے بیٹھ گیا‘ جو دراصل دایاں ہاتھ تھا‘ لیکن میں تو اسی ہاتھ سے مارا کرتا ہوں‘ تھوڑی دیر انتظار کیا کہ وہ بائیں ہاتھ پر بیٹھے تو میں اس کا قلع قمع کر دوں‘ کیونکہ دشمن کو دائیں ہاتھ سے ہی مارنا چاہیے۔کچھ میں نے اسے اس لیے بھی نہیں مارا کہ وہ ڈینگی نہیں ‘بلکہ ایک عام سا مچھر تھا۔ آپ اگلے روز گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے ملاقات کر رہے تھے۔
ملک کے 20 لاکھ افراد بیروزگار کر دیئے گئے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک کے 20 لاکھ افراد بیروزگار کر دیئے گئے‘‘ جس کی سب سے روشن مثال میں ہوں‘ کیونکہ رات رات بھر میرے اندر سے روشنی نکلتی رہتی ہے‘ جبکہ ان لوگوں کا بیروزگار ہونا اس لیے بھی مستحسن ہے ‘کیونکہ یہ سب کے سب میرے مارچ میں شامل ہو جائیں گے کہ بیکار گھر میں بیٹھ کر انہوں نے کیا کرنا ہے؟ اگرچے میرے ساتھ باہر نکل کر بھی انہوں نے کچھ نہیں کرنا اور پولیس کے ڈنڈے ہی کھانا ہیں اور کھانے کی ہر چیز سے میرا پیٹ بھر جاتا ہے‘ وہ ڈنڈے ہی کیوں نہ ہوں ‘جبکہ میرا بھی سب سے بڑا مسئلہ پیٹ ہی کا ہے۔ علاوہ ازیں‘ جب تک میرا مارچ یا دھرنا چلے گا‘ تب تک تو انہیں اپنے آپ کو بیروزگار نہیں سمجھنا چاہیے؛ حتیٰ کہ میں بھی اس وقت تک اپنے آپ کو بیروزگار نہیں سمجھوں گا ‘کیونکہ ساری بات سمجھنے ہی کی ہے‘ جیسا کہ پیپلز پارٹی والوں نے مارچ میں شامل ہونے سے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے صاف انکار کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے چھوٹے بھائی محمد اظہار الحق نے آج اپنے کالم ''تلخ نوائی‘‘ میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے: ؎
ان ظالموں پر قہرِ الہٰی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
لفظ ''پر‘‘ کی وجہ سے مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے ‘جس کی جگہ ''پہ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ذوالفقار چوہدری صاحب نے آج اپنے ایک کالم میں ایک شعر اس طرح نقل کیا ہے: ؎
خلافِ شرع شیخ تھُوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے میں چُوکتا بھی نہیں
اس کا درست پہلا مصرعہ اس طرح سے ہے ع
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
برادرم سعد اللہ شاہ نے آج اپنے کالم میں معروف شاعر ناصرؔ کاظمی کا شعر اس طرح درج کیا ہے:؎
ٹھنڈی رات جزیروں کی
وہ جنّت ماہی گیروں کی
اس کے دوسرے مصرعے میں لفظ ''وہ‘‘ فالتو ہے‘ جس سے اس شعر بے وزن ہو گیا ہے۔
محترمہ مریم ارشد نے اپنے ایک کالم میں فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
یہ گلیوں کے آوارہ کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
اس میں ''آوارہ‘‘ سے پہلے کا لفظ چھوٹتا ہےؔ‘ جس سے مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے۔ اصل لفظ تو مجھے یاد نہیں ہے‘ تاہم اگر مصرعہ اس طرح ہو تو وزن پورا ہو جاتا ہے ع
یہ گلیوں کے آوارہ بیکار کتے
واضح رہے کہ شعر ایک بیحد نازک اور لطیف چیز ہے‘ جس کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیے‘ کیونکہ شعر اگر بے وزن ہو جائے تو یہ شعر کی بھی بے عزتی ہے اور شاعر کی بھی۔ اس لیے بہتر ہے کہ شعر درج کرنے سے پہلے اس کی تسلی کر لی جائے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
آنکھ بھر اندھیرا
چمکتی ہیں آنکھیں/ بہت خوبصورت ہے بچہ/ وہ جن بازوئوں میں/ مچلتا ہے‘ لو دے رہے ہیں/ چہکنے لگے ہیں‘ پرندے/ درختوں میں پتّے بھی ہلنے لگے ہیں/ کہ لہراتے رنگوں میں/ عورت کے اندر سے بہتی ہوئی روشنی میں/ دمکنے لگی ہے‘ یہ دنیا/ وہ بچہ ----اسے دیکھے جاتا ہے/ ہنستے ‘ ہومکتے ہوئے/ اس کی جانب لپکنے کو تیار---- /عورت بھی کچھ/ زیرِ لب گنگنانے لگی ہے/ ----لجاتے ہوئے
کسی سرخوشی میں/ بڑھاتا ہے‘ وہ ہاتھ اپنے/ تو بچہ اچانک پلٹتا ہے/ اور ماں کے سینے میں چھپتا ہے/ عورت سڑک پار کرتی ہے/ تیزی سے ‘ گھبرا کے/ چلتی چلی جا رہی ہے----
کدھر کوئی/ آندھی سی چلتی ہے/ دیوار گرتی ہے/ شاعر کے دل میں/ وہیں بیٹھ جاتا ہے/ اور جوڑتا ہے‘ یہ منظر/ اندھیرے سے بھرتی ہوئی آنکھ میں----!
آج کا مطلع
چار سو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا